ایک عام پڑھا لکھا شہری، مذہب، شدت پسندی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے بارے کیا سوچتا ہے؟


حال ہی میں مجھے ایک فیلوشپ پروگرام میں شرکت کے لئے فارم بھرنا پڑا، سوالات ایسے تھے جو ایک عام شہری کی سوچ کو تحریک دینے کے لئے کافی تھے۔کچھ اہم سوالات جوابات سمیت نذر قارئین ہیں۔

سوال نمبر 1 آپ کی زندگی اور روز مرہ کے فیصلوں میں مذہب کا کیا کردار ہے؟

مذہب میرے لئے اہم ہے۔ لیکن میں اس معاملے میں شدت پسند نہیں ہوں۔ میں اپنی ذات تک مذہب سے رہنمائی لیتی ہوں لیکن یہ امید نہیں کرتی کہ دوسروں پر بھی اپنی رائے مسلط کروں۔ جیسے میں دوپٹہ اوڑھتی ہوں، نماز پڑھتی ہوں، ساتھ فلمیں دیکھتی ہوں، دوستوں کے ساتھ ہینگ آؤٹ کرتی ہوں، میوزک سنتی ہوں لیکن پھر بھی مذہب پر میرا مکمل یقین ہے۔ اور میں اس پر عمل بھی کرتی ہوں۔

سوال نمبر 2 کیا مذہب معاشرے میں امن قائم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟

بالکل مذہب کا ایک بڑا کردار ہے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اگر مذہب کے سو کالڈ ٹھیکیدار مذہب تک عام انسان کی رسائی ممکن بنا دیں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ ہر مذہب میں معاشرتی بھائی چارے، انسانیت سے محبت، غریبوں لاچاروں کی مدد، کا سبق ملتا ہے اگر ہر انسان اپنے حصے کا کردار نبھائے تو معاشرے میں امن قائم ہو سکتا ہے۔

آپ کے خیال میں اقلیتیں مختلف مذاہب کے افراد کو قریب لانے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں؟

نہ صرف اقلیتوں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ باہمی رواداری اور بھائی چارے کو فروغ دے، کسی کے فرقے یا مذہب کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے نفرت نہ کرے بلکہ آؤٹ آف دی باکس سوچے۔ معاشرے میں موجود عدم برداشت کو کسی طرح ختم کرنے کی ضرورت ہے پھر چاہے اقلیتیں ہوں یا اکثریت ایک دوسرے کے قریب ہوں گی۔ باہمی رواداری، بھائی چارہ، ایک دوسرے سے ہمدردی، ایک دوسرے کی بات کو سمجھنا چاہے اسے دل سے نہ مانیں لیکن کم از کم ایک دوسرے کو کھلے دل کے ساتھ سن لینے میں تو کوئی حرج نہیں۔ میرے خیال میں ہر مذہب کے لوگوں کا ایک دوسرے سے انٹریکشن ہو نا چاہیے ایسے فورم ہونے چاہیے جہاں کھل کر بات کی جا سکتی ہو۔ اگر ہمیں بچپن میں ہی بتا دیا جاتا ہے کہ فلاں کلاس فیلو کرسچن ہے اس کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بعد ہاتھ پاک نہیں رہتا تو اقلیتیں ہمیں اپنے قریب لانے کے لئے اکیلی کیا کر سکتی ہیں؟

سوال نمبر 3 آپ کی نظر میں بین المذاہب مکالمہ کیوں اہم ہے؟ آپ فی الوقت کن طریقوں سے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں مصروف ہیں؟

بین المذاہب مکالمہ نہ صرف بہت اہم ہے بلکہ ایک دوسرے کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے سے قبل ایک دوسرے کو سننا بھی بہت ضروری ہے۔ اگر حضرت عیسی کو ہم اللہ کا نبی مانتے ہیں اور عیسائی انہیں اللہ کا معاذاللہ بیٹا مانتے ہیں تو کم از کم میرے لئے یہ اہم نہیں ہے کہ میں انہیں ان کے عقیدے پر قتل کرنے کا حق رکھتی ہوں، میں سمجھتی ہوں مجھے ان کے بنیادی عقیدے کا احترام کرنا چاہیے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب میں انہیں بحیثیت انسان ان کے ساتھ انٹریکشن کروں، ان کے مذہب کی بنیاد ہر انہیں جج نہ کروں۔

میں صحافی ہوں اور اخبار میں لکھتی ہوں، اس حوالے سے میں کئی بار اپنی تحریروں میں لکھ چکی ہوں کہ خدا کے لئے اپنے مذہب کے ٹھیکیدار بننا بند کریں، اگر کرسمس کے موقع پر آپ اپنے ساتھ کام کرنے والے کسی کرسچن کو کیک بھجوا دیں گے تو اس سے آپ کا ایمان خطرے میں نہیں پڑے گا۔ برداشت، احترام اور محبت کی پالیسی تبھی تشکیل دی جا سکتی ہے جب آپ دوسروں کے نظریات کا احترام کریں، پر امن معاشرے کی تشکیل کے لیے تضادات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ اختلافات کو سمجھنے کے بعد ہی دوسرے عقائد اور مذاہب کا احترام جنم لیتا ہے۔

سوال نمبر 4 پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کے حصول میں کیا مشکلات ہیں؟ اس معاملے کا ایک حل اس کی مثال کے ساتھ بتائیں۔

یہاں بچپن ہی سے ہم دیکھتے ہیں کہ جو غیر مسلم ہیں وہ ہم سے کم تر ہیں، صفائی کا کام ہے تو وہ عیسائی ہی کرے گا، اگر سکول میں آپ نے عیسائی لڑکی سے دوستی کر لی تو آپ اس کے ساتھ اس کے گھر نہیں جائیں گے اس کے گھر سے آئی ہوئی کوئی چیز کھائی گے نہیں۔ اس کے کسی تہوار پر آپ اسے مبارک باد کا پیغام تو سوشل میڈیا پر لکھ کر دیکھیں آ جائیں گے سب آپ کو کافر کہنے والے! تو میں سمجھتی ہوں کہ بڑے بڑے دعوے کرنے کی بجائے ہمیں انفرادی طور پربین المذاہب ہم آہنگی کے حصول کے لئے ذرا سا اپنا دل کھولنا پڑے گا۔

سوال نمبر 5 مذہبی انتہاء پسندی سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ آپ کے مطابق، مذہبی انتہاءپسندی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی آتی کہاں سے ہے؟ کم علم مولویوں سے یا جذباتی لوگوں سے جنہوں نے کبھی خود اپنے مذہب سے متعلق کوئی کتاب پڑھی نہیں ہوتی البتہ سوشل میڈیا پر اپنے جذبہ ایمانی کی تپش دکھانے کے لئے ہیجانی اور جذباتی پوسٹس کرتے رہیں گے۔ یہ ایک نقطہ ہے دوسری جانب یہ بھی مذہبی شدت پسندی ہے کہ آپ جنت کے حصول کے لئے کسی کا قتل کر دیں۔ میں سمجھتی ہوں ہمیں کسی طرح لوگوں کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، حکومتی پالیسیاں اور قوانین تب تک کسی کام کے نہیں جب تک ہم سب اپنی سوچ نہیں بدلیں گے۔ مذہبی شدت پسندی تو یہ بھی ہے کہ مجھے دوپٹہ نہ اوڑھنے پر جبرا اوڑھایا جائے یا مجھے بدکردار سمجھا جائے۔ تو اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے ایک انسان کو اس کی choices of lifeکی آزادی دینا میرے خیال میں بہت ضروری ہے۔

سوال نمبر 6 آپ کے مطابق ایک امن پسند اور تشدد سے پاک معاشرے کے کیا عناصر ہیں؟

امن پسند معاشرے کے عناصر
میانہ روی
رواداری
تحمل مزاجی
ایک دوسرے کو برداشت کرنا
معاف کر دینا اور انصاف کرنا
جبکہ پرتشدد معاشرے کے عناصر میں : غیر معیاری تعلیمی نظام
جہالت
سیاسی کلچر
قانون کی بالا دستی کا نا ہونا
ہمیشہ خود ہی کو درست سمجھنا
معاشرتی نا انصافی و زیادتی
تشدد
رنگ و نسل یا جنسی امتیاز کی بنیاد پر کسی کو کم تر سمجھنا

سوال نمبر 7 ایک سماجی لیڈر ہونے کے ناتے آپ کے اہداف اور امنگیں بین المذاہب ہم آہنگی کے ساتھ کیسے منسلک ہیں؟

میرا تعلق پنجاب کے ایک روایتی مذہبی دیہاتی گھرانے سے ہے، جب تعلیم کے لئے لاہور آئی تو میں میں ایک تضاد کا شکار ہو گئی، شہری زندگی یہاں کے لوگوں کے رہن سہن، حتیٰ کہ بہت سے بنیادی عقائد جن سے باہر نکل کر میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ان کی یہاں حیثیت ہی کچھ نہیں تھی۔ مجھے پہلے ہی سال ایک فاؤنڈیشن کے تحت منعقد ہونے والی ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا، جس کے پہلے سیشن میں بیٹھ کر مجھے یوں لگ رہا تھا کہ یہ سب مجھے میرے مذہب کے خلاف اکسا رہے ہیں، وہاں بنیادی انسانی حقوق اور بین المذاہب ہم آہنگی کی باتیں ہو رہی تھیں جو میرے لئے بالکل نئی تھیں۔

خیر اس ایک ہفتے کے سیشن کے بعد میں نے اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کی، نہیں یہ نہیں کیا کہ میں اپنے بنیادی عقائد سے منحرف ہو گئی بلکہ میں نے سیکھا کہ کس طرح مجھے اپنے دل اور دماغ کو کھولنا چاہیے، کیسے مجھے کسی کی رائے کو سننا اور احترام دینا ہے، کیسے کسی کو اس کے رنگ مذہب نسل یا کسی بھی بنیاد پر جج نہیں کرنا۔ کیسے ایک انسان کی زندگی، اس کا انتخاب، اس کی آزادی میرے عقائد سے زیادہ اہم ہے۔ سیکھنے کا یہ عمل آج بھی جاری ہے، مجھے لگتا ہے اس پروگرام کا مقصد مختلف مذاہب اور مسالک کے افراد کو ایک دوسرے کے مذاہب اور رویوں کو سمجھنے میں مدد دینا، ایک دوسرے کے قریب لانا ہو گا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس پروگرام میں شرکت کرنے سے میری سوچ کو مزید وسعت ملے گی۔ ہو سکتا ہے ان سوالوں کے جواب مجھے مل جائیں جو میرے لاشعور میں ہیں لیکن میں انہیں باہر کے دباؤ کے پیش نظر کبھی اپنی زبان پر نہیں لا پاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments