گولڈن گرلز: آج ”کچھ“ مردوں کی بات کرتے ہیں


پھولوں سی خوبصورت رابعہ الرباء کو تحریم عظیم کا سلام قبول ہو۔ اس دفعہ جواب دینے میں کچھ دیر ہو گئی۔ آج کل صبح سے شام اور شام سے صبح کیسے ہوتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔

کرنے کو دسیوں کام ہیں۔ کیا کچھ بھی نہیں جاتا۔ ایک کام شروع کرو تو دوسرے کا گلٹ جان کھانے لگتا ہے۔ وہ کرو تو پہلا دہائیاں دینے لگتا ہے۔ ان کاموں کے دوران سیریز بھی دماغ میں ہل چل مچائے رکھتی ہے۔ آج سب چھوڑ کر اس کا قرض اتارنے بیٹھی ہوں۔

رابعہ، ہم نے اس سیریز میں بہت سے موضوعات پر بات کی۔ پچھلے کچھ بلاگز میں آل مین بھی ہو گیا۔ کیوں ہوا، اس پر بھی بات ہوئی۔ پھر بھی بہت سے مردوں اور عورتوں کی طرف سے کہا گیا کہ آپ ”کچھ“ مرد کہا کریں۔ سب مرد ایسے نہیں ہوتے۔

جواباً عرض ہے کہ جی بالکل سب مرد ایسے نہیں ہوتے۔ ہم خواتین نے ”کچھ“ مرد دیکھ رکھے ہیں۔ آج ہم اپنے اس بلاگ میں ان ہی ”کچھ“ مردوں کی بات کریں گے۔

یہ ”کچھ“ مرد وہ نہیں ہیں جو عورتوں پر ظلم کرتے ہیں بلکہ یہ ”کچھ“ مرد وہ ہیں جن کے ساتھ ہوتے ہوئے عورتوں کو ان کے کسی بھی لمحے کچھ غلط کرنے یا کہنے کا ڈر نہیں ہوتا۔ وہ ان کی موجودگی میں بغیر کسی خوف کے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتی ہیں۔

انہیں ڈر نہیں ہوتا کہ یہ آدمی ان کی کسی حرکت یا بات کو کسی خاص پیرائے میں دیکھیں گے اور اس سے اپنی مرضی کے مطلب نکالتے ہوئے انہیں برا محسوس کروائیں گے۔

رابعہ، آپ ایسے کتنے مردوں کو جانتی ہیں؟ میں صرف دو کو جانتی ہوں۔

بہت سے لوگ اس فہرست میں اپنے ابا، بھائی، شوہر اور دیگر رشتے داروں کو شامل کر لیں گے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ لوگ تو رشتوں سے بندھے ہوتے ہیں۔ اس کا لحاظ کرتے ہوئے (اگر کرنا چاہیں ) ان سے کچھ ایسا ویسا کہنے یا کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ وگرنہ ایسی بھی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں یہی رشتے عورت کو غیر محفوظ محسوس کرواتے ہیں۔

فرنگی چونکہ ہم سے آگے کی دنیا میں رہتے ہیں۔ انہوں نے یہ مسئلہ بہت پہلے سمجھ لیا تھا۔ انہوں نے اس موضوع پر کئی فلمیں بھی بنائیں، ڈرامے بھی بنائے، اخباروں میں مضامین بھی لکھے اور کتابیں بھی چھاپیں۔

ایسی ہی ایک کتاب دو آدمیوں ڈیوڈ سمتھ اور ڈبلیو بریڈ جاہنسن نے لکھی ہے۔ اس کتاب کا نام گڈ گائز: ہاؤ مین کین بھی گوڈ الائیز فار ویمن ان دا ورک پلیس ہے۔ اردو میں لکھوں تو اچھے آدمی: آدمی کس طرح کام کی جگہوں پر عورتوں کے ساتھی بن سکتے ہیں۔

وہ اپنی اس کتاب میں مردوں سے ایک سادہ سا سوال پوچھتے ہیں۔ کیا آپ ایک اچھے آدمی ہیں یا بس خود کو ایسا سمجھتے ہیں؟

میرا ”سب مرد نہ کہیں، کچھ مرد کہیں“ کہنے والوں کو مشورہ ہے کہ وہ خود سے یہ سوال ضرور پوچھیں۔ بہت سے مرد خود کو اچھا آدمی سمجھتے ہیں لیکن اچھا آدمی بننے کی کوشش نہیں کرتے۔ شاید ڈرتے ہیں کہ کہیں بن ہی نہ جائیں۔

کچھ مرد اچھے آدمی بننے کی بھونڈی سی کوشش کرتے ہوئے خواتین کے ان باکس میں نظر آتے ہیں۔
میں ننھا کاکا ہوں۔ مجھے بتائیں ہراسانی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔
میں جیسے ہی آپے سے نکلنا شروع کروں آپ بتا دیجئیے گا۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں چلتا۔

اصل میں ہم مردوں کو یہ سب سکھایا ہی نہیں جاتا۔ اسی لیے غلطی کر دیتے ہیں۔ میں ایسا کروں تو مجھے ٹوک دیجئیے گا۔

میں ایسے مردوں کو ہش ہش کر کے بھگا دیتی ہوں۔ ہم نے ٹیوشن سنٹر تھوڑی کھول رکھا ہے۔ کسی بھی عورت یا مرد کو ایسی کلاسز دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو انسان غلط کر رہا ہوتا ہے اسے اپنے غلط کرنے کا پتہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی اس ”کم علمی“ اور ”کم عقلی“ کو بھی خواتین کو تنگ کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔

میں جن دو مردوں کی بات کر رہی ہوں۔ وہ خواتین سے ”ہم اچھے مرد کیسے بنیں“ نہیں پوچھتے بلکہ خود سے اچھا آدمی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ خواتین سے اپنے اس اچھے پن کا فیڈ بیک بھی نہیں مانگتے۔ یہ ان کا لائف سٹائل ہے۔

وہ دونوں عورت کو گوشت کا ٹکڑا یا فحاشی کا منبع نہیں بلکہ اپنے جیسا برابر کا انسان سمجھتے ہیں۔

ان کے ساتھ ہوتے ہوئے مجھے کبھی اپنے عورت ہونے کا احساس نہیں ہوا۔ ان کی نظروں میں ہوس نہیں ہے۔ ان کے دل میں میل نہیں ہے۔ ان کے دماغ میں گند نہیں ہے۔

ان کے بھی احساسات ہیں لیکن وہ ہر ایک کو دیکھ کر نہیں جاگتے۔ جس کے لیے جاگتے ہیں اسے وہ اپنے احساسات کا بتا کر اس کے ساتھ رشتے میں بندھ جاتے ہیں۔ ”کچھ“ مردوں کی طرح آئیں بائیں شائیں نہیں کرتے۔

یہ مرد دیگر مردوں سے مختلف کیسے ہیں؟ یہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان کی تربیت بھی عام سے گھرانوں میں ہوئی ہیں۔ پھر وہ کیا چیز ہے جو انہیں سب سے منفرد بناتی ہے۔

احساس۔ اپنا احساس۔ دوسروں کا احساس۔ معاشرے کا احساس۔

وہ بھی خواتین کو دیکھ کر ٹانگیں ایک سو اسی ڈگری پر پھیلا سکتے ہیں پر نہیں پھیلاتے۔ انہیں احساس ہے کہ ایسا وہ اپنے آرام کے لیے نہیں بلکہ خواتین کو ہراسانی کا پیغام دینے کے لیے کریں گے۔ اس لیے نہیں کرتے۔

جو کرتے ہیں وہ اس احساس سے عاری ہوتے ہیں۔ احساس کی کمی ہی انہیں ”سب مرد نہ کہا کریں، کچھ مرد کہا کریں“ کہنے پر اکساتی ہے۔ ہم ان کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ یہ بھی اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں پر بے حس ہونے کی وجہ سے مانتے نہیں ہیں۔

پھولوں سی خوبصورت رابعہ کا اس بارے کیا خیال ہے؟

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم
اس سیریز کے دیگر حصےوہ سیکس ڈول تھی، وہ تو کال گرل تھیچند اچھے مردوں کی صفات، جو ان کو منفرد بناتی ہیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم

گولڈن گرلز کے عنوان کے تحت رابعہ الربا اور تحریم عظیم بتا رہی ہیں کہ ایک عورت اصل میں کیا چاہتی ہے، مرد اسے کیا سمجھتا ہے، معاشرہ اس کی راہ میں کیسے رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے اور وہ عورت کیسے ان مصائب کا سامنا کر کے سونا بنتی ہے۔ ایسا سونا جس کی پہچان صرف سنار کو ہوتی ہے۔

golden-girls has 28 posts and counting.See all posts by golden-girls

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments