ادبی تنقید اور فلسفیانہ اصطلاحات کی تاریخ قسط نمبر 3 بوطیقا باب 11 سے 25


زمانۂ قدیم میں مستعمل صنف ٹریجڈی، جس کی چھاپ موجودہ ڈرامہ پہ بھی تقریباً اسی طرح قائم ہے جیسے ہزار ہا سال پہلے تھی۔ متنوع تنقیدی نقطہ ہائے نظر سے بڑے ناقدین Poetics پہ لکھ چکے ہیں جو اپنے مقررہ جگہ پہ درج کروں گا لیکن اس کے باوجود ارسطو نے وہ عوامل بیان کیے جو سماجی تغیرات اور مذہبی پابندیوں کے باوجود آج تک قائم و دائم ہیں۔

دسواں باب سادہ اور پیچیدہ/مشکل پلاٹ پہ ختم ہوا جس میں ہم نے ارسطو کا نظریہ جانا کہ پیچیدہ اور سادہ پلاٹ بنیادی فرق یہ ہے کہ سادہ پلاٹ میں قسمت کی تبدیلی نہ کسی انکشاف (discovery) اور نہ کسی الٹ پھیر (peripety) سے پیدا ہوتی ہے جبکہ پیچیدہ پلاٹ ہر موڑ پہ نئے انکشافات کرتا ہے اور کئی تعلق متعارف کروانے لگتا ہے۔

(11)

اس باب میں الٹ پھیر/ تنسیخ، انکشاف اور مصیبت پر ارسطو کا موقف جانیں گے۔ 1۔ تنسیخ ایک حالت ہے جس میں ڈرامہ جو کہ ہو رہا ہوتا ہے اچانک سے اس میں ایسے عوامل پیدا ہو جاتے ہیں کہ ڈرامہ الٹ چلنے لگتا ہے، غیر متوقع چیزیں ہو جاتی ہیں۔ 2۔ انکشاف انسان کے لئے ہمیشہ دلچسپ رہے گا پس ارسطو نے کہا نامعلوم سے معلوم کا سفر change from ignorance to knowledge۔

ایک بہترین ٹریجڈی ایسی ہوگی جس میں انکشاف تنسیخ کے ساتھ مل کر انسانی جذبات (ترس اور خوف) کو سامنے لائے۔ انسانی جذبات نمایاں کرنے کے لئے 3۔ مصیبت کا سہارا لیا جائے۔

(12)
ٹریجڈی چار اہم حصوں پر مشتمل ہوتی ہے :
1۔ Prologue
2۔ Episodes قسطیں
3۔ Exodes
4۔ Choral Portion وغیرہ

پیروڈ سے قبل آنے والا حصہ پرولوگ ہے، اسے ابتدائیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کورس یا گیت کے درمیان میں موجود کہانی ایپی سوڈز ہیں، ایک سوڈ کے بعد کوئی کورس یا گیت نہیں آتا۔

(13)

اس باب ٹریجڈی ایسے عناصر زیر گفتگو رہے جنھیں لازمی ذہن میں رکھا جائے اور کچھ ایسے جن سے احتراز برتا جائے۔ • پیچیدہ پلاٹ کو ارسطو نے پسند کیا ہے اور تلقین کی کہ پیچیدہ پلاٹ سے ترس اور خوف جذبات ابھارنا مہارت ہے۔ •ٹریجڈی میں امیر (مجھے انگریزی لفظ good man پہ اعتراض ہے لہٰذا میں یہاں Rich اخذ کر رہا ہوں ) بڑے خاندانی افراد کو خوشحالی سے بدحالی میں مبتلا ہوتے نہیں دکھانا چاہیے نہ ہی غریب شخص (یہاں bad man پہ اعتراض کروں گا) کو خوشحال ہوتے دکھایا جائے کیونکہ ان سے ٹریجک اثر نہیں پیدا کیا جا سکے گا۔

ان دونوں صورتحال میں ٹریجڈی کے لوازمات نہیں ہیں۔ خوف اور ترس کے جذبات اجاگر کرنے کے لئے ایک Ideal مثالی انسان چاہیے جو کہ اپنے نیک نامی کی وجہ سے مشہور ہو اور جس کا بدحالی کی طرف کا سفر کسی گناہ یا بدکاری کے بغیر قسمت کا فیصلہ دکھایا جائے۔ مثلاً اڈی پس اور تھی یس ٹیس وغیرہ۔ •قسمت کی تبدیلی بدحالی سے خوشحالی نہ ہو بلکہ اس کے متضاد ہو۔ •پلاٹ میں دلچسپی کا مرکز واحد شے ہو تاکہ دیکھنے والے یا پڑھنے والا کہانی کے آخر تک منتشر نہ رہے۔ (یہ باب اپنی عدم وضاحت اور تعصب کی وجہ سے مبہم ہے اور قابل تنقید ہے )

(14)

ترس اور خوف کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ارسطو کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جذبات کو ابھارنے کے لئے عمل کی تعمیر ہو بلکہ سننے والا بھی اتنا ہی اثر قبول کرے جتنا ٹریجڈی دیکھنے والا کرتا ہے، یہی ایک اچھے ادیب /شاعر کی خوبی ہے کیونکہ اسٹیج پہ اثر پیدا کرنا کم درجے کا فن ہے، اس کے لئے منتظمین اسٹیج اور مالی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔

ترس : اگر ایک فرد اپنے دشمن کو قتل کرتا ہے تو اس واقعہ میں ترس پیدا کرنے والی چیز نہیں ہے۔ لہٰذا ترس پیدا کرنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ لڑنے والے / ایک دوسرے کو قتل کر دینے والے افراد کا تعلق قریبی لکھا جائے مثلاً بھائی بھائی، دوست، باپ، ماں، بیٹی، اور بہن وغیرہ۔

تین قسم کے افعال ہو سکتے ہیں :
1۔ ٹریجڈی میں کردار کوئی خاص فعل کرتے ہوئے عقلی طور پر حالات سے آگاہ ہوں۔
2۔ فعل کرنے کے بعد کردار میں پیدا ہونے والی شرمندگی، اور حقیقت سے اٹھنے والا پردہ۔

3۔ کوئی قریبی رشتوں سے کوئی دہشتناک فعل کرنے والا ہو اور آخری وقت میں اسے ادراک ہو کہ وہ اس کا قریبی ہے اب حالات کی سنگینی کے باوجود وہ اسے معاف کر دے یا خود کو مار لے۔

ان تین عناصر کی وضاحت ارسطو اس طرح کرتا ہے کہ عقلی طور پر سوچ کر کچھ دہشت ناکی کرنے والے پر ترس اور خوف سے ہٹ کر محض نفرت کے جذبات ابھریں گے۔ 2۔ ناواقفیت کی بنا پر سرزد ہونے والا فعل کردار کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ساکت اور حیران کر دے گا کیونکہ اس طرح ایک غلط وقت پہ اس پر ہونے والا انکشاف ٹریجڈی ناقابل فراموش حصہ ہے۔ 3۔ تیسری صورت بھی دوسری سے کم ٹریجک نہیں کہ مقصد کی تکمیل کے وقت ایک کردار دوسرے کو پہچان لے۔ مثلاً کرسفونٹس اپنے بیٹے عین اس وقت پہچان لیتی ہے جب اسے مار ڈالنا چاہتی ہے۔

(15)
ٹریجڈی کے کردار کیسے ہوں :

1۔ نیک اس کی گفتگو اور اعمال سے اس کی نیکی نمایاں ہو۔ لیکن نیک تو عورت (جو کہ ارسطو کی نظر میں بھی کمتر ہے ) اور غلام بھی ہو سکتے ہیں۔ (عقلیت پسند ارسطو بھی مغالطے کا شکار رہا)

2۔ اگر ایسے افراد نیک ہو سکتے ہیں تو ضروری ہے اس کردار میں جنگجویانہ یا مردانہ جوش و جذبہ ہو۔ لیکن ایک عورت کے کردار میں مردانگی دکھانا اچھی ٹریجڈی نہیں ہو سکتی۔

3۔ کردار زندگی ہے مطابق ہوں، زندگی کے قریب ہوں۔ (انتہائی اہم نقطہ جو ارسطو کو اپنے ہمعصروں سے جدا کرتی ہے، وہ قدیم کہانیوں سے اپنے وقت تک کی کہانیوں سے ٹریجڈی کی تنقید رقم تو کرتا ہے مگر آنے والے لکھاریوں کو یونانی اساطیری روایت سے انحراف کر کے زندگی کے قریب رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ )

4۔ کردار اور واقعات میں ہم آہنگی ہو، ترتیب درست ہو، بے ترتیبی بھی ایک ترتیب میں دکھائی جائے۔

انکشافات پلاٹ کے اندر ہی سے واضح ہو جائیں ان کے لئے کوئی غیر ضروری چیزیں متعارف کروانا ٹریجڈی کے اثر کو کمزور کرے گا۔ ٹریجڈی ایسے لوگوں کے نقل جو اوسط درجے سے بہتر لوگ ہیں اس لئے لکھاریوں کو چاہیے کہ وہ مصوروں کی صفت اپنائیں اور چیزوں کو اس طرح پیش کریں کہ حقیقت سے زیادہ ڈرامائی اور خوبصورت لگیں۔

(16)
ٹریجڈی میں انکشاف مختلف طریقے
1۔ اشاروں یا چھوڑی ہوئی نشانی سے انکشاف ہونا، ارسطو اسے کم آرٹسٹک کہتا ہے۔
2۔ دوسری قسم کا انکشاف شاعر خوف اپنے فنکارانہ طریقوں سے متعارف کرواتا ہے۔
3۔ ایسے انکشافات بھی ہیں جو یاد داشت یا انسانی حافظے سے ہوتے ہیں۔
4۔ عقل استعمال کرنے سے ہونے والے انکشافات۔
5۔ غلط اور جھوٹا انکشاف جسے مغالطہ بھی کہا جا سکتا ہے جو غلط افراد کی جھوٹی گفتگو سے اخذ کیا جائے۔
6۔ وہ انکشاف جو واقعات کے ظہور میں آنے سے ہو۔
ارسطو چھٹے نمبر والے کو بہترین انکشاف قرار دیتا ہے۔
(17)

1۔ شاعر کو واقعات اس طرح رقم کرنے چاہیے کہ جیسے وہ اس پلاٹ کا عینی شاہد تھا۔ 2۔ شاعر کو تقریر کے ساتھ اپنے ڈرامائی تاثرات بھی بتانے ہوں گے کیونکہ تحریر میں ایسے جذبات زیادہ متاثر کرنے والے ہوں گے جس میں کیفیت کا اظہار بھی ہو جائے۔ ارسطو کہتا ہے شاعری یا تو قدرتی صلاحیتوں والا شخص کر سکتا ہے یا پاگل شخص (مگر دھرتی کی بے چینی کو بس پاگل سمجھتا ہے ) پہلا شخص بہت حساس اور گداز دل والا ہوتا ہے اور دوسرا جذباتی۔ 3۔ شاعر کے لئے سب سے پہلا کام واقعات کو ترتیب دینا اور انھیں ممکنہ حد تک مختصر کر کے آفاقی بنانا ہے۔

(18)

ہر ٹریجڈی میں پیچیدگیاں complication اور حل Denouement موجود ہوتے ہی۔ پیچیدگیاں پلاٹ کے بیرونی مسائل سے متعلق ہوتی ہیں یعنی کہانی میں ان کا ذکر بس اشارتاً ہوا ہو اور بعض اوقات پلاٹ کے اندرونی مسائل سے تعلق رکھتی ہیں۔ پیچیدگی سے مراد وہ نقطہ ہو سکتا ہے جہاں ایک کردار کی قسمت یکسر تبدیل ہو جائے۔ بہت سے شعرا پلاٹ کو بہت پیچیدہ کر کے خود بھی سلجھانے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

ارسطو نے کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے :
1۔ ایسی کہانی جس میں تنسیخ Anagnorisis یا انکشاف Discovery ہو۔
2۔ مصائب و آلام والی ٹریجڈی۔
3۔ کردار کی ٹریجڈی
4۔ spectacle
(19)

زبان سے پیدا ہونا والا اثر خیال ہے، قبول اور ناقبول ابھرنے والے جذبات (ترس، خوف، غصہ، اور ایسے ہی دوسرے ) ہیں۔ پلاٹ میں جہاں ترس، دہشت اور a look of probability کے تاثرات پیدا کیے جائیں تو انھیں توضیع کے بغیر زبان سے پیش کیا جائے۔

(20)

اس باب میں گرائمر کا بیان ہے۔ 1۔ ہر حرف غیر منقسم ایک مخصوص آواز رکھتا ہے جو قابل فہم ہوتی ہے۔ 2۔ syllable غیراہم جزو ہے جو متحرک اور غیر متحرک آوازوں سے مل کر بنتا ہے۔ 3۔ حروف عطف conjunction بھی غیر اہم حصہ ہیں 4۔ Article جو جملے کا آغاز کرتا ہے وہ بھی غیر اہم حصہ ہے 5۔ اسم Noun اہم حصہ ہے۔

6۔ اسم فعل بھی بہت ضروری حصہ ہے۔
(21)

دو طرح کے استعارے اور Noun اسم ہوتے ہیں : ایک استعارہ سادے لفظ سے واضح ہوتا ہے دوسرا دو یا دو سے زیادہ الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تین، چار یا اس سے زیادہ الفاظ سے بھی ایک ترکیب، استعارہ بناتا ہے۔ (موجودہ نثر نگار ایک استعارے کو واضح کرتے کرتے ضخیم ناول بھی لکھ دیتے ہیں )

ان کی ہییت مختلف ہو سکتی ہے یعنی 1۔ عام لفظ جو کسی چیز کے لئے استعمال ہوتا ہو۔ 2۔ متروک، مشکل یا نا شناساں 3۔ استعارہ۔ 4۔ زیبائشی لفظ 5۔ دو رخی مفہوم والا لفظ 6۔ چھپے معنی والا لفظ 8۔ ایسا لفظ جو جملے کے مطابق مفہوم بدل لے۔

(22)
زبان و بیان کے مختلف حصے :

پلاٹ کی زبان عامیانہ اور پامال (متروک) الفاظ نہ ہونے پائے۔ اس میں ارسطو نے انتہائی اہم نقطہ ہر دور کے قاری کے لئے رقم کیا کہ ”بہترین زبان وہ ہوتی ہے جو روزمرہ کی ہو۔“

ایسی زبان جو ثقیل الفاظ و تراکیب پہ مشتمل ہو عام سطح سے بلند ہو جاتی ہے اور اس کی audience سے عام افراد نکل جاتے ہیں۔ ایسی زبان کا سودمند ثابت نہیں ہو سکتا۔ غیر مانوس اور غیر ملکی تراکیب و استعاروں سے ٹریجڈی یا شاعری کی تاثیر جاتی رہے گی۔

یوں تو ہر صنعت تخلیق کا درست استعمال قابل ستائش ہے لیکن استعارہ ارسطو کی نظر سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

(23)
ایپک ایک کہانی کے بہانے پورے عہد کی منظر کشی ہوتی ہے عہد نامہ یا تاریخ کے بارے میں ارسطو کہتا ہے :

A history has to deal not with one action, but with one period and all that happened in that to one or more than one persons, however disconnected. Several events may take place at the same time.

اس معاملہ میں ارسطو ہومر کو خصوصی سراہتا ہے۔
(24)

ایپک شاعری بھی سادہ اور پیچیدہ دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ اس میں بھی تنسیخ، انکشاف، مصائب و آلام کو موضوع بنایا جاتا ہے ۔ ٹریجڈی سے قطع نظر ایپک طویل کی جا سکتی ہے، اس میں مصنف بیک وقت مختلف جگہوں پہ ہونے والے مختلف واقعات جو کہانی سے متعلق ہوں بیان کر سکتا ہے۔

ایپک روایتی ہکسا میٹر میں تحریر ہوتی آئی ہے کیونکہ یہ بحر ہی اس کے لئے موزوں ترین ہے۔ اس میں مقامی، روزمرہ کے الفاظ سمیت متروک اور ثقیل الفاظ کو اپنانے کی گنجائش ہوتی ہے۔ ارسطو انتہائی اہم بات کرتے ہوئے یہ بحث ختم کرتا ہے کہ

”Heroic nature herself, as we have said, teaches us to select the meter appropriate to such a story.“

(25)

تخلیق میں زندگی کی نقل کی ہوئی نقل تین اصولوں پہ ہونی چاہیے ؛ من و عن ایسی جیسی وہ ہے، دوسری جیسی وہ بتائی جاتی ہے یا جیسا اسے ہونا چاہیے۔ ان کے بیان کے لئے شاعر کے پاس پہلا اور آخری ذریعہ زبان ہے لہٰذا جس طرح ممکن ہو وہ قابل فہم زبان استعمال کر کے مفہوم پہنچا جا سکتا ہے۔

شاعری میں دو عیب ہوتے ہیں ایک واضح عیب اور دوسرا حادثاتی یا اتفاقی۔ مثلاً شاعر کسی اہم واقعہ کو اپنی فنی خامیوں کی وجہ سے پیش کر کے مقاصد کا حصول ممکن نہیں بنا سکا تو یہ واضح نقص/عیب ہے۔ دوسرا عیب علم کی دوسری شاخ سے تعلق رکھتا جس کا شاعر کو زیادہ ادراک نہ ہو مثلاً ایک شخص نے گھوڑے کو نہیں دیکھا اس کی تین ٹانگیں لکھ دیتا ہے تو یہ اتفاقی غلطی ہے۔

خوبصورت تخلیق نقص سے پاک ہوتی ہے لہٰذا شاعر کو بڑی احتیاط سے کام لینا پڑے گا ارسطو کہتا ہے شاعر اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ناممکنات کو پیش کر سکتا ہے۔ اس شے کی اجازت شاعر کو ضرور دینی چاہیے۔

تحریر میں اخلاقی طور پر بری یا اچھی بات کو بھی بطور خاص نظر میں رکھنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments