ماں ایک عظیم ہستی


اس کائنات کی ایک عظیم ہستی، جو کہ معاشرے میں ماں کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے اندر رب نے شفقت، محبت اور رحمت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ قلم ان اوصاف کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ کاش! جذبات کا اظہار الفاظ میں ممکن ہوتا۔ میں بھی جذبات کا اظہار کر پاتا۔ پھر بھی ایک ناکام کوشش ہی صحیح۔

ماں کی زندگی کی داستان بڑی دردناک داستان ہے۔ اس کی ابتداء ماں کی گود سے کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے کا مرحلہ ماں کے لئے سب سے زیادہ مشکل اور کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ بہرحال ماں کی گود وہ جگہ ہے جو کہ انسان کی ابتدائی تعلیم و تربیت کی پہلی آماج گاہ ہے۔ یہ وہ ہی جگہ ہے جہاں اس نے کھانا، پینا، چلنا، پھرنا سیکھا، اس میں جو مشقت ماں برداشت کرتی ہے وہ شاید دنیا میں اس کے علاوہ کسی کو اندازہ نہیں۔

یہ وہ ماں ہے جو اس بچہ کے لئے اپنا تن من دھن سب قربان قربان کر دیتی ہے، اور بچے کی پرورش کرتی ہے۔ بچہ اگر رات کو دس دفعہ بھی اٹھے تو یہ اٹھتی ہے اور اس کی ضرورت پوری کرتی ہے۔ اس کی یہ ہی بے آرامی کی کیفیت شب و روز چلتی رہتی ہے۔ ماں کی سی محنت و مشقت کی وجہ سے یہ بچہ پروان چڑھتا ہے۔

پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ اولاد جوان ہو کر اسی ماں کو اذیت دیتی پھرتی ہے اور طرح طرح کے غلیظ جملے سننے کو ملتے ہیں مثلاً ہمارے کاموں میں دخل اندازی نہ کر، تجھے پتا ہی کیا، ہمارے سر پر خواہ مخواہ کا بوجھ بنی ہو، اور یہ ہے کے ایسے غلیظ جملے سننے کے بعد بھی دعا کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تو وہ کچھ عرض کیا جو آج کے معاشرے میں عام ہو چکا۔ اس کے علاوہ ظلم کی وہ داستانیں بھی ہیں جن کو یہاں بیان نہیں کر سکتا۔ مگر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ماں کی خدمت کچھ لوگ ایسے ہیں جو بے مثال ہیں۔

ایک نوجوان اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ کسی مہنگے ہوٹل میں کھانا کھانے گیا۔ ماں باپ تو نہیں چاہتے تھے، لیکن بیٹے کی خواہش تھی کہ وہ انہیں کسی مہنگے ہوٹل میں ضرور کھانا کھلائے گا، اسی لئے اس نے اپنی پہلی تنخواہ ملنے کی خوشی میں ماں باپ جیسی عظیم ہستیوں کے ساتھ شہر کے مہنگے ہوٹل میں لنچ کرنے کا پروگرام بنایا۔

باپ کو رعشے کی بیماری تھی، اس کا جسم ہر لمحہ کپکپاہٹ میں رہتا تھا، اور ضعیفہ ماں کو دونوں آنکھوں سے کم دکھائی دیتا تھا۔ یہ شخص اپنی خستہ حالی اور بوڑھے ماں باپ کے ہمراہ جب ہوٹل میں داخل ہوا تو وہاں موجود امیر لوگوں نے سیر سے پیر تک ان تینوں کو یوں عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جیسے وہ غلطی سے وہاں آ گئے ہوں۔

کھانا کھانے کے لئے بیٹا اپنے دونوں ماں باپ کے درمیان بیٹھ گیا۔ وہ ایک نوالہ اپنی ضیعفہ ماں کے منہ میں ڈالتا اور دوسرا نوالہ بوڑھے باپ کے منہ میں، کھانے کے دوران کبھی کبھی رعشے کی بیماری کے باعث باپ کا چہرہ ہل جاتا تو روٹی اور سالن کے ذرے باپ کے چہرے اور کپڑوں پر گر جاتے۔ یہی حالت ماں کے ساتھ بھی تھی، وہ جیسے ہی ماں کے چہرے کے پاس نوالہ لے جاتا تو نظر کی کمی کے باعث وہ انجانے میں ادھر ادھر دیکھتی تو اس کے بھی منہ اور کپڑوں پر کھانے کے داغ پڑ گئے تھے۔

اردگرد بیٹھے لوگ جو پہلے ہی انہیں حقیر نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، وہ اور بھی منہ چڑانے لگے کہ، ”کھانا کھانے کی تمیز نہیں ہے اور اتنے مہنگے ہوٹل میں آ جاتے ہیں! بیٹا اپنے ماں باپ کی بیماری اور مجبوری پر آنکھوں میں آنسو چھپائے، چہرے پر مسکراہٹ سجائے، ارد گرد کے ماحول کو نظرانداز کرتے ہوئے، ایک عبادت سمجھتے ہوئے انہیں کھانا کھلاتا رہا۔

کھانے کے بعد وہ ماں باپ کو بڑی عزت و احترام سے واش بیسن کے پاس لے گیا، وہاں اپنے ہاتھوں سے ان کے چہرے صاف کیے، کپڑوں پر پڑے داغ دھوئے اور جب وہ انہیں سہارا دیتے ہوئے باہر کی جانب جانے لگا تو پیچھے سے ہوٹل کے مینجر نے آواز دی اور کہا،

”بیٹا! تم ہم سب کے لئے ایک قیمتی چیز یہاں چھوڑے جا رہے ہو!“
اس نوجوان نے حیرانی سے پلٹ کر پوچھا، ”کیا چیز؟“
مینجر اپنی عینک اتار کر آنسو پونچھتے ہوئے بولا!
”نوجوان بچوں کے لئے سبق اور بوڑھے ماں باپ کے لئے امید!“

یہ ہی وہ ماں باپ ہیں کہ اللہ نے اس کے دل میں اپنی اولاد کے لئے ایسی بے پناہ محبت رکھی ہے کہ عقل سوچ کے دھنگ رہ جاتی ہے۔ وہ ہی اولاد جس نے اس کو دھکے دے کر گھر سے دربدر کیا یہ اس کے لئے بھی رات کو اٹھ کر رب سے دعا ہی مانگتی ہے۔ اے رب میری اولاد کو سکھی رکھنا ، اے رب میری اولاد کو ہر مصیبت سے ہر پریشانی سے محفوظ رکھنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments