یہ لباس سے قابلیت پہچاننے کا فارمولہ کیا ہے


پاکستانی میڈیا میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ لگا رہتا ہے اور ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ایسی چیز سامنے آجاتی ہے جس سے ماحول بن جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک اور واقعہ نجی ٹی وی چینل میں پیش آیا کہ جب ایک انتہائی آزاد خیال اسکول آف تھاٹ کے روح رواں، ماہر تعلیم اور سائنسدان نے انتہائی عجیب و غریب بات کہی۔

ماہر تعلیم کا کہنا تھا کہ برقعہ میں موجود عورت ابنارمل ہوتی ہے اور اس کی شخصیت گھٹ سی جاتی ہے اور دوسروں کی نسبت تعلیمی سرگرمیوں میں پیش پیش نہیں ہوتی ہیں (ہم نے مفہوم میں تمام باتیں آپ کے سامنے رکھ دی ہیں ) ۔ مختصراً یہ کہ وہ کہنا چاہتے تھے کہ ”برقعہ میں عورت نارمل نہیں لگتی۔“

اسی تناظر میں ایک مشہور نجی چینل کی خاتون ٹی وی اینکر نے بھرپور میک اپ اور کھلے بال کے ساتھ پروگرام کا آغاز کیا اور پھر حجاب کے لئے آواز بلند کی اور آن کیمرہ برقعہ بھی پہن لیا۔ پردے، حجاب، برقعہ کے حق میں ہونے والا یہ احتجاج کم وبیش 10 منٹ تک جاری رہا اور پھر اشتہار آ گیا۔ اشتہار کے بعد خاتون اینکر اپنے اصل روپ میں سامنے آئی، یعنی میک اپ، کھلے بال کے ساتھ اور برقعہ بھی غائب ہو چکا تھا۔

پاکستانی معاشرہ دن با دن عجیب و غریب معاملات میں ڈھلتا جا رہا ہے، ڈوبتا جا رہا ہے۔ عدم برداشت بڑھتا جا رہا ہے اور انتہا پسندی ہر فکر میں نظر آ رہی ہے۔ انتہاپسندی کی فکر ہر طبقہ فکر میں پروان چڑھ رہی ہے۔ پہلے قدامت پسند فکر رکھنے والوں میں برداشت پائی جاتی تھی اور اب جدید فکر رکھنے والوں میں بھی عدم برداشت اور انتہا پسندی پائی جاتی ہے۔ آیا یہ جدیدیت بھی معاشرے کے لئے قاتل ثابت ہو رہی ہے۔

جہاں تک بات ہے مشہور سائنسدان اور ماہر تعلیم کے اس جملے کی کہ ”لڑکی برقعہ میں گھٹی گھٹی محسوس کرتی ہے” تو یہ بالکل غلط بات ہے ہاں البتہ جہاں زبردستی یا گن پوائنٹ پر برقعہ پہنایا جائے وہاں یہ فکر اور سوچ درست نظر آ سکتی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی کام اگر زبردستی کرایا جائے گا تو وہ انتہا پسندی کے زمرے میں آتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس برقعہ سے قابلیت میں فرق آتا ہے اور دوسری لڑکیوں کے مقابلے میں حجاب کرنے والی لڑکیاں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ یہ بات میرے نزدیک تو غلط ہے کیونکہ میں تو بہت سی ایسی خواتین کو جانتا ہوں جو باقاعدہ پردہ کرتی ہیں اور میدان عمل میں بھرپور طور پر کامیاب ہیں۔ اپنے کاروبار بھی کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ بہترین تعلیم بھی حاصل کر رہی ہیں۔

میں اس گھر کو بھی جانتا ہوں جس گھر میں ایک بہن پردہ کرتی ہے اور ایک بہن پردہ نہیں کرتی، جب کے پردہ کرنے والی لڑکی نے زیادہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ اس گھر کے تمام افراد پڑھے لکھے ہیں اور گھر کی خواتین کو اپنے خواہش کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت ہے۔ لیکن ایک ہی گھر میں دو بہنیں مختلف انداز سے زندگی جی رہی ہیں اور اپنی زندگی سے خوش ہیں، کیونکہ ان کے ماحول میں زبردستی نہیں ہے اور وہ اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار ہے ہیں۔

پردہ کرنا ہماری اسلامی روایات میں شامل ہے اور یہ اسلامی روایات ہماری ثقافت کا حصہ بھی ہے۔ شرعی پردہ کتنا ہے اور کتنا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن ہر علاقے کے اپنے ثقافتی اقدار ہوتے ہیں اور اس اقدار میں دینی اقدار بھی جھلکتے ہیں جس کی روشنی میں معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔

جس طرح پردے کے معاملے میں زور زبردستی کرنا انتہا پسندی کے زمرے میں آتا ہے اسی طرح پردے کرنے والی خواتین پر انگلی اٹھانا یا پھر ان کو ابنارمل کہنا بھی انتہا پسندی کہلائی جاتی ہے۔ یہ انتہا پسندانہ رویہ دراصل ہر اس شخص کا ہے جس کی نظر میں اس کا مشاہدہ اور اس کی فکر درست ہے باقی اس کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز جھوٹ ہے اور باطل فکر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments