نئی جگہ ہجرت کرنے والے سوشل سرکل بنا سوچے سمجھے کیوں بناتے ہیں


انسان ایک ایسا سماجی حیوان ہے جو چاہ کے بھی مکمل طور پہ تنہا نہیں رہ سکتا۔ سماج سے جڑ کے رہنا ایک جبلی مجبوری ہے۔ آغاز پیدائش سے ہوتا ہے جب بچہ خاندان سے جڑا ہوتا ہے پھر سکول اور باہر کے معاشرتی اداروں سے جڑتا ہے۔ بچے کو شروع کی تربیت والدین سے ملتی ہے کہ کیسے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے۔ تعلق کیسے بنانے ہیں دوستی کیا ہے۔ ہم جماعت کیا ہوتے ہیں پھر سکول کا ادارہ بھی تربیت کرتا ہے۔ یہی بچے اگر پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں تو انہیں اعلی تعلیم کے لیے ترقی یافتہ علاقوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ نئے علاقوں کی بود باش، نئی آزادی اور نئے طرز زندگی میں جہاں کشش ہے وہیں سوشل سرکل بنانا بھی از حد ضروری ہوتا ہے۔

ہاسٹل میں رہنے والے لوگ ایک ہی تعلیمی ادارے ہوں یا ہم جماعت یا محض ہم عمر ہی ہوں ان کے خواب، باتیں، ذہنی عمر، زندگی کھوجنے کا شوق کم و بیش ایک سا ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ان میں مسائل بھی گھر سے نئی بننے والی دوری کی وجہ سے انہیں ساتھیوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور یہی کمپنی بنانے کے لیے انہیں مختلف حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ نئی جگہ کمپرومائز سے رہنا، کسی کا بلاوجہ تنگ کرنا، کسی کی دھونس تو کسی کا برداشت کرنا یہ سب چلتا ہے۔ ایسے میں دوستیاں بھی بلا سوچے سمجھے ہوتی ہیں اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی موقع پرست لوگوں کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں تو کبھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جس میں اس بچے کی پوری زندگی متاثر ہو جاتی ہے۔

تعلیمی سفر مکمل کرنے لے بعد روزگار کے سلسلے میں مختلف علاقوں میں منتقل ہونے والے لوگ سوشل انٹر ایکشن کی کمی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگ اگر ہاسٹل میں رہ رہے ہوں تب بھی انہیں اپنی فرصت کے مطابق ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے لوگ نہیں ملتے۔ کام کی جگہ پہ دوستی کرنا اور چلانا ایک کمال ہے جو ہر کوئی نہیں کر سکتا اور ویسے بھی تھوڑی دانائی رکھنے والا بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ پروفیشنل لائف کو نجی زندگی سے الگ رکھنا از حد ضروری ہے ورنہ آپ اپنے پیشہ ورانہ مسائل کو چوبیس گھنٹے ساتھ لے کے گھومیں گے۔

ایسے لوگ اپنے اردگرد، سوشل میڈیا کے ذریعے یا کسی حوالے سے ملنے والے لوگوں سے میل جول رکھ لیتے ہیں۔ ایک حد تک یہ ضروری ہے کیونکہ مکمل تنہائی انسان کو ڈپریشن کی طرف لے جاتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کا سرکل ڈپریشن سے بچاتا ہے؟ ایک مثال انڈین اداکار سشانت سنگھ کی ہے رپورٹ کے مطابق خود کشی کے وقت سشانت کے دوست اس کے فلیٹ پہ موجود تھے۔ تو کیا وہ نہیں سمجھ سکتے تھے کہ ان کے دوست کی ذہنی حالت کیسی ہے یا پھر وہ ایسے دوست تھے جو نام کے دوست ہوتے ہیں اور اپنے فائدے کے لیے پیرا سائٹس بنتے ہیں۔

اپنوں سے دوری کے دوران بنائی جانے والی دوستیاں کافی حد تک مطلب کی حد تک ہوتی ہیں۔ جب آپ اکیلے رہ رہے ہوں کسی کے ساتھ شیئرنگ میں نہ ہوں اس وقت آپ کے اپنے اس بات کو لے کے زیادہ کنسرن ہوتے ہیں۔ ان کی فکر کو دیکھتے ہوئے اچھے خاصے ان سوشل لوگ بھی اپنے گرد ہجوم اکٹھا کر لیتے ہیں ایک ایسا ہجوم جو انسان کی پازیٹیو انرجی کو ختم کرنے اس کے وقت اور ذہنی سکون کو برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتا، وہ لوگ کو ہر وقت یہی رونا روتے رہیں کہ ان کے ساتھ کبھی کچھ اچھا نہیں ہوا۔

سب لوگ برے ملے ہیں ان سے ہمدردی کریں وہ آپ کے رحم کے مستحق ہوتے ہیں کیونکہ وہ خود ترسی کا شکار ہیں۔ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت غیر جانبدار ہیں وہ بھی دراصل تھالی کے بینگن ہیں ان سے فاصلہ ہی بہتر ہے۔ بغیر ریڑھ کی ہڈی کے انسان۔ وہ جو اپنے مطلب کے لیے آپ سے رابطے میں رہیں لیکن آپ کو کبھی ضرورت پڑے تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوں ان کی سائیکی بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ یوٹیلیٹیرین نیچر سے مجبور ہیں انسانیت اور اخلاقیات کی بات تو کرتے ہیں لیکن اس کی خاک تک نہیں پہنچ پاتے۔

اور ان کو تو کسی بھی خانے میں فٹ نہ کریں جو لگائی بجھائی کرتے ہیں ادھر کی ادھر اور لگائے شیخ بجھائے شیخ پھر شیخ کے شیخ بنے رہتے ہیں۔ مظلومیت کا لبادہ اوڑھے عیاریاں کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہی‍ں جو اپنے مفاد کے لیے آپ کی قربانی دینے کو رضامند ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو دل میں کینہ رکھ کے بظاہر دوست بنیں رہیں وہ انسانوں کی خطرناک قسم ہے جو ہر طرح سے اپنے فائدے کے لیے کیمو فلاج ہو سکتے ہیں۔ ان کی طرف نظر اٹھا کے بھی نہ دیکھیں

نئی جگہ پہ نیا سرکل بنانا انسانی مجبوری سہی لیکن ایسی مجبوری ہر گز نہیں ہے کہ اس کے لیے آپ اپنی اقدار اور معیار کو بھول جائیں۔ اپنوں سے اور گھر سے دوری انسان کو اس بات کے لیے فورس کرتی ہے کہ وہ انجان جگہ پہ انسانوں سے ایسا تعلق بنائے جنہیں وہ اپنا کہہ سکے۔ اور اس وجہ سے دوستوں کے دوستوں کو بھی کھلے دل سے حلقہ احباب میں جگہ دی جاتی ہے۔ لیکن بغیر کسی کی نیچر سمجھے اور دیکھے اسے اپنے حلقہ احباب میں شامل نہ کریں۔

کیونکہ جن لوگوں میں آپ کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے وہ آپ کی سوچ، جذبات، رہن سہن اور رویوں پہ بہت گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ ان کا انداز فکر آپ کو متاثر کرتا ہے۔ مثبت انداز فکر کے لوگ آپ کو زندگی کے روشن پہلووں سے متعارف کرواتے ہیں منفی سوچ رکھنے والے آپ کے اندر کے قنوطیت پسند کو متحرک کر دیتے ہیں۔ حوصلہ افزائی کرنے والے آپ کی ذات کے اچھے پہلووں کو پروان چڑھاتے ہیں اور منفی وائبز والے نہ صرف آپ کا حوصلہ پست کرتے ہیں بلکہ آپ کی ذات کے بدصورت پہلوں کو بڑھنائے کا باعث بنتے ہیں۔

ایسے لوگ آپ ذہنی و جذباتی صحت کو متاثر کرتے آپ کا وقت اور پازیٹیو انرجی کو ضائع کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے رشتوں میں اخلاص رکھتے ہیں اور جہاں دل میں کوئی بات ہو اسے چھپاکے ظاہری تعلق نبھانے کی بجائے فاصلہ پیدا کر لیں وہ دنیا کی نظر میں برے ہو سکتے ہیں لیکن وہ اپنی توانائی کو نیگیٹیو وائبز سے بچا کے اپنی زندگی کو بہتر بنانے میں خرچ کر سکتے ہیں۔ پیرا سائٹس بظاہر ایک ساتھ اور تعلق ہے لیکن یہی اپنے میزبان کی زندگی کو خاموشی سے ختم کر دیتے ہیں۔ انسان کی زندگی اس کی مثبت سوچ، کام کرنے اور آگے بڑھنے کی توانا، ذہنی و جذباتی صحت میں ہے۔ نیگیٹیو وائبز والے پیراسائٹس ان سب نعمتوں کو بے جان کر دیتے ہیں۔ اپنی صحبت کا انتخاب سوچ سمجھ کے کرنا ضروری ہے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو آپ کی عادات، اطوار، سوچ، جذبات، رہن سہن ہر پہلو کو متاثر کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments