سلطنت امریکہ میں کس کا راج چلتا ہے؟


تاریخ انسانی میں کئی عظیم سلطنتوں کا ذکر سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے لیکن کسی بھی سلطنت میں اصل طاقت کا سرچشمہ کون رہا، وہاں کس کا راج چلتا تھا، یہ سوالات اپنی جگہ بڑے دلچسپ ہیں۔ ماضی میں شخصی حکومتیں قائم رہیں اس لیے وہاں کے حکمران کا فرمان حرف آخر ہوتا تھا لیکن جدید معاشرے میں لوگوں پر حکومت کرنے کا تصور بدل رہا ہے۔ اب بھی دنیا کے اکثر ممالک میں آمریت کا راج ہے، وہ چاہے ایک فرد یا خاندان کی صورت میں ہو یا پھر کسی ایک پارٹی کے طور پر۔ مگر امریکہ جیسی دنیا کی سب بڑی مضبوط جمہوری، معاشی اور فوجی مملکت میں کس کا راج چلتا ہے، آئیے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔

امریکہ میں بسنے والی ارب پتی لوگوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے جن کی دولت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے 2021 ء میں ٹاپ ٹین امیروں میں سے آٹھ امریکی شہری ہیں جن کے کل سرمائے کی مالیت 919 بلین امریکی ڈالرز بنتی ہے۔ ان کا سرمایہ کئی ممالک کے جی ڈی پی سے زیادہ ہے لیکن کیا امریکی ریاست میں ان کا حکم چلتا ہے، بالکل نہیں۔ انہوں نے اپنی محنت، تخلیقی صلاحیتوں اور سرمایہ کاری سے دولت ضرور کمائی لیکن شاید الیکشن لڑنے کی صورت میں وہ اپنی سیٹ بھی نہ بچا پائیں۔

امریکہ میں اپنی ذاتی زمینیں اور جاگیریں رکھنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ امریکہ کے دس بڑے جاگیرداروں کے پاس 2018 ء کے شماریات کے مطابق 13 ملین ایکڑ زمین ہے جو دنیا کے کئی ملکوں کے کل رقبے سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ صرف ایک ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کا مالک، امریکی ریاست نیو میکسیکو میں 22 لاکھ ایکڑ رینچ لینڈ کا مالک ہے اور ایک میڈیا کمپنی کا فاؤنڈر 20 لاکھ ایکڑ زمین کی ملکیت رکھتا ہے جس کی زمینوں پر، دنیا میں، جانوروں کے سب بڑے ریوڑ چرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ اتنی بڑی جاگیروں کے مالک ہیں مگر ممکن ہے نوے فیصد سے زیادہ امریکیوں کو ان کا نام بھی پتہ نہ ہو۔

امریکہ کی بڑی کارپوریشنز بھی طاقت اور سرمائے میں کسی سے کم نہیں۔ ان کی دولت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کچھ امریکی کمپنیوں کے سی ای اوز سالانہ کی تنخواہ، افریقہ کے کئی ممالک کے کل جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے۔ یہ کارپوریشنز انتخاب میں لابنگ کے لیے سرمایہ تو فراہم کر سکتی ہیں اور اپنے اپنے مفاد کا تحفظ تو یقینی بناتی ہیں مگر امریکہ میں ان کا سکہ صرف اس وقت تک چلتا ہے جب ان کے سرمائے بننے والے حکمران بر سر اقتدار رہیں۔ اسی طرح امریکہ میں کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جو اپنے سرمائے اور طاقت کے لحاظ سے دنیا میں نمبر ون شمار کیے جاتے ہیں لیکن ان کی حیثیت بھی کنگ میکر سے زیادہ کچھ نہیں۔

امریکہ میں عملاً دو سیاسی پارٹیوں کی حکمرانی رہتی ہے۔ ان سیاسی پارٹیوں کی بنیاد اور عوام میں جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں لیکن ان کا ایک غلط سیاسی فیصلہ انہیں الیکشن میں حکمرانی کے کھیل سے باہر کر سکتا ہے۔ پارٹی کے سربراہ کے کسی چھوٹے سے سیکنڈل سے ملک میں بڑا سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے اور اس کی وجہ سے پارٹی کی مقبولیت کا گراف گر کر بہت نیچے آ جاتا ہے۔ امریکہ میں سیاسی پارٹیوں کی حیثیت ٹرین کے انجن سے زیادہ نہیں جو اپنے ساتھ لگی کئی بوگیوں کو کھینچ کر لے جانے کا ذمہ دار ہے۔ لیکن انجن میں بیٹھے ڈرائیور کی ایک چھوٹی سی غلطی یا ریل کی پٹری خراب ہونے کی وجہ سے پوری ٹرین ڈی ریل ہو سکتی ہے۔

امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ، ڈیپ سٹیٹ اور مقتدر حلقے بھی کم طاقتور نہیں۔ دنیا میں بڑی بڑی حکومتیں کے گرانے اور بنانے میں انہی حلقوں کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ کے اندر بھی پالیسی سازی میں یہ گروہ کسی حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن امریکہ میں عوامی نمائندوں اور نوکر شاہی کی جواب دہی کا نظام اتنا مضبوط ہے کہ ساری دنیا نے دیکھا کہ سپریم کورٹ کے لیے نامزد ہونے والا ایک معزز جج 2018 ء میں پارلیمانی کمیٹی کی سماعت کے دوران آنسو بہا رہا ہے اور اپنے اوپر لگنے والے الزام کی صفائی اور اپنی بے گناہی پر پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ طاقتور ضرور ہے لیکن تیسری دنیا کے ممالک کی طرح بے لگام نہیں۔

اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ امریکہ میں اگر امیر ترین لوگ، بڑے بڑے جاگیردار، بڑی بڑی کارپوریشنز، سیاسی اشرافیہ، مضبوط انتظامیہ کا راج نہیں تو کون ہے جو دنیا کی اتنی بڑی طاقت، اس کے پیچیدہ نظام، اس کی معیشت اور وہاں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے امریکہ میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے جس نے معاشرے کو مضبوطی سے جوڑ رکھا ہے۔ مگر 2021 ء میں کیپٹل ہل ویو پر حملہ، 2020 ء کے نسلی فسادات کے دوران املاک میں لوٹ مار، 9 / 11 کے بعد دہشت گردی کے لیے بنائے جانے والے قوانین میں ایک مخصوص مذہبی گروہ کی پکڑ دھکڑ، یہ سب قصے تو کسی اور جانب ہی اشارہ دے رہے ہیں۔ تو پھر کون ہے جس کا راج سلطنت امریکہ پر چل رہا ہے؟

راج کرنے سے یہاں یہ مراد نہیں کہ کسی جبر کے ذریعے شہریوں کو خوف میں مبتلا رکھ کر انہیں تابعدار بنایا جائے یا سہولتیں فراہم کر کے انہیں خاموش کروا دیا جائے۔ راج سے مراد سزا اور جزا کا تصور، وہ اطمینان جو شہری اپنے دل میں محسوس کریں کہ وہ محفوظ ہیں، وہ بلاخوف و خطر شاہراہوں پر اپنی گاڑیاں دوڑا سکیں، گھر میں سکون کی نیند سو سکیں، اپنے کاروبار کو فروغ دے سکیں، انویسٹمنٹ کریں، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں سے استفادہ حاصل کر سکیں، کام کرنے والی جگہوں پر انہیں تحفظ کا احساس رہے، مرنے کی صورت میں ان کے گھر کا چولہا نہ بجھے، اگر کوئی ان کے حق پر ڈاکا ڈالے تو ان کی مناسب دلجوئی ہو۔

ذرا سوچیے، آپ شہر کے گنجان علاقے میں ڈرائیونگ کر رہے ہوں، آپ اپنی لین میں ہوں، آپ کی غلطی بھی نہ ہو اور کوئی آپ کی گاڑی کو ٹکر مار کر چلا جائے جس سے آپ کو شدید چوٹیں آئیں، آپ کی گاڑی تباہ ہو جائے، آپ کئی ہفتوں تک اپنے کام پر نہ جا سکیں تو اس ساری صورتحال میں کون ہے جو آپ کے نقصان کا مداوا کرے گا۔ قانون شاید حرکت میں آئے، آپ کا مجرم پکڑا بھی جائے، زیادہ سے زیادہ اسے کچھ مہینوں کی جیل ہو گی اور وہ پھر باہر آزاد گھومنے لگے گا، لیکن اس سے آپ کا نقصان کیسے پورا ہو گا۔ گھبرائیے نہیں، آپ کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی ہے اور امریکہ میں اسی کا راج چلتا ہے۔

فرض کیا، آپ کسی بڑے سٹور پر خریداری کے لیے جاتے ہیں، وہاں صفائی کرنے والا عملہ ”احتیاط کریں، فرش گیلا ہے“ کا سائن بورڈ رکھنا بھول گیا، آپ کا پاؤں پھسلا، آپ گرے، آپ کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی اور آپ کئی ماہ تک بستر پر پڑے رہے، کسی کی چھوٹی سی غلطی سے آپ کی زندگی کی ساری روٹین متاثر ہو گئی، آپ کی نوکری چلی گئی یا آپ کا کاروبار تباہ ہو گیا تو صفائی کرنے والے عملے کی اس غلطی کا خمیازہ کون بھگتے گا۔ سٹور کا مالک غلطی کے مرتکب عملے کو ملازمت سے نکال بھی دے لیکن اس سے آپ کو کیا فائدہ ہو گا۔ ٹھہریے، پریشان مت ہوئیے، کوئی ہے جو کسی کی چھوٹی سی غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے بھی تیار ہے وہی جس کا امریکہ میں راج چلتا ہے۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انتہائی قابل اور پیشہ ور لوگ بھی کسی بڑی پیشہ وارانہ غلطی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں جس کا نقصان ان کے کلائنٹس کو بھگتنا پڑتا ہے مثال کے طور پر آپ کسی ڈاکٹر کے پاس گئے، اس کی ایک پیشہ وارانہ غلطی سے آپ کی کوئی غلط رگ کاٹ دی گئی۔ اس غلطی کی وجہ سے آپ زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئے تو ایسی صورت میں ڈاکٹر کی غلطی کو محض یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بھی انسان ہے اور ہر انسان سے غلطی ہو سکتی۔ کوئی تو ہو جو اس کے کیے کی ذمہ داری اپنے سر لے اور پیشہ ورانہ غلطی کا نشانہ بننے والے کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔ جی، تو امریکہ میں کوئی ہے جو پیشہ ورانہ غلطیاں سر زد کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ان کا نشانہ بننے والوں کے سر پر ہاتھ بھی رکھا جاتا ہے۔

سوچیے کہ آپ نے اپنی زندگی بھر کی کمائی سے ایک خوبصورت گھر بنایا، اس کے لیے بنک سے قرضہ بھی لے رکھا ہے اور اچانک ایک شارٹ سرکٹ سے آپ کا گھر جل کر خاکستر ہو جاتا ہے تو ایسے میں آپ کا کیا حال ہو گا۔ لیکن ایسی صورت میں وہاں کوئی ہے جس کی مدد سے آپ گلیوں میں سونے سے بچ جائیں گے۔ آپ کو فوری طور پر کسی تھری یا فور سٹار ہوٹل میں رہنے کے لیے جگہ مہیا کی جائے گی اور آپ کے ہونے والے نقصان میں حصہ دار بھی بنا جائے گا۔

چلیں ایک اور چھوٹی سی مثال دیتے ہیں جس سے امریکہ میں راج کرنے والے کی اہمیت اور واضح ہو جائے، آپ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سالانہ چھٹیاں منانے کسی پرفضا مقام پر جا رہے ہیں تاکہ سال بھر محنت کرنے سے لگی تھکن کو مٹایا جا سکے اور آپ کا سٹریس لیول کم ہو جائے لیکن ابھی آپ اپنی منزل مقصود پر نہیں پہنچے اور موسم کی خرابی کی وجہ سے راستے میں ہی آپ کی فلائیٹ کینسل یا منسوخ ہو جاتی ہے، آپ کو ہوائی کمپنی کی طرف سے آپ کا کرایہ بھی ری فنڈ کر دیا جاتا ہے مگر آپ کو راستے پر رک کر اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے کچھ دن اور انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ممکن ہے آپ کو کسی ہوٹل پر چند دن کے لیے قیام کرنا پڑے جس سے آپ کا سارا تفریحی بجٹ ڈسٹرب ہو جائے اور شاید آپ کو واپس گھر لوٹنا پڑے۔ لیکن اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، کوئی ہے جس کے پاس آپ کے مسائل کا حل ہے۔ وہ ناگہانی صورت میں آپ کا مدد گار ہو گا۔

تو آئیے ملتے ہیں اس جناتی طاقت رکھنے قوت سے جو ہر مشکل میں آپ کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے، جس کا امریکہ جیسی سپر پاور پر راج چلتا ہے، جس نے ملک و قوم ضابطوں کے بندھن میں باندھ رکھا ہے، جس کے سہارے امریکہ کی معیشت پروان چڑھتی ہے اور ایک متنوع معاشرہ تحفظ کی ڈور میں بندھا ہوا ہے، وہی فورس جو امریکہ میں قانون اور ضوابط کے موثر اطلاق کے پیچھے کھڑی نظر آتی ہے، جس کا امریکہ میں راج چلتا ہے تو وہ ہیں امریکہ میں قائم جناتی طاقت رکھنے والی انشورنس کمپنیاں جو لوگوں کی جان، مال اور جائیداد کے تحفظ کا رسک اپنے سر اٹھاتی ہیں۔

سچ کہتے ہیں کہ اس کاروبار حیات میں جو زیادہ رسک اٹھا تا ہے، وہی زیادہ پھل کھا تا ہے۔ ویسے تو انشورنس انڈسٹری کا امریکہ کی جی ڈی پی میں حصہ چار فی صد سے بھی کم ہے لیکن ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اگر امریکہ میں انشورنس کے قواعد و ضوابط کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کیسے وہاں انشورنس کمپنیاں، لوگوں کے رویے اور عادات کو کنٹرول کرتی ہیں، ملکی قوانین انہی کے ضابطوں کے تابع بنتے ہیں، وہ ہر طرح کے خطرات اپنے سر مول لے کر منافع کماتی ہیں۔ امریکہ میں، انشورنس فرینڈلی ماحول بر قرار رکھنے کے پیچھے، ریاست کی طاقت ہے جو ہر وقت انشورنس کمپنیوں کی پشت پر کھڑی ہے۔ امریکی ریاست، جہاں انشورنس کمپنیوں کی مدد گار ہے وہاں وہ کمپنیوں کے منافع پر نظر بھی رکھتی ہے اور اسے بے قابو ہونے سے روک دیتی ہے۔

ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ میری ڈرائیونگ کی ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ میری اور میرے سامنے والی کار کا کافی نقصان ہو گیا۔ مجھے انشورنس کمپنیوں کی اہمیت کا اندازہ تب ہوا جب مجھے اپنے لگ بھگ پچیس ہزار ڈالر کے نقصان سے ذرا بھی پریشانی نہیں اٹھانا پڑی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرا یہ نقصان برداشت کرنے کے لیے میری انشورنس کمپنی میرے ساتھ کھڑی تھی۔ میں اس کمپنی کا پرائم ممبر تھا اور وہ میرا پہلا کار حادثہ تھا۔ میری انشورنس کمپنی نے نہ صرف میری کار کا نقصان برداشت کیا بلکہ سامنے والے کی کار کے نقصان کا ایک ایک پیسہ چکتا کیا۔ میں اپنی غلطی پر پشیمان تو تھا لیکن مجھے صرف دو سو پچاسی ڈالرز کے جرمانے کے علاوہ کسی ہزیمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میری زندگی ایک گھنٹے کے لیے بھی متاثر نہیں ہوئی کیونکہ میری انشورنس کمپنی نے مجھے رینٹ اے کار کی سہولت بھی دے دی تاوقتیکہ میں نے اپنی نئی کار خرید لی۔

اسی طرح میں امریکہ میں مقیم ایک اور بڑی پاکستانی کاروباری شخصیت کو جانتا ہوں جن کے بیٹے کے علاج پر کئی ملین ڈالرز کے اخراجات آئے۔ بقول ان صاحب کے اگر انشورنس کمپنی اس کے بچے کے اخراجات برداشت نہ کرتی تو وہ اور ان کے باقی گھر والے کنگال ہو کر سڑک پر آ جاتے یا پھر بیٹے کی بیماری کو خدا کا لکھا سمجھ کر برداشت کرتے اور اسے مرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیتے۔ سب سے مزے کی بات یہ کہ ان کے بیٹے کی ہیلتھ انشورنس کی سہولت بھی اس کمپنی کی طرف سے دی گئی تھی جس میں اس نے صرف چند ماہ ہی کام کیا تھا اور پھر اسے ایک موذی مرض نے آ گھیرا جو بالآخر اسے موت کے منہ تک لے گیا لیکن وہاں کی انشورنس کمپنیاں اس خاندان کے ساتھ آخری دم تک کھڑی رہیں یہاں تک کہ اس کی تدفین کے اخراجات جو کسی صورت بھی بیس یا تیس ہزار ڈالر سے کم نہیں ہوں گے وہ خرچہ بھی انشورنس کمپنی نے برداشت کیا۔

ہمارے ہاں اکثر لوگ انشورنس کمپنیوں پر طرح طرح کے اعتراض اٹھاتے ہیں لیکن میرا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ کیپیٹل ازم کی اصل روح انشورنس کا مربوط نظام ہے۔ جس میں ہر شہری کو اس کے جان، مال اور کاروبار کے تحفظ کا سامان مہیا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس میں شہریوں کو اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ آپ خود سوچیں اگر آپ سو پچاس ڈالرز ماہانہ ادا کر کے ہاف ملین یا اس سے بھی زیادہ کا تحفظ خریدتے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ یہ بھی تو دیکھیے کہ آپ کے نقصان کی صورت انشورنس کمپنی کو ہاف ملین ادا کرنے پڑ سکتے ہیں۔

سچ تو یہ کہ شہریوں کے جان، مال یا کاروبار کے نقصان کی ذمہ دار ریاست کو ہونا چاہیے لیکن وہاں بھی تو ہمیں ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور ٹیکس ادا کر کے بھی ہم بدعنوان قسم کی اشرافیہ اور ان کے حرام خور ہرکاروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ شاید اسی لیے کیپٹل ازم میں ریاست نے یہ ذمہ داری بانٹ لی ہے۔ وہاں ہر شخص کو کام کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، جس سے حاصل ہونے والے معاوضے سے وہ اپنے لیے، اپنی مرضی کا تحفظ خرید سکتے ہیں۔ ریاست کا کام بس اتنا رہ جاتا ہے وہ انشورنس کے رائج قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور منڈی کو مسابقتی عمل کے ذریعے کنٹرول میں رکھے۔

امریکہ میں کوئی گاڑی بغیر انشورنس کے سڑک پر نہیں آ سکتی، وہاں کسی کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ملتی جب تک وہ اپنی کاروباری جائیداد اور گاہکوں کے تحفظ کے لیے مناسب بیمہ پالیسی حاصل نہ کرے، کوئی ڈاکٹر کسی مریض کو ہاتھ نہیں لگا سکتا جب تک اس نے پیشہ ورانہ کوریج حاصل نہ کر رکھی ہو۔ کارخانوں میں کام کرنے والے ہر شخص کے لیے ورکرز کمپنسیشن کا ہو نا ضروری ہے، ہسپتال میں جانے کے لیے بھی آپ کے پاس انشورنس کا ہونا لازمی ہے۔ اگر آپ اس قابل نہیں کہ ہیلتھ انشورنس خرید سکیں تو حکومت اس کا خرچہ برداشت کرتی ہے حتی کہ کوئی انشورنس ایجنٹ اس وقت تک کوئی بھی بیمہ پالیسی نہیں بیچ سکتا جب تک اس کے پاس انشورنس کا کاروبار کرنے کا لائسنس اور اپنی پیشہ ورانہ کوریج نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments