کیا ہمارے نظام تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟


نظام تعلیم کسی بھی ریاست کی عمارت کا ایک اہم ستون ہوتا ہے جس پر اس قوم کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے حکومتیں مختلف اقدامات کرتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی پاکستان کے نظام تعلیم میں بہت سی اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ کیا یہ تبدیلیاں مثبت ہیں یا منفی؟ کیا ان تبدیلیوں سے قوم کی ترقی ہوگی یا ترقی معکوس؟ یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

چند دن پہلے میں نے پاکستان کے ایک دانشور اور سائنسدان ڈاکٹر عزیز الحق کی ایک انگریزی کی تقریر پڑھی جو انہوں نے آج سے نصف صدی پیشتر کی تھی اور اس تقریر میں پاکستان کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے مشورہ بھی دیا تھا۔ یہ تقریر مغربی پاکستان کی کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اپنے مجلے میں شائع بھی کی تھی۔ میں اس تقریر سے بہت متاثر ہوا اس لیے اس تقریر کی تلخیص اور ترجمہ ’ہم سب‘ کے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

’خواتین و حضرات!

میں ماہر تعلیم تو نہیں لیکن پاکستان کا ایک ایسا پڑھا لکھا شہری ضرور ہوں جو اپنے دل میں اپنی قوم کا درد رکھتا ہے اور اس قوم کے مستقبل کے بارے میں فکرمند رہتا ہے۔ اسی لیے میں آج پاکستان کے نظام تعلیم کے بارے میں آپ سب ماہرین اور دانشوروں کے سامنے اپنے خیالات اور نظریات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

میں اپنی اس گفتگو کو آغاز اپنے ہی ایک تجربے سے کرنا چاہتا ہوں۔ میں پچھلے تین برس سے اس ادارے میں سائنسی تحقیق کر رہا ہوں جو

PAKISTAN COUNCIL OF SCIENTIFIC AND INDUSTRIAL RESEARCH

کہلاتا ہے۔ یہ ادارہ مختلف حوالوں سے تحقیق کرتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک صنعت کاری کی تحقیق اور ترقی میں ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے۔ صنعت کاری میں ترقی کرنا پہاڑی پر چڑھنے کی طرح مشکل اور جانگسل کام ہے۔ اس کے لیے نہ صرف بہت سے تحقیقی اداروں کی بلکہ بہت سے کامیاب اور محنتی سائنسی محققین کی بھی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے جو سائنسدان ان اداروں میں کام کر رہے ہیں ان کے پاس ماسٹرز کی ڈگری تو ہے لیکن تحقیق کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

وہ ٹیکنیشن تو ہیں محقق نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں جو طلبا سائنس میں ماسٹرز کرتے ہیں وہ پرانے نظریات تو دہرا لیتے ہیں لیکن نئے نظریات دریافت کرنے کی ہمت اور حوصلہ نہیں رکھتے۔ وہ روایت کی شاہراہ پر تو چل سکتے ہیں لیکن نئی فکر کی پگڈنڈی نہیں بنا سکتے۔ وہ روایتی سوچ پر اکتفا کرتے ہیں کیونکہ وہ تنقیدی سوچ سے محروم ہیں اسی لیے وہ نئی تحقیق میں کامیاب نہیں ہوتے۔

ہم جانتے ہیں کہ سائنس اور ٹکنالوجی جدید دور کی اہم ضرورت ہے۔ ہمارے گریجوئیٹ ایک عام انسان سے صرف اس حوالے سے مختلف ہیں کہ ان کے ذہن سائنسی معلومات کا گودام بن چکے ہیں۔ ایسی معلومات جو انہوں نے کسی خارجی زبان میں جمع کی ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بدلنا ہو گا تا کہ ہم سائنسی محققین پیدا کر کے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں اور جدید دور کے تقاضے پورے کر کے مہذب اور ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہو سکیں۔

ہمارے نظام تعلیم کی بنیادی خامی اور کمی اس کا آمرانہ رویہ ہے۔ یہ نظام فیوڈل اور بادشاہانہ نظام کا پروردہ ہے۔ اگر ہم نے اپنا نظام بدلنا ہے تو ہمیں اسے جمہوری اور عوام دوست بنانا ہو گا۔ آمرانہ اور حاکمانہ سوچ سائنسی اور تحقیقی سوچ سے لگا نہیں کھاتے۔ ہمارے ہاں نظام تعلیم میں مذہب اور اخلاقیات کا اتنا زیادہ اثر ہے کہ طلبا کو روایت کو چیلنج کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ طلبا سوال پوچھیں تو گستاخ قرار دیے جاتے ہیں اور سوال کرنا سائنسی سوچ اور تحقیق کے لیے ناگزیر ہے۔

میرا فیوڈل ’آمرانہ اور حاکمانہ نظام پر اعتراض مذہبی یا اخلاقی حوالے سے نہیں بلکہ ایک حقیقت پسند انسان اور سائنسدان ہونے کے حوالے سے ہے۔ سائنس کی تحقیق کے لیے ایک جمہوری فضا ضروری ہے تا کہ طلبا و طالبات پرانے نظام کو چیلنج کر کے نئے نظام کی بنیادیں رکھ سکیں۔ جب تک ہم سائنسی محققین نہیں بنائیں گے ہم سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی نہیں کر سکتے۔

امید ہے اب تک کی گزارشات میں میں نے نظام تعلیم کے ایک اہم مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کر دیا ہو گا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا ممکنہ حل کیا ہو سکتا ہے؟

اگر ہم مثالیت پسندی کو خیرباد کہہ کر حقیقت پسندی کی راہ اپنائیں تو ہم اپنے نظام تعلیم میں ایک بنیادی تبدیلی کر سکتے ہیں جو ہمارے طلبا و طالبات کو سائنسدان بننے اور سائنسی تحقیق کرنے میں ممد ثابت ہو سکتی ہے۔

ہمیں طلبا و طالبات کو سائنسی نظریات پڑھانے اور رٹا لگوانے کی بجائے یہ سکھانا چاہیے کہ وہ نظریات کس طرح معرض وجود میں آئے۔ ہمیں طلبا و طالبات کو یہ سکھانا چاہیے کہ تاریخ کے مشہور سائنسدان بھی ان کی طرح عام انسان تھے جنہوں نے نئے انداز سے سوچنا اور مسائل کو حل کرنا سیکھا۔ ہمیں انہیں تحقیقی اور تنقیدی سوچ سے متعارف کروانا چاہیے کیونکہ تحقیقی اور تنقیدی سوچ ہی وہ مادہ ہے جس کی کوکھ سے سائنس کے نئے نظریات پیدا ہوتے ہیں وہ اندھے ایمان کی کوکھ سے پیدا نہیں ہوتے۔

ہمارا روایتی نظام طلبا و طالبات کو یہ سکھاتا اور پڑھاتا ہے کہ نیوٹن ’گیلیلیو اور آئن سٹائن سائنس کے پیغمبر تھے جنہیں جدید سائنسی نظریات کا خدا کی طرف سے الہام ہوتا تھا۔ ایسی سوچ سائنس کی ترقی کے لیے بہت مضر ہے۔ ہمیں طلبا و طالبات کو یہ سکھانا ہے کہ سائنس میں تحقیق اور محنت شاکہ الہام سے زیادہ اہم ہے۔ جو قومیں محنت اور ریاضت کرتی ہیں وہ اعلیٰ سائنسدان بھی پیدا کرتی ہیں اور ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہوتی ہیں۔

جب طالب علم ان راستوں سے آشنا ہو جاتے ہیں جن سے گزر کر سائنسدان نئے نظریات کی منزل تک پہنچتے ہیں تو ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ اغیار کی دریوزہ گری کرنے کی بجائے اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کے مسائل خود حل کرنا سیکھتے ہیں اسی طرح سائنس بھی ترقی کرتی ہے اور قوم بھی۔

خواتین و حضرات!

آپ سائنسی دنیا اور نظام تعلیم کے معمار ہیں اگر آپ کو میرا مشورہ پسند آئے تو آپ ایسی درسی کتابیں تخلیق کریں جو طلبا و طالبات کو روایتی نظریات کو حفظ کرنے کی بجائے تحقیقی اور تنقیدی سوچ سے متعارف کروائیں اور انہیں سائنسدان بننے کی تحریک دیں۔ ایسی سوچ کی کوکھ سے نئے سائنسی نظریات پیدا ہوں گے اور ہماری قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوگی ورنہ ہم ترقی کرنے کی بجائے ترقی معکوس ہی کرتے رہیں گے۔

میری گزارشات کو غور سے سننے کا شکریہ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments