ایک اپاہج بیٹی


وہ روسٹم پر کھڑی سب سے اپنے مستقبل کے خواب اور منصوبے شیئر کر رہی تھی۔ کانفرنس کے تمام شرکاء بڑے انہماک سے اس کی جد و جہد زندگانی کی کہانی سن رہے تھے۔ اس کی باتیں سن کر پہلے حاضرین نے خوب تالیاں بجائیں، لیکن اس دوران وہ مرحلہ بھی آیا جب تالیوں کے بجنے کی آواز آنا بند ہو گئی، ہال میں مکمل سکوت چھا گیا اور سامعین تالیاں بجانے کی بجائے آنسو بہا رہے تھے۔

وہ اپنے سامعین کو بتا رہی تھی کہ جس دھرتی پر اس نے جنم لیا وہاں بیٹی کی پیدائش کو خدا کی طرف سے رحمت سمجھا جاتا ہے۔ ماں سے اتنی محبت کہ لوگ زمین کو بھی دھرتی ماں کہتے ہیں۔ ماں کو خدا کا دوسرا روپ سمجھ کر پوجنے والے بھی کم نہیں۔ ایک بیٹی ہر گھر کا سکھ، باپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک، ماں کی ہم جولی، شوہر کا سہارا، بچوں کی جنت اور امن و شانتی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

اس دختر مشرق نے اپنی تقریر میں مشرق کی عورت کے کئی روپ گنوا دیے اور اس کی ہر بات پر خوب تالیاں بجیں۔ پھر اس نے اپنے مستقبل کے منصوبوں کا ذکر کیا کہ وہ واپس اپنے وطن پاکستان جا کر اپنے ”احساس“ پراجیکٹ کا آغاز کرے گی اور اپنی حکومت سے خصوصی ضروریات رکھنے والے افراد کے مسائل پر توجہ دینے کی اپیل کرے گی۔ جس میں سر فہرست، معذور افراد کے لیے الگ راستے بنانا، کار پارکنگ، پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات اور ان کے لیے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لانا شامل ہے۔

عائشہ جب تین سال کی تھی تو پولیو کے حملے نے اسے ایک ٹانگ سے معذور کر دیا۔ وہ ایک عالمی کانفرنس میں شمولیت کے لیے امریکہ آئی ہوئی تھی۔ امریکہ یاترا میں، عائشہ کو وہاں کے معذور افراد کو حاصل خصوصی حقوق اور سہولیات کو سمجھنے اور ان کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔ کانفرنس کے بعد وہ اپنی آنکھوں میں بڑے خواب سجائے اپنے ملک واپس آئی اور معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے ایک بڑا پراجیکٹ ڈیزائن کر کے حکومت کے مختلف اداروں سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔

عائشہ کے دیس میں اس کی حالت دیکھ کر ہمدردی جتلانے والے تو بہت تھے لیکن کوئی اس کی بات پر ہمدردانہ غور کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہ جس فورم پر اپنی تجاویز اور پرپوزل لے کر جاتی وہاں بیٹھا کوئی فرعون نما شخص اس کی ہمت توڑ دیتا۔ اسے بتایا جاتا کہ، بی بی یہاں اور بہت مسائل ہیں، یہاں صحیح سلامت لوگ رل رہے ہیں اور تم اپاہجوں کی بات کرتی ہو۔ یہ سن کر عائشہ کا اپنے معذور ہونے کا دکھ اور گہرا ہو جاتا۔ اسے کون سمجھاتا کہ اپاہج وہ نہیں، اپاہج تو وہ نظام ہے جس کا وہ حصہ تھی۔

عائشہ نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں بیٹوں کے پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کی پیدائش پر بھی شکرانے کے نفل ادا کیے جاتے تھے۔ اس کا باپ خوش تھا کہ اس کے ہاں چاند جیسی بیٹی پیدا ہوئی۔ اس کی ماں نے شکر کے نوافل پڑھے کہ رب نے اس کی بیٹیوں کی جوڑی بنا دی اور وہ بڑی ہو کر ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹ لیں گی۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ ان کے گھر میں پیدا ہونے والی بیٹی پورے کنبے کو امتحان میں ڈال دے گی۔ شاید تقدیر کا لکھا یہی تھا، شاید کسی کو کسی کا امتحان لینا مقصود تھا۔

عائشہ نے دو سال کی عمر سے پہلے ہی اپنے پاؤں پر چلنا شروع کر دیا۔ وہ ایک متحرک بچہ تھی لیکن جب تین سال کی ہوئی تو ایک دن گھر کے صحن میں چلتے چلتے اچانک وہ لڑکھڑانے لگی۔ اس کی ماں گھبرائی، اس نے بیٹی کو گود لیا تو اس کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا تو طبیب نے ماں باپ کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا، مجھے افسوس ہے کہ آپ کی بیٹی پر پولیو کا حملہ ہوا ہے اور شاید وہ عمر بھر کے لیے چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے۔

اپنی بیٹی کی معذوری کی خبر سن کر اس کی ماں دہائی دینے لگی، ہائے میری بیٹی کا کیا بنے گا۔ اب یہ سکول کیسے جائے گی، اب یہ اپنا گھر کیسے بسائے گی۔ ہائے لوگ میری بیٹی کو نہ جانے کیا کیا کہیں گے۔ میں کسی کو اپنی بیٹی، اپاہج کہنے کی اجازت نہیں دوں گی۔ عائشہ کا فوجی باپ جو پاک بھارت جنگ میں اپنی ایک ٹانگ سے پہلے ہی معذور ہو چکا تھا، وہ معذوری کے درد سے پہلے ہی اچھی طرح واقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے معا شرے میں کسی معذور کا جینا کتنا دشوار ہو تا ہے۔

باپ نے اس دکھ کے عالم میں اپنے آپ کو سنبھالا اور عائشہ کی ماں کو تسلی دیتے ہوئے کہا، بھلی لوکے صبر کرو، اپنے خدا سے مدد مانگو، ہم اپنی بیٹی کو کسی بڑے ڈاکٹر کے پاس لے کر جائیں گے۔ ہماری بیٹی ٹھیک ہو جائے گی۔ مجھے اپنا آپ بھی بیچنا پڑے تو میں بیچوں گا لیکن اپنی عائشہ کو کبھی معذور نہیں رہنے دوں گا۔ والدین نے اپنے بیٹی کے علاج کے لیے ہر ممکن کوشش کی، کون سا ڈاکٹر تھا جس کے پاس وہ نہیں گئے۔ سب معالج بس یہی کہتے تھے یہ ایک لاعلاج مرض ہے۔ ان کی بیٹی کی معذوری ایک حقیقت ہے جسے سمجھ کر انہیں جینا ہو گا۔

ڈاکٹروں کے علاج اور فزیو تھراپی سے عائشہ اس قابل ہو گئی کہ وہ اپنی ایک ٹانگ پر ہاتھ رکھ کر لنگڑا کر چلنے لگی لیکن اب وہ دوسرے بچوں کی طرح دوڑ نہیں سکتی تھی۔ ماں نے اسے اپنے بہن بھائیوں اور باقی کزنز کے ساتھ کھیلنے سے بھی منع کر دیا کیونکہ وہ اس کے چلنے کی نقل کرتے تھے۔ ماں نہیں چاہتی تھی کہ وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے کسی احساس کمتری کا شکار ہو جائے یا لوگ اس کی بیٹی کا مذاق اڑائیں۔ ماں اپنی بیٹی کی تندرستی اور صحت کے لیے نوافل کی منتیں مانگتی۔ اکیلا بیٹھ کر روتی، پیروں فقیروں کی درگاہ پر جا کر چڑھاوے چڑھاتی لیکن شاید اس کی دعائیں کہیں جاکر جمع ہوتی گئیں مگر پلٹ کر ان کا کبھی کوئی جواب نہیں آیا۔

عائشہ بڑی ہوئی تو اسے گاؤں میں ”نارمل بچوں“ کے پرائمری سکول میں میں داخل کروا دیا گیا کیونکہ سپیشل بچوں کا سکول ان کے گاؤں سے پچاس کلو میٹر دور تھا۔ عائشہ بچپن میں جب اپنے گھر سے لنگڑاتے ہوئے سکول جاتی تو گاؤں کے کچھ شرارتی بچے اسے تنگ کرتے، اسے کئی ناموں سے پکارتے، بچے تو بچے، گاؤں کے بڑوں کا رویہ بھی جاہلانہ تھا۔ وہ اس کے ماں باپ کو کوستے کہ اس اپاہج لڑکی کو سکول بھیجنے کا کیا فائدہ۔ وہ عائشہ کی معذوری کو خدا کی طرف سے اس کے والدین کی سزا سمجھتے تھے۔

سکول میں عائشہ کی استانیاں اس سے ہمدردی کرتی تھیں۔ وہ ہمدردی جو ایک کمزور جذبے کا نام ہے۔ عائشہ اپنی استانیوں کے خصوصی سلوک کو دیکھ کر اپنے آپ کو ادھورا سمجھنے لگی، وہ اپنے آپ کو دوسروں کی توجہ کا مستحق جاننے لگی۔ وہ سکول کے ایک کونے میں بیٹھی کھیل کے میدان میں ہنستے، کھیلتے، اچھلتے کودتے بچوں کو دیکھتی رہتی اور معصوم یہی سمجھتی رہی کہ یہ دنیا بس نارمل لوگوں کے لیے بنی ہے۔ اس میں اس جیسے معذوروں کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔

وہ بھولی نہیں جانتی تھی کہ دنیا میں کچھ ایسے ملک بھی ہیں جہاں معذور بچوں کے لیے خصوصی سکول، کھیل کے میدان اور کلاس رومز بنائے جاتے ہیں۔ وہ تو اس بے حس معاشرے کا حصہ تھی جہاں معذور افراد کو لنگڑا، لولا، ڈورا، انا، کبڑا، پاگل، اللہ لوک، شاہ دولے دی چوہی اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر پکارتے ہیں۔ سکول سے واپسی پر جب اس کے بہن بھائی جلدی گھر پہنچ جاتے تو ماں پوچھتی میری عائشہ کہاں ہے تو بچے کہتے ماں وہ بہت آہستہ چلتی ہے۔ وہ ابھی عباس لنگڑے کی ہٹی کے پاس پہنچی ہے۔

ماں اپنے بچوں پر چیختی چلاتی کہ کسی کو لنگڑا نہیں کہتے اور انہیں ڈانٹتی کہ اپنی بہن کو ساتھ کیوں نہیں لائے، ہائے میری بیٹی، کاش وہ بھی اپنی دونوں ٹانگوں پر چل سکتی۔ باپ شام کو نوکری سے تھکا ہارا گھر واپس آتا تو عائشہ کی ماں اس سے لڑائی کرتی کہ میری بیٹی کو پیدل سکول جانا پڑتا ہے۔ تم اس کے لیے کسی سواری کا بندوبست کیوں نہیں کرتے۔ باپ دکھی ہو کر جواب دیتا، بھلی لوکے میں باقی چھ بچوں کا پیٹ پالوں یا عائشہ کے سکول جانے کے لیے سواری کا خرچ اٹھاؤں۔

عائشہ کا دادا اپنے بیٹے اور بہو کا جھگڑا سن کر کہتا، بہتر ہے اس بے چاری کو سکول نہ بھیجیں۔ یہ سن کر اس کی ماں اندر سے ٹوٹ جاتی اور اپنی بیٹی کی قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ سادھ لیتی۔ پھر مہینوں تک وہ اپنے شوہر سے کوئی شکایت نہیں کرتی تھی، اسے ڈر رہتا کہ کہیں اس کی بیٹی کو پڑھائی سے روک نہ دیا جائے۔ گھر میں عائشہ کی ماں اسے اپنے دوسرے بچوں سے زیادہ پیار دیتی جس سے اس کے بہن بھائیوں میں قدرتی طور پر حسد پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ وہ کبھی کبھی اس کے ساتھ کھیلنا بند کر دیتے۔ بہانے بہانے سے اس سے کٹی ہو جاتے۔

عائشہ نے اچھے نمبروں کے ساتھ پرائمری کا امتحان پاس کیا تو اس کے باپ نے اسے قریبی گاؤں کے ہائی سکول میں داخل کروا دیا۔ جہاں اس کے آنے جانے کا مسئلہ اور بھی دشوار ہو گیا۔ گاؤں کی باقی لڑکیاں تو مل کر دوسرے گاؤں پڑھنے کے لیے پیدل چلی جاتی تھیں مگر عائشہ کو اس کے بھائی سائیکل کے پیچھے لوہے کی کاٹھی پر بٹھا کر سکول چھوڑنے جاتے۔ اس کے بڑے بھائیوں میں ہمیشہ تو تکرار رہتی کہ آج تو اسے سکول لے جا، آج میں نہیں جاؤں گا، یہ کیا مصیبت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب بھائی اپنی معذور بہن کا بوجھ اٹھانے سے بچنا چاہتے ہوں۔

عائشہ نے ہائی سکول کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کر لیا تو اسے شہر کے اچھے کالج میں داخلہ مل گیا جہاں روز آنا جانا ممکن نہ تھا اس لیے اسے گرلز ہاسٹل میں رہنا پڑا۔ اب وہ مہینے میں ایک مرتبہ شہر سے اپنے گھر والوں سے ملنے آتی تھی۔ اس کا گاؤں سے شہر جانا اور شہر سے واپس آنا بھی کسی امتحان سے کم نہ تھا۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر دھکے، بسوں کے اونچے پائیدان، ان کے اندر سواریوں کا رش، سڑک کنارے انتظار کرنا، لوگوں کا اسے گھور کر دیکھنا، رکشوں میں اڑ پھس کر بیٹھنا، یہ سب عام آدمی کے لیے ایک عذاب نظر آتا ہے، ذرا سوچیے کہ عائشہ کا کیا حال ہوتا ہو گا۔

ایک مشرق کی بیٹی کو جہاں کئی محبتیں سمیٹنے کو ملتی ہیں وہیں اس پر کچھ اقدار کی پیروی کرنا بھی لازم سمجھا جا تا ہے۔ یہی عائشہ کے ساتھ ہوا، اسے شہر جانے کے لیے کسی محرم کے سہارے کی ضرورت رہتی۔ وہ محرم جو اس کے کپڑوں کا جھولا اٹھانے کے سوا اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کے دوران کچھ سواریاں اس سے ہمدردی دکھاتیں اور اس کے بیٹھنے کے لیے اپنی سیٹ خالی کر دیتیں تو کچھ نگاہیں سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتیں کہ شاید کوئی بھکارن گاڑی پر پیسے مانگنے کے لیے سوار ہو رہی ہے۔

کالج کی پڑھائی کے دوران بھی عائشہ کو انہی مسائل کا سامنا رہا جو اسے اپنے پرائمری اور ہائی سکول میں برداشت کر نا پڑے۔ جس میں سے اہم ٹائلٹ کا مسئلہ تھا۔ وہ انڈین کموڈ پر بیٹھ نہیں سکتی تھی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہاں اسے ایک اضافی مسئلہ بھی در پیش رہا۔ عائشہ کو جنرل سائنس کا مضمون پڑھنے کے لیے کالج کی دوسری منزل پر کئی سیڑھیاں چڑھ کر جانا پڑتا تھا۔ پھر وہی رونا کہ اس کے پیارے وطن میں جہاں وی آئی پی موومنٹ کے لیے سڑکیں ویران کر دی جاتی ہیں اور کھلے راستے بنائے جاتے ہیں وہیں اکثر سرکاری بلڈنگز اور راستوں پر معذور افراد کے چلنے اور سیڑھیاں چڑھنے کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا جاتا۔

عائشہ نے کالج اور یونیورسٹی کے امتحانات بھی اچھے نمبروں سے پاس کر لیے۔ اس نے کئی پیشہ ورانہ ڈگریاں بھی حاصل کیں اور اسے میرٹ پر اچھی نوکری بھی مل گئی۔ کسی نے اس کے باپ کو مشورہ دیا کہ معذور افراد کے کوٹے میں اپلائی کرو لیکن شاید وہ ابھی تک اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہا تھا اس کی بیٹی معذور ہے۔ اس نے اپنی بیٹی کو اوپن میرٹ پر اپلائی کرنے کا حوصلہ دیا، بیٹی نے بھی اسی بات کو ترجیح دی اور اسے سرکاری سکول میں ٹیچنگ کی ملازمت مل گئی۔ اب سب گھر والوں کو امید تھی کہ ان کی بیٹی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے گی۔ اسے دنیا کے سہاروں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ لیکن ابھی عائشہ کی زندگی کے کچھ اور امتحان باقی تھے۔

عائشہ کے ماں باپ خوش تھے کہ ان کی بیٹی نے اپنی تعلیم کا مرحلہ کامیابی سے مکمل کر لیا، اسے گھر کے قریب جاب بھی مل گئی، اب وہ نوکری کے لیے آنے جانے کا خرچہ بھی خود برداشت کر لے گی لیکن ان کے دل کی ایک حسرت باقی تھی کہ ان کی بیٹی کی شادی بھی ہو جائے تو بیٹیوں کا فرض ادا ہو جائے گا۔ بیٹیوں کے نصیب اچھے ہوں تو ان کے رشتے بھی اچھی جگہ طے ہو جاتے ہیں مگر ان کے مقدر میں امتحان لکھے ہوں تو اس سے کون لڑ سکتا ہے۔

عائشہ کے گھر والوں کو انتظار رہا کہ ان کی بیٹی کا کوئی ہاتھ مانگنے آئے گا تو وہ فوراً ًہاں کر دیں گے لیکن ان کا انتظار لمبا ہوتا گیا۔ عائشہ کے وہ ہم عمر کزن جو بچپن میں اس کی معذوری کی وجہ سے اس کے ساتھ کھیلنا پسند نہیں کرتے تھے بھلا وہ اسے اپنا جیون ساتھی کیوں بناتے۔ اس کے رشتے دار جو اس کے سکول جانے پر معترض تھے وہ اس کا ہاتھ اپنے بیٹوں کے لیے کیوں مانگتے۔ گھر میں ویسے بھی اس کی بھابھیوں کو شکایت رہتی کہ عائشہ خود اپنا کام کیوں نہیں کرتی۔ بس اس کی ایک ٹانگ ہی تو خراب ہے، ہاتھ تو سلامت ہیں، وہ اس کے لیے ناشتا کیوں بنائیں، وہ اس کے کمرے کی صفائی کیوں کریں۔ یہاں تک عائشہ کے سر میں چاندی اترنا شروع ہو گئی اور کسی نے اس کا ہاتھ نہیں مانگا۔

ایک دن عائشہ کے باپ کا ایک دوست کسی ادھیڑ عمر بندے کے رشتے کی تجویز لے کر ان کے گھر آیا۔ عائشہ کے ماں باپ نے اپنی بیٹی کو اس بڈھے سے شادی کرنے پر رضا مند کر لیا جو عمر میں اس سے پندرہ سال بڑا تھا اور وہ پہلے سے شادی شدہ تھا مگر اس ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ وہ اولاد کی خاطر دوسری شادی کرنا چاہتا تھا۔ عائشہ کے باپ نے اپنی پنشن کی ساری رقم اپنی بیٹی کے جہیز پر خرچ کر دی کہ سسرال کے گھر اس کی بیٹی کو کسی قسم کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شادی کے بعد عائشہ کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا تو وہ اپنے آپ کو مکمل عورت سمجھنے لگی۔ پھر اس کے ہاں تین اور بچے پیدا ہوئے۔ وہ خوش تھی اس کے بچے بڑے ہو کر اس کا سہارا بنیں گے لیکن قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔

عائشہ کا شوہر جو اپنی ملازمت کے سلسلے میں کسی دوسرے شہر میں اپنی پہلی بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ جب کبھی گھر چھٹی آتا تو کسی نہ کسی بہانے عائشہ سے لڑائی کرتا۔ وہ کبھی اسے لے کر باہر کسی ریسٹوران میں کھانا کھلانے یا کہیں سیر کروانے نہیں لے گیا کیونکہ اسے ایک معذور ہم سفر کے ساتھ چلتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ اس نے عائشہ سے شادی بھی یہ چانس لینے کے لیے رچائی کہ شاید اس کے ہاں بچے پیدا ہو جائیں۔ قدرت اس پر مہربان ہوئی اور اسے چار بچوں کی نعمت سے نوازا مگر وہ نا شکرا انسان بچوں کی پیدائش کے بعد اپنی بیوی کو بوجھ سمجھتا اور اسے طلاق دینے کے بہانے تلاشنے لگا۔

عائشہ اور اس کے شوہر کے درمیان جب اختلاف حد سے بڑھ گئے تو اس کے شوہر نے اس سے بچے چھیننے کی کوشش کی اور بہانہ بنایا کہ جاب کے ساتھ ایک معذور عورت کے لیے اپنے چار بچوں کو پالنا مشکل کام ہے اس لیے بچے اس کی پہلی بیوی کے پاس رہیں گے۔ بچوں کے معاملے پر دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا اس حد تک بڑھا کہ بات طلاق تک جا پہنچی۔ ایک دن عائشہ کے شوہر نے واٹس اپ پر اسے طلاق نامے کے پیپر بھجوا دیے اور عدالت میں دعوی دائر کر دیا کہ اس کے بچے واپس دلوائے جائیں۔

عائشہ کانفرنس میں اپنی زندگی کی روداد پیش کر رہی تھی اور وہاں بیٹھے سب سامعین کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ امریکہ میں بیٹھ کر اس کے درد کو محسوس کر رہے تھے کہ ٹانگوں سے معذور ایک بچی کو کیسے گلیوں سے گزر کر اپنے سکول جانا پڑا، لوگوں کی کھا جانے والی نظریں اور دل چیر دینے والے طعنے سہنے پڑے، بھائیوں اور بھابھیوں کے رویے برداشت کرنے پڑے، کیسے مشرق کی ایک بیٹی حکومتوں کی بے حسی اور لاپرواہی کا شکار بنی۔ سب پوچھتے تھے کہ کیا واقعی تمہارے ملک میں معذور افراد کے چڑھنے کی خصوصی سیڑھیاں نہیں بنائی جاتیں، کیا وہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں ان کی مخصوص نشستیں نہیں ہوتیں۔ خصوصی لوگوں کے لیے کیا یہ نہیں ہوتا، کیا وہ نہیں ہوتا۔

عائشہ انہیں کیا جواب دیتی کہ اس کے ملک میں سب کچھ ہو سکتا ہے، بس ایک احساس کی کمی ہے۔ اس نے اپنی آنسوؤں بھری تقریر اور پریزینٹیشن مکمل کی، حاضرین کے سوالوں کے جواب دیے اور اپنے مصمم ارادے کا اعادہ کیا کہ وہ اپنے ملک واپس جا کر معذور افراد کے حقوق کے لیے ایک جدوجہد شروع کرے گی۔ شاید اس کے وطن میں بھی حقیقی تبدیلی کا آغاز ہو جائے، شاید وہاں بھی کسی کو اٹھا کر مسجد یا مندر کی اونچی سیڑھیاں پار نہ کر نا پڑیں۔ شاید وہاں بھی کسی کو ایوانوں اور عدالتوں کے دروازوں پر کھڑے ہو کر اندر جانے کے لیے کسی کے سہارے کی ضرورت نہ پڑے، شاید وہاں بھی یہ احساس اجاگر ہو کہ راستہ وہ، جو سب کا ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments