مشرقی محبوبہ اور امریکی حسینہ


محبت عشق رومانس بڑی ظالم چیز ہے۔ لمحوں میں تخت کو تختہ اور شاہوں کو فقیر کر دیتا ہے۔ اس لیے بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ محبوب بھی نسلی ہونا چاہیے۔ مشرق کی مٹی عشق محبت اور لازوال رومانس کا خمیر رکھتی ہے پورے یورپ کی محبت کی مشہور داستانیں اکٹھی کر لیں تو ادھر ہمارے پنجاب کی داستانوں کا پلڑا بھاری ٹھہرے گا۔ ہمارا شمال ہی سہی لیکن مشرق و مغرب کی تفریق میں روس بھی مشرقی ہی کہلائے گا تبھی تو روس میں بھی محبت کی ایسی کاسنی کہانیاں تخلیق ہوئیں کہ دنیا کو روسی ادب سے تعصب و بغض کے باوجود انہیں ترجمہ کرنا پڑا۔

لیکن آج مجھے جس محبت کے قصے کا تقابل کرنا ہے اس میں نیلی آنکھوں کے جادو کا تذکرہ ہے نہ شہابی آنکھوں میں سرخ ڈوروں کے جلال کی تاثیر۔ مجھے آج کی کہانی کے تقابل میں چلمنوں اور بھاری اوڑھنیوں کی اوٹ سے جھانکتی حیران آنکھوں کے جذبات کا تازیانہ تو درپیش ہے۔ لیکن یہ محبت کا تقابل مشرق کی گھنگھور گھٹاؤں جیسی زلف رکھتی حسینہ یا مغرب کی خاکستری بیباک السپرا کا نہیں یہ ایک اور تقابل ہے۔

چند روز پہلے جب کابل سے امریکی دامن کو جھٹک جھاڑ کر سات سمندر پار اپنے نشیمن کو روانہ ہوئے تو عین ممکن تھا کہ کسی فنکار کے تخلیقی ذہن میں ایک کارٹون کلبلاتا کہ امریکی جہاز یوں اڑن چھو ہو رہے ہیں کہ اس کے پائیدان سے لپٹی سواریاں جھڑ رہی ہیں۔ لیکن دل آج تک کرب میں مبتلا ہے کہ یہ منظر کسی کارٹونسٹ کے حاشیہ خیال میں آنے سے پہلے حقیقت میں اپنی تمام تر بھیانک سچائی کے ساتھ ظہور پذیر ہو گیا۔ جب امریکی طیارے سے کسی متروک کیل کانٹے کی طرح انسان جھڑتے دنیا نے دیکھے۔ آسمان سے گرتے وہ صرف گوشت پوست کے انسان ہی نہیں تھے اجاڑ نسلوں کے افغانستان کے خوابوں کے آبگینے تھے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کا قیام تو ہو چکا لیکن کردار کا ننگ پن امریکہ نے ایسا عیاں کیا ہے جسے کھربوں ڈالر کی سرمایہ دارانہ میڈیا انڈسٹری بھی چھپا نہیں سکے گی۔

امریکہ کے تمام تر جنگی جرائم کا حساب ایک طرف بی باون طیاروں کی کارپٹ بمباری کی لاکھ دلیلیں ممکن ہوں گی۔ ہزاروں جواز موجود ہوں گے جنگی قیدیوں کو کنٹینروں میں بھر کر تپتے صحراؤں میں چھوڑنے کے۔ افغانستان کے مغرب میں جمہوریت کے قاتل پرویز مشرف کو افغانستان میں جمہوریت عطا کرنے کے نام پر نوازنا بھی تسلیم۔ لیکن سوال کی حرمت کا سوال یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے ہی خود کاشتہ نہ سہی اپنے ہی پسندیدہ دوستوں جن کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں تھیں ایسے بے یار و مددگار چھوڑا کہ پنجابی ضرب المثل کی طرح معشوق سے ملاقات کے بعد رقیب کی آمد پر بھاگنے کے لیے جوتے ڈھونڈنے کی مہلت تک نہ ملی۔ کہاں ایک رات پہلے تک یہ تسلی کہ افغانستان میں کٹھ پتلی جمہوریت ہی سہی لیکن اس کی حفاظت کی ضمانتیں دی جا رہی تھیں اور کہاں وہ ائرپورٹ کی داستانیں کہ دوبارہ بیان کرتے ہوئے قلم لرز اٹھتا ہے۔

روس بھی ایسے ہی کبھی افغانستان میں ایک سپر پاور کے طور موجود تھا اس نے بھی افغانستان میں اپنی پسندیدہ حکومت کی سرپرستی کی تھی لیکن شاید مشرق کی مٹی میں کچھ فرق ہے امریکہ کے تمام تر قوت جھونکنے کے بعد بعد افغانستان کا سچ تمام پراپیگنڈہ کی دھول میں یہی ہے کہ سوویت یونین بھلے آپ کے مطابق افغانستان میں پاش پاش ہوا تھا لیکن نجیب کی حکومت تمام تر امریکی پشت پناہی کے باوجود ختم نہ کی جا سکی۔ امریکی محبت کا ایک تقابل یہ ہے کہ جب سوویت یونین افغانستان سے نکلا تو ماسکو کی سڑکوں پر بھی بھوک اور معاشی کساد بازاری کے ڈیرے تھے جبکہ امریکہ اس حالت میں افغانستان سے جا رہا ہے دنیا بھر کی دولت کا چار فیصد مزید ارتکاز امریکہ میں ہو چکا۔

لیکن نوے کی دہائی میں ہارے ہوئے سوویت یونین سے افغانستان میں اپنے دوستوں کو دو سے چھ ارب ڈالر کی امداد بھیجی جاتی رہی جس کا اگر آج کی گرانی سے تقابل کیا جائے تو شاید اس کی مالیت کئی سو ارب ڈالر پر جا پہنچے۔ یہ سوویت یونین ہی تھا جس نے کابل میں مقیم اپنے دوستوں کی حکومت کو کسی سطح پر ہزیمت سے دوچار نہ ہونے دیا ہر تین سمت سے دشمن ممالک میں گھری نجیب سرکار کو ہمیشہ باوقار معاہدوں کی میز پر بٹھایا۔

ہو سکتا ہے کسی کرم فرما کے ذہن میں یہ دلیل بھی کلبلائے کہ وہ گئے دنوں کی داستانیں ہیں جب روس نے اپنے دوستوں سے وفائیں کی تھیں تو ہم اسی دور میں پلٹ جاتے ہیں اسی دور کے اپنے محبوب مجاہدین کے ساتھ امریکی کٹھور آنکھوں کے مناظر کون بھول سکتا ہے۔

اگرچہ مضمون تو میں نے ان دو محبوباؤں کو چننے اور تقابل پر باندھا تھا لیکن ایک سوال اگر طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو یہ ہے کہ سات دہائیاں قبل اگر ہم نے عشق مہرو وفا کے وعدے سات سمندر پار کی محبت کے بجائے پڑوس میں واقع روس سے کیے ہوتے تو کیا آج کا منظرنامہ یہی ہوتا؟

اور اگر منظرنامہ مختلف ہوتا تو آج ہمارے فیصلوں کی سمت کیا ہے؟ کیونکہ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے ممالک ترقی نہیں کرتے ریجنز ترقی کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments