بڑے شہروں سے باہر کا پاکستان



کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے باہر نکلتے ہی باقی ماندہ ملک کا چپہ چپہ ایسے ہو گیا ہے جیسے کوئی زچہ تازہ تازہ بچہ جن کر حالت چلہ میں چارپائی پر ادھ موئی ہوئی لیٹی ہو اور اب اس کی ”اللہ جی اللہ جی“ کی فغائیں بھی دم توڑ چکی ہوں اور یہ نیم وا آنکھوں کے ساتھ دنیا و مافیہا سے بے خبر گردن ایک جانب ڈھلکائے بے سدھ پڑی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے گھر میں ایک ہڑبونگ اور تباہی بال کھولے سوئی پڑی ہو مگر اسے کوئی ہوش نہ ہو۔

سڑکیں خستہ حال، سیوریج لائنیں بند، صفائی کا انتظام ندارد، مہذب انسانی ضروریات کی اشیا ناپید، بجلی بند ہے تو چار چار گھنٹے بند ہے۔

پانی کی سپلائی معطل ہے تو پورا پورا ہفتہ ”موٹر خراب ہے۔ ٹینکر ڈلوائیں۔“ کا جواب ہے۔

دو چار سال قبل انسانی حقوقیئے پینے کے ”صاف“ پانی کی عدم دستیاب پر غاؤں غاؤں کر کے جیبیں بھرتے تھے اب گندا بھی میسر نہیں ہے۔ فلٹریشن پلانٹس گلی گلی میں لگے ہیں لیکن دو دو سال ان کے فلٹر تبدیل نہیں کیے جاتے اور ان کے نلوں سے گیس نکلتی رہتی ہے۔ قوی امکان ہے کہ یہ گیسیں ہائیڈروجن اور آکسیجن ہیں اور یہ بات اس قدر وثوق سے ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ ہم کئی بار ان چشم ہائے عصیاں سے ان نلوں سے پانی کے قطرے بالکل ویسے ٹپکتے دیکھ چکے ہیں جیسے قبلہ بڑے حکیم صاحب کے مطب کے اشتہاروں میں بیان کیا جاتا ہے۔

ان فلٹریشن پلانٹس پر سیاہ و سفید پوش تو پہلے بھی آتے تھے اور
کبھی پانی پہلے بھرنے لے جانے پر جھگڑا،

تو کبھی اپنا گیلن آگے بڑھانے پر جھگڑا بھی کرتے تھے لیکن اب وہ امرا بھی آ کر دست و گریبان ہونے لگے ہیں جو اب کھاتے پیتے نہیں رہے اور تیز ترین معاشی ”تبدیلی“ اور نئے پاکستان کے باعث درحقیقت انہیں تلنگوں اور ملنگوں میں ضم ہوچکے ہیں۔

ہم آج پانی بھرنے گئے تو ایک کیری ڈبے والا اڑتالیس یہ بڑی بڑی پانی کی بوتلیں جن کی کیپیسٹی پینتیس لٹر فی بوتل تھی زمین پر رکھے ہوئے تھا اور فلٹر پلانٹ کی چار عدد نلوں پر قبضہ جمائے تھا۔ باقی کی چار نلوں پر بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے کھڑے تھے اور ان کی سرکار میں پیچھے ایک اژدہام پریشان کھڑا تھا۔

یہ تو تین بڑے شہروں کا حال ہے۔ باقی پورا ملک دیہات بن چکا ہے اور اس کا عالم یہ ہے کہ ہم آپ چپل پہن کر پیدل جاکر دہی نہیں لا سکتے۔

پاؤں ٹخنوں سے نیچے تک ریت میں دھنس دھنس جاتے ہیں۔ ہر دوسری گلی میں ابلتے گٹر اور نالیوں کا کیچڑ پنڈلیوں کے نصف النہار تک آتا ہے۔ تعفن اور مچھروں کے باعث بیماریاں پھوٹ پھوٹ پڑتی ہیں۔ کمیٹی کا عملہ ہر دو ماہ بعد ایک مٹی کی ٹرالی اس غلاظت پر پھینک ”ایک گوں کے سو گوں“ کر جاتا ہے۔ مگر سیوریج ٹھیک نہیں کرتا۔

سڑکوں پر دھو لیں اڑ رہی ہیں۔ منہ سر ایک ہوا جاتا ہے۔

لوگ ڈربے نما گھروں میں قید ہیں۔ ان کے شکموں کے پھیلاؤ اور تھنوں کے لٹکاؤ کے آگے حاملہ عورتوں کی چھاتیاں اور پیٹ پانی بھرتے ہیں۔ ہر دوسرا شخص آلودہ پانی و غیر متوازن غذا کے باعث گھٹنوں سے لے کر دل، گردوں اور پھیپھڑوں کے امراض کا شکار ہے۔ لوگ بے چارے بھی کیا کریں؟ واک اور ورزش تو رہ گئی ایک طرف اگر ہوا خوری کو بھی باہر نکلیں دو قدم چل نہیں سکتے۔ کہیں سے ”پھٹ پھٹ پھٹ“ موٹر سائیکل رکشہ آ رہا ہے، کوئی نابکار بغیر سائلنسر کا بائیک لئے اعصاب شکن انداز میں ٹہوکا مار کر بازو چھیل جاتا ہے۔

کوئی ٹھیلے والا سپیکر کا رخ کان کے پردے کی جانب کر کے دماغ پھاڑتا ہے۔ ٹریفک جام ہے۔ ورزش اور واک کی جگہ نہیں۔ کوئی پارک وغیرہ دستیاب نہیں۔ اگر ہیں تو ان کی حالت ایسی ہے کہ شریف آدمی وہاں پانچ منٹ سے زیادہ ٹھہر نہیں سکتا۔ روپے کے علاوہ کوئی شے ایسی نہیں بچی جس کی قیمت میں روز بروز ہوشربا اضافہ نہ ہو رہا ہو۔ ارباب اختیار کی ڈھٹائی اور بے شرمی سے انجم سہمے جاتے ہیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سکون صرف قبر میں ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments