عورت کے لباس سے دور رہیں


اس ملک میں کوئی دن نہیں گزرتا جب عورت کے لباس پر کوئی چٹکلہ نہیں کسا جاتا۔ عورت افغانی ہو یا پاکستانی، اس کے بدن، لباس، حجاب، اور ایمان پر سب نے اجارہ داری قائم کر رکھی ہے جیسے عورت پر لعن طعن کرنے سے ان کے گھر کے دستر خوان سجتے ہیں۔ آپ بتائیں، احتجاج کرنے والی افغان عورتوں پر لعنت بھیج کر کون سا قرار ہے جو حاصل ہوا؟ کیا آپ کے بجلی کے بل قدرتی طور پر ادا ہو گئے؟ اپنے حق کے لئے سراپا احتجاج عورتوں کو ملحد کہنے اور بہتان لگانے سے آپ کی زندگی کے مسائل حل ہو چکے؟

کیوں کر اجنبی عورتوں کو نام پکارنے اور الزام دینے سے اپنی آخرت خراب کرتے ہیں؟ آپ کو آخرت پر بہت یقین ہے مگر ان خواتین کو برے سے برا نام پکارنے سے، جنہوں نے آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑا، آپ کے سفر آخرت کی منازل بخوبی طے ہوں گی ؟ ان کو فحاشہ صرف اس لئے کہا کہ ان کے سر پر پڑے حجاب قدرت میں جا بجا بکھرے رنگوں کا عکس تھے؟ بس اتنی معدوم سے سوچ ہے؟ کس قدر کینہ اور بغض ہے آپ کے سینوں میں کہ اپنے ملک میں پریشان حال بے ضرر نہتی عورتوں کو اپنے گھروں میں محفوظ بیٹھ کر دشنام درازی کر رہے ہیں؟ رنگ برنگے لباس پہننے سے افغان عورتیں کافر ہو گئی ہیں؟ یہ سند کس نے بانٹنے کا اختیار دیا ہے؟

عورت کے وجود اور حجاب کو لے کر جس قدر طوفان بد تمیزی پاکستان میں مچتا ہے ناممکن ہے کہ دنیا کے کسی معاشرے میں مچتا ہو۔ مانا دنیا کا ہر معاشرہ پدرشاہی کی بد نما شکل ہے مگر خدا کی پناہ جو تماشا پاکستان میں لگتا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ افغانستان میں طاقت کے بل بوتے پر اقتدار کیا بدلا، گویا صبح دوپہر شام پاکستانی عورتوں کے لئے کوئی نیا محاذ تیار ہوتا ہے۔ جیسے پہلے یہاں عورتوں کی نسبت امن اور تحفظ کی کوک گونجتی تھی۔

جس ولولے سے وطن عزیز کے شہری افغانستان میں متعارف کرائے گئے نئی قسم اور ساخت کے برقعے کی لاج رکھتے نہیں تھک رہے، امید ہے کہ چند ہفتوں تک نئے متعارف کرائے گئے برقعے کی مورتی بنا کر چڑھاوے دیے جائیں گے۔ تعجب تو ہرگز نہیں ہو رہا مگر سوال ضرور اٹھانا چاہیے۔ کیا اس نوعیت کا کوئی شاہکار پہلے کسی نے دیکھا ہے؟ نہ تو عرب میں ایسا کچھ زیب تن کیا جاتا ہے نہ عجم میں۔ کہاں سے ایسے تصورات بھی تصور کیے جاتے ہیں؟ مجھے تعجب نہیں ہو گا کہ یہی لوگ باضابطہ طور پر اگر عورتوں کی بلی کی رسم کو زندہ کریں تو ہمارے وطن کے لوگ بڑھ چڑھ کر نظریاتی اور عملی پور اس کی توثیق کریں گے، یہاں تک کے مخالفین کو ملحد اور کافر ہونے کی اسناد بکیں گی جیسے آج افغان عورتوں کو کہا جا رہا ہے، جیسے ہمیں عموماً کہا جاتا ہے۔

آخر مسلمان عورت نے گزشتہ جنم میں ایسا کیا جرم کیا تھا کہ مسلمان مرد اور پدرشاہی میں داخل شدہ عورت دونوں مل کر اس کے دشمن ہو گئے؟ ایک ملک جہاں عورت پہلے سے مکمل با حجاب ہو، وہاں عورت کے لباس کو مزید تہمتوں سے نوازنے سے کون سا تاریخی باب ہے جو فتح ہو رہا ہے؟ خدارا اپنی عاقبت پر نہیں تو کسی چیز پر رحم کریں اور اپنے نہ اٹھائے جانے والے عقائد کا بوجھ عورت کے وجود پر مزید لادنے سے گریزاں رہیں۔ کبھی کبھار تو یقین سا ہونے لگتا ہے کہ پاکستانی قوم کو برقعہ کا کوئی بھوت پریت چمٹ گیا ہے، جب دیکھو کپڑوں کی گفتگو جاری رہتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہم وطنوں کو اغیار سے ہمیشہ چاہت رہی ہے، چاہے وہ گوری چمڑی والے ہوں یا صحرا نشیں۔

سب سے پہلے تو یہ قابل غور نکتہ اہم ہونا چاہیے کہ اگر افغان عورتیں یہ کہہ رہی ہیں کہ مافوق الفطرت برقعہ جو کہ روئے زمیں پر کسی انسان کی پہچان نہیں، افغانوں کا روایتی یعنی روزمرہ کا لباس نہیں تو پاکستان کے شہری اس بات کو تسلیم کرنے سے کیوں انکاری ہیں؟ دنیا بھر کی سماجی روابط کے ذرائع ابلاغ پر متعارف شدہ اس ”برقعہ“ کو افغان عورتوں کا روزمرہ کا لباس کہنے والے پاکستانی ہی کیوں ہیں اور اگر افغان خود کسی بھی ایسے لباس کی نفی کر رہی ہیں تو پاکستانی کون ہوتے ہیں اس نفی پر جوابی تنقید کرنے والے؟ ہمارا قومی لباس شلوار قمیض اور دوپٹہ ہے خاکم بدہن کوئی اس لباس کو کسی غیر مرئی لاگو کردہ پیرہن سے تبدیل کرنے کی نہایت ناپاک جسارت کرے تو؟

مگر ڈھٹائی اور خود سری کا یہ عالم ہے کہ اغیار کے لباس جو کہ اغیار میں بھی معدوم ہو چلا ہے کہ علاوہ ہر لباس باعث فحاشی و عریانی ہے۔ پھر کیوں نہ یہ لوگ عام چلتی پھرتی محنت کرتی عورت کو نظریہ کی بنیاد پر نفرت اور تشدد کا نشانہ نہ بنائیں؟ کیوں نہ شلوار قمیض پہنے اور آنچل اوڑھے عورت ان کو برہنہ محسوس ہو؟ حیرت ہے ان عورتوں پر بھی جو متشدد نظام کا آلہ کار بنتی ہیں اور عورت کو اس کے لباس کی بنیاد پر تشدد کے قابل ٹھہراتی ہیں۔

جیسا کہ اس معاشرے کے بہت سے مردوں کو اپنے حجاب کی بجائے عورت کے مکمل حجاب کے باوجود برقعہ کی لت لگ چکی ہے، تو عورت کے وقار اور اس کی حرمت بھی اسی میں جانچا جاتا ہے۔

معاشرے میں عورت کا جو مقام ہے وہ چھپا ہوا نہیں ہے۔ توہین، بے حرمتی، لغویات، طعنے تشنے، جھڑکیاں، تھپڑ، پابندیاں اس کا نصیب ہیں۔ یونیورسٹی جانے والی لڑکیاں اس لئے لیکچرز میں خاموش نہیں رہتی کہ ان کا عبایہ یا سر لپیٹتا حجاب ان کے اعتماد کو کم کرتا ہے۔

لڑکیاں حجاب میں ہوں، دوپٹے میں یا ان کا آنچل شانوں پر ہو، ان کے اعتماد کا تعلق لباس سے کہیں دور اس معاشرتی ترتیب میں ہوتا ہے جہاں شروع دن سے ان کو خاموش کرایا جاتا ہے۔ گھر میں یا گھر کے باہر اس کی رائے کو سرے سے اہمیت نہیں دی جاتی۔ خاندان، کاروبار، اور ملک کے کتنے فیصلے ہیں جو عورت سے پوچھ کر ہوتے ہیں؟ جس معاشرے میں شادی جیسے سب سے اہم معاملے میں عورت کی رائے نہیں لی جاتی، وہاں یہ سوال اٹھانا کہ لڑکی جماعت میں چپ ہے خاصا مضحکہ خیز ہے۔ اس کا سرا اس سوچ سے ہے جو عورت کو مرضی کرنے کی اجازت نہیں دیتی، چاہے وہ زندگی گزارنے کا ڈھنگ ہو یا لباس کا انتخاب۔

بیٹی جب رائے دینا شروع کرتی ہے تو اس کو چپ رہنے کی تنبیہ کی جاتی ہے۔ زندگی بھر جس کو بیسیوں مقامات پر چپ کرایا گیا ہو، وہ یونیورسٹی میں آ کر بیسیوں مردوں میں بول نہیں سکتی۔ اس کا اعتماد، نفسیات، خوف ایک لیکچر میں نئی شکل کبھی اختیار نہیں کر سکتے۔ خواہ کوئی نہایت روشن خیال مرد استاد ہو یا مذہبی و روایتی فکر کا حامی استاد، طالبات کو اکثر ان کے لباس اور انداز بیاں سے ضرور منفی انداز میں جانچتے ہیں۔

اس ملک کی جامعات میں ایسے اساتذہ بھی کم نہیں جو طالبہ کے نڈر انداز بیاں اور لباس کی بنا پر اس سے مختلف رویہ رکھیں اور ایسے بھی مرد اساتذہ نایاب نہیں جو طالبہ کے حجاب کے باعث اس کو غیر معقول سمجھیں۔ دونوں صورتوں میں اساتذہ ایک عورت کو اپنے امتیاز کا نشانہ بناتے ہیں جس کا تعلق کہیں سے عورت کی دانش سے نہیں بلکہ مرد کی غیر معقولیت سے ہوتا ہے۔ یہی رویے جابجا عام ہیں، جہاں عورت بس گوشت پوست کی وہ چلتی گڑیا ہے جس سے کھیلنے کو ناصرف بیتاب ہیں بلکہ اپنی مرضی سے اس کو چابی دینے کی تاک میں بھی ہیں۔ انسانوں کی اتنی توقیر ضرور کریں کہ تشدد سہنے والے کی تشدد سے منسلک رائے کو اہمیت دیں۔

اگر افغان کہہ رہی ہیں کہ ان کا اصل لباس اور شناخت وہ نہیں جو آپ کے عناد کے عین مطابق ہے تو تسلیم کریں کہ آپ غلط ہیں جس کا تعلق صرف آپ کی عورت دشمن تخصیص سے ہے نہ کہ دین اسلام سے نہ کسی ملک کی ثقافت سے۔

آپ کی زندگی حقیقت اور منطق کے قریب ہوگی تو مافوق الفطرت پیرہن ہی نہیں رجحانات میں بھی کمی واقع ہوگی۔

بس اتنا کریں کہ اپنے نا ہونے والے ایمان اور عقل و دانش کو دین اسلام اور عورت کے کپڑوں اور وجود سے کوسوں دور لے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments