بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے


کیونکہ سچ یہ ہے کہ ان کو نہیں پتہ ہوتا کہ پاکستان میں کیا کیا مشکلات ہیں۔ وہ ادراک ہی نہیں کر سکتے۔ عموماً ان کی معلومات انتہائی سطحی ہوتی ہیں وہ بھی انہوں نے اپنی پسند کے چینل یا پسند کے اخبار سے اکٹھی کی ہوتی ہیں۔ ان کا تجزیہ خام ہوتا ہے کیونکہ مخالف دلائل نہ انہوں نے کبھی سننے کی زحمت گوارا کی ہوتی ہے اور نہ مستقبل میں ایسا ان کا کوئی ارادہ ہوتا ہے۔ وہ ایک جزیرے کے باسی ہوتے ہیں، اپنی دنیا میں مست اور مگن۔ ان کے لئے پاکستان کے حالات حاضرہ اور سیاست پر بات چیت، بحث مباحثہ بس ایک ذہنی عیاشی اور وقت گزاری کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔

وہ اس چیز کا کیسے ادراک کر سکتے ہیں کہ جائز کام کروانے کے لئے بھی پہلے کسی محکمے میں سفارش ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ ان کو زمینی حقائق کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ اور وہ یہ بھول چکے ہوتے ہیں کہ وہ پاکستان سے کیوں بھاگے تھے۔

ان کو مہنگائی کا بھی ادراک نہیں ہوتا کیونکہ جوں جوں روپیہ گرتا ہے ان کے پیسے بڑھتے جاتے ہیں۔ پہلے اگر کوئی ایک ہزار ڈالر بھیجتا تھا تو اگر وہ پاکستانی روپیہ میں ایک لاکھ بنتا تھا تو اب وہ ایک لاکھ ستر ہزار بنتے ہیں۔ اس لئے روپے کی گراوٹ سے جو مہنگائی ہوتی ہے وہ ان پر بالکل بھی اثر انداز نہیں ہوتی، بلکہ الٹا ان کا بھلا ہو جاتا ہے۔ چھٹیاں گزارنے جائیں تو چیزوں کی قیمتوں کو ڈالروں، پاؤنڈوں میں تبدیل کر کر کے خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ہائے اللہ اتنی سستی۔ کسی قانونی مسئلے میں پھنس جائیں تو انگریزی میں کہتے ہیں ”آئی ایم ناٹ پاکستانی سیٹیزن کال مائی قونصلیٹ“ (میں پاکستانی شہری نہیں ہوں میرے سفارت خانے کال کریں ) ۔

اگر پاکستان میں تعلیم کا معیار اچھا نہیں تو ان کو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے بچے تو کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں۔ اگر ریاست مدینہ کا والی کہتا ہے کہ سولہویں جماعت میں ترجمے کے ساتھ قرآن مجید پڑھایا جائے گا تو وہ دادو تحسین کے ڈونگرے برساتے ہیں کیونکہ ان کے بچوں نے کون سا پڑھنا ہے۔ وہ تو اپنے بچوں کے لئے ہارورڈ، ایم آئی ٹی اور مک گل کے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں انہیں کیا کہ پاکستان میں حکومت اپنی نا اہلی چھپانے کے لئے تعلیم کے معیار پر توجہ دینے کی بجائے لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلے، اگر یونیورسٹی میں قرآن پڑھانے کی اتنی ہی مسرت ہے کہ ان کے خوشی سے آنسو نکل آتے ہیں تو کیوں اپنے بچوں کو پاکستان کی یونیورسٹیوں میں نہیں بھیج دیتے کہ وہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن کا بھی فہم حاصل کر لیں۔

شاید وہ یہ کہیں کہ ہم اپنے بچوں کو گھر میں پڑھا لیں گے یا اسلامک سنٹر میں پڑھوا لیں گے تو بھائی پاکستانیوں کو آپ کیوں اتنا مذہب سے دور سمجھتے ہیں کہ ان کے یونیورسٹی میں پہنچے بچوں نے ابھی تک قرآن بھی نہیں پڑھا ہو گا۔ ان کو ڈنڈے کے زور پر پڑھوانے پر کیوں قلقاریاں ماری جا رہی ہیں؟ کچھ ذمہ داریاں والدین کی ہیں انہی کی رہنے دیں۔

یہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے دوہرے معیار پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ جس طرح پاکستانیوں کا جی چاہتا ہے کہ پڑوس میں شریعت اور طالبانی اسلامی حکومت قائم ہو جائے لیکن اپنے ملک میں اس کا شائبہ بھی نہ ہو۔ (اسلامی جماعتوں کے ووٹ دیکھ لیجیے ) یہ باہر والے بھی بعینہ اسی طرح، رہنا تو کینیڈا، امریکہ اور انگلینڈ میں چاہتے ہیں لیکن پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے پر مصر رہتے ہیں۔ اس کو منافقت نہیں تو اور کیا کہیں گے؟

ہوتا کچھ یوں ہے کہ یہ باہر جاکر شناخت کے بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خاص کر مڈل کلاسیے، ان کو ایسا لگتا ہے کہ شاید ان کی شناخت باقی نہ رہے۔ کہیں وہ اکثریت کے دھارے میں نہ بہہ جائیں اس لئے وہاں جا کر اچانک مذہبی ہو جاتے ہیں، بنیاد پرست بن جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی رہنا وہیں چاہتے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ ان ممالک کے قوانین ایسے ہیں کہ ان کی مذہبی آزادی پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ ان کی زندگی ”کافروں“ کے بنائے گئے قوانین میں ایسے ہی مزے سے رواں دواں رہے گی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی شناخت قائم رکھنے اور بچانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔

کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ شاید یہ چاہتے ہی نہیں کہ پاکستان کا نظام تعلیم ترقی یافتہ ممالک جیسا ہو جائے یا اس طرف سفر ہی شروع ہو جائے کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو ان کے اندر جو احساس تفاخر ہے وہ شاید باقی نہ رہے۔ کہ میرے بچے نے فلاں فارن یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہوا ہے۔

ان کے نزدیک بس یہ کافی ہے کہ پاکستان کا وزیراعظم ایک نامور مشہور شخصیت ہے ایک گزشتہ سٹار ہے، ایک سلیبرٹی ہے جس کو دنیا جانتی ہے۔ جو پریزینٹ ایبل یعنی پیش کرنے اور دکھائے جانے کے قابل ہے۔ انگریزی اچھی بولتا ہے، آکسفورڈ کا پڑھا ہوا ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک چارم ہے۔ باقی پاکستان کے لئے وہ اچھا ہے، برا ہے، وہ اس عہدے کا اہل ہے بھی یا نہیں، اس میں اتنی استعداد بھی ہے کہ وہ بائیس کروڑ آبادی والے ملک کو چلا سکے؟ وہ ایک غریب ملک کے غریب عوام کے مسائل کو سمجھتا بھی ہے یا نہیں۔ اس میں اتنی عقل اور حکمت ہے کہ وہ پاکستان کو صحیح رستے پر ڈال سکے؟ اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں، ان کو غرض ہے کہ بس باہر ہماری بلے بلے ہونی چاہیے، اس کو خود غرضی نہیں تو اور کیا کہیں گے؟

دنیا کے اکثریتی ممالک میں اگر آپ دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرتے ہیں تو آپ کو اپنے ملک کی شہریت ترک کرنا پڑتی ہے۔ پڑوس میں بھارت ہے ہماری ہر پالیسی بھارت کو ذہن میں رکھ کر بنتی ہے اور جب بھی مقابلے یا موازنے کی بات آتی ہے تو وہ ہم بھارت سے ہی کرتے ہیں، وہاں پر بھی آپ دوہری شہریت نہیں رکھ سکتے اگر آپ کسی اور ملک کے شہری بنتے ہیں تو بھارت کی شہریت آپ کو چھوڑنا پڑتی ہے۔

لیکن اس معاملے میں ہمارا بھارت سے کوئی مقابلہ نہیں کیونکہ ہماری تمام تر اشرافیہ، بیورو کریٹس، سیاستدان، جرنیل اور نامی گرامی صحافی، سب کے پاس یا ان کے بیوی بچوں کے پاس کسی اور ملک کی شہریت ہے۔ وہ یہاں سے کماتے ہیں اور باہر اپنے بیوی بچوں کو پالتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد یورپ و امریکہ کے کسی خوبصورت شہر میں بیٹھ کر بے فکری کی زندگی گزارتے ہیں اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور پاکستانیوں کو ”مزید“ مسلمان بنانے پر کبھی اس چینل پر کبھی اس چینل پر اور کبھی اخبارات میں کالم لکھ کر مشوروں سے نوازتے ہیں۔

ووٹ کا حق صرف اس شہری کو ہونا چاہیے جس کا مرنا جینا پاکستان میں اور پاکستان کے ساتھ ہے۔
یہ دھندا اب بند ہونا چاہیے کہ یہاں آئے مشیر، وزیر بنے، مال کمایا اور واپس اپنے وطن سدھار گئے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments