ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو


عمران خان ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ پونے دو کروڑ ووٹ لے کر اقتدار میں آنے والے پہلے وزیراعظم ہیں، جن کی نوک پلک بین الاقوامی طور پر پچھلی دو دہائیوں سے سنواری جا رہی تھی، جن کو 2011 سے ملکی اداروں نے گود لے لیا اور پھر سات سالوں میں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیا۔ خان صاحب جو اداروں کی تنظیم نو اور تعمیر نو کرنے، اداروں میں مثبت انقلابی تبدیلیاں لانے کے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کر کے مسند اقتدار ہوئے تھے صرف تین سالوں میں اپنے ہی اداروں کو تہس نہس کرنے لگ گئے ہیں، ریاست کے اہم بنیادی جز میڈیا کو نکیل ڈالنے، عدلیہ کے ان ججز جن کو وہ اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے بیچ رکاوٹ سمجھتے ہیں کے خلاف محاذ کھڑے کرنے اور اب الیکشن کمیشن کو تباہ و برباد کرنے پہ تل گئے ہیں۔

خان صاحب جانتے ہیں کہ ان کا تین سالہ دور حکومت ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دور حکومت ہے، وہ آئندہ انتخابات نہیں جیت سکتے اسی لیے پہلے اس میڈیا کو جس نے ان کو مسیحا بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا اور ان کی جماعت کو ملک کی مقبول ترین جماعت بنا دیا وہ ان کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا اور پھر تین سال میں آج اسی میڈیا کو نکیل ڈالنے کی مکمل تیاریاں کرلی گئی ہیں، باقاعدہ میڈیا کے خلاف آپریشن کلین اپ جاری ہے، عدلیہ کو اپنے تابع کرنے کے لیے غیر آئینی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بعد اب باری الیکشن کمیشن کی آ گئی ہے۔

خان صاحب ملک میں منصفانہ انتخابات کا بہانہ بنا کر انتخابات ٹیکنالوجی کے ذریعے چرانا چاہتے ہیں اور ان کی اس خواہش کی تکمیل کے بیچ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن رکاوٹ بنا ہوا ہے، ایسے میں حکومتی وزراء ریاست کے ایک آئینی ادارے کو آگ لگانے اور اس کے سربراہ پر مخالف جماعتوں سے پیسے لینے کے الزام لگائیں اور سونے پہ سہاگا الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعت ہونے کا طعنہ دے کر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں تو کیا سمجھا جائے، کیا یہ حرکات ملکی اداروں کی تباہی اور ریاست کو کمزور کرنے کی کوششوں کا حصہ نہیں ہیں، کیا یہ کارروائیاں آئین کے آرٹیکل 6 کے زمرے میں نہیں آتیں۔

خان صاحب کے رفقاء کار جان بوجھ کر پاکستان کے آئینی اداروں کو متنازعہ بناتے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل پہ توجہ دینے کے بجائے پچھلے تین سالوں سے صرف مخالفین کو کچلنے، اداروں کو کمزور اور بے وقعت کرنے میں لگے رہے جس سے لگتا ہے کہ حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار مرحوم جو پیشین گوئی عمران خان صاحب کے متعلق کر کے گئے وہ درست ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان جو سیاسی، معاشی اور فوجی لحاظ سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا تھا آج سیاسی افراتفری، بے یقینی، معاشی بدحالی، بدترین مہنگائی، بیروزگاری اور عالمی تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ عمران خان صاحب نے پاکستان کے عوام کے خوابوں اور امیدوں کو اپنی انتہائی ناقص کارکردگی اور طرز حکمرانی سے چکنا چور کر دیا ہے رہی سہی کسر اداروں پہ حملہ آور ہو کر پوری کی جا رہی ہے۔

پاکستان کے مقتدر حلقوں کو اب یہ سمجھنا ہو گا کہ آخر خان صاحب کا ایجنڈا کیا ہے مخالفین کے خلاف کارروائیاں تو سمجھ میں آ رہی ہیں مگر اپنے ہی ریاستی اداروں سے جنگ کے آخر کیا مقاصد ہیں، کیوں وہ اپنی ہی ریاست کو کمزور کرنے کے درپے بنے ہوئے ہیں خدانخواستہ کہیں حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد کے خدشات درست تو نہیں تھے اور اگر ایسا ہے تو یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور قوم کے لیے انتہائی تباہ کن حالات ہیں۔

فراز صحن چمن میں بہار کا موسم
نہ فیض دیکھ سکے تھے نہ ہی ہم دیکھیں گے

پاکستان اس وقت کشیدہ عالمی سیاسی صورتحال کے باعث حکومت اور ملک کے تین بڑے ستونوں عدلیہ، میڈیا اور الیکشن کمیشن میں محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا لہذا خان صاحب کو پی ٹی آئی کے وزیراعظم کے بجائے ملک کا وزیراعظم بن کر سوچنے اور اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ تاریخ میں وہ یحییٰ خان، ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف سے بھی بدتر حکمرانوں میں شمار کیے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments