ایم ایس سی میتھ اور چھٹی جماعت کی ریاضی


ویسے تو ہمیں کچھ نہیں آتا لیکن ہمارے پاس بہت سی تعلیمی ڈگریاں موجود ہوتی ہیں۔ بچپن سے ہمارے ذہن میں ایک تصور بہت راسخ ہو چکا تھا کہ سائنس کے طالب علم ذہین، قابل اور پڑھاکو ٹائپ کے ہوتے ہیں جبکہ آرٹس کے طالب علم کمزور، نالائق اور نکمے ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ہم راسخ عقیدہ واقع ہوئے ہیں اس لیے اپنے عقیدے سے جلدی پھرتے نہیں لیکن کبھی کبھار انسان کو توبہ کر کے اپنی غلطی ماننی پڑتی ہے اور قبلہ درست کرنا پڑتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ موقع دیا۔ ہم کیونکہ مقابلے کے امتحان کے طالب علم پڑھاتے ہیں اس میں ایک مضمون ہے جس کو عمومی صلاحیت (General Abilities) کہا جاتا ہے۔ اس مضمون کا ایک حصہ علم حساب کا ہے جس میں بنیادی ریاضی کے کچھ اصول پڑھائے جاتے ہیں۔ اگر ہم یاد کریں کہ یہ اصول عمومی طور پر کوئی بھی طالب علم پنجم سے لے کر ہفتم کی جماعت میں پڑھتا ہے، معلوم نہیں سمجھتا بھی ہے کہ نہیں۔

بہرحال اس مقابلہ کی جماعت کو ہم نے یہ حصہ پڑھانا ہوتا ہے۔ اکثر پڑھاتے ہوئے ہم نے محسوس کیا ہے کہ ہم لوگ حساب کتاب میں کافی کمزور ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہم ادھار لے کر بھول جاتے ہیں اور واپس کرنے کا نام نہیں لیتے۔ ہم کو جتنی مشکل اس حصہ کو پڑھانے میں آتی ہے شاید ہی کسی اور حصہ میں آتی ہو۔ بار بار بتانا پڑتا ہے، سمجھانا پڑتا ہے۔ اکثر خواتین حساب کتاب سے بہت گھبراتی ہیں، اس لیے ان کو یاد نہیں رہتا کتنا خرچ ہوا کتنا باقی ہے، اور بقایا وہ سنبھال کر اپنے پاس رکھ لیتی ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے ان کو کبھی اپنی عمر بھی یاد نہیں رہتی اور ہندسہ اٹھارہ پر رک جاتا ہے۔ حساب کی کلاس کی کمزور ترین طالب علم اکثر خواتین ہوتی ہیں۔ خدا جانے کہ اللہ نے ان کا نظام ایسا بنایا ہے یا پھر ہمارے تعلیمی نظام اور تربیت کا یہ اثر ہے لیکن عمومی طور پر خواتین ریاضی میں پیچھے پیچھے بلکہ بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہو رہی تھی ایم ایس سی ریاضی کی۔ ایک مرتبہ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ ہماری کلاس میں کوئی آٹھ، دس طالب علم ایم ایس سی ریاضی کے آ گئے۔ ان کو دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا کہ اب ہمیں ریاضی پڑھانے میں آسانی ہو گی، بلکہ یہ باقی جماعت کو بھی ریاضی سمجھانے میں مدد دیں گے۔ لیکن جوں جوں جماعت کو ہم نے پڑھانا شروع کیا تو ہماری امیدوں پر منوں پانی پھر گیا اور ہم کو یہ مصرعہ یاد آیا:

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

ان دس طالب علموں میں سے ایک دو کو چھوڑ کر کوئی بھی فارمولے سے آگے نہیں سوچ سکتے تھے۔ ہر شے کے لیے ان کو فارمولا چاہیے تھا۔ اگر فرض کریں ہم نے ان کو سمجھایا ہے :

اسپیڈ= فاصلہ/وقت

اور ہم نے وقت معلوم کرنے کو کہہ دیا ہے، اسپیڈ اور فاصلہ دے دیا تو آپ یقین کریں وہ کہتے کہ سر آپ نے اس کا فارمولا نہیں بتایا۔ ہم نے لاکھ بتایا سمجھایا کہ ہم نے بتا دیا ہے لیکن وہ ماننے کو تیار نہ ہوتے۔ ان کو سوال کر کے دکھاتے، اگلے دن وہ پھر بھول جاتے۔ ہم نے سائنس کے طالب علموں کو جتنا لکیر کا فقیر دیکھا ہے اتنا تو آرٹس کے طالب علم نہیں ہوتے۔ سائنس کے طالب علموں کی اپنی ’سینس‘ ہے۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ ان میں تخلیقی سوچ کی بے انتہا کمی ہے۔

ہمارے ہاں ہم لوگ لائق طالب علم اس کو مانتے ہیں جو امتحان میں اچھے نمبر لے کر آتا ہے۔ بقول جام صاحب امتحان میں اچھے نمبر لینے کے لیے آپ کو امتحان میں اچھی الٹی (یہاں الٹی سے مراد وہ مواد ہے جو آپ کے اندر ڈالا گیا ہے، اب پیپر پر الٹ دیا ہے ) کرنی ہے۔ جو جتنی اچھی الٹی کرتا ہے اس کے نمبر اتنے اچھے آتے ہیں اور اندر بھی خالی ہو جاتا ہے۔ اس طرح اس کے پاس نمبر کے علاوہ باقی کچھ نہیں بچتا۔ کیونکہ سائنس کے طالب علم ہمارے لائق ترین طالب علم ہیں اس لیے ان کو اوسط فی صد اور رقبے کے سوال نہیں آتے کیونکہ ان کے پاس نمبر ہیں لیکن ان کا اندر بالکل خالی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments