پنجگور میں گرلز لائبریری کا خواب کیسے پورا ہوا؟


گزشتہ سال جب پنجگور جانا ہوا تو وہاں تربت یونیورسٹی کا کیمپس نیا نیا کھل گیا تھا۔ ہمارے ساتھی منیر نوشیروانی نے فخریہ کہا تھا کہ کیمپس میں داخلہ لینا والا پہلا طالبعلم اس کا بھتیجا عدنان قرار پایا ہے۔ گزشتہ روز عطا مہر نے ہمیں بتایا کہ تعداد چھ سو تک پہنچ گئی ہے یہ سننا تھا خوشی کے تاثرات دل سے ہوتے ہوئے چہرے پر عیاں ہو گئے۔

عطا مہر اس وقت یونیورسٹی کیمپس میں بطور فوکل پرسن ذمہ داریاں نبھا رہے تھے اب اسٹوڈنٹس افیئر کو دیکھ رہے ہیں۔ عطا مہر کے دعوت پر ہی ہم بونستان پبلک لائبریری گئے۔ بونستان لائبریری میں لڑکوں کی تعداد دیکھ کر میرے زبان پر سوال آیا کہ لڑکیوں کے مطالعے کے لیے کیا گنجائش رکھی ہے؟ اس کا جواب نہ میں آیا۔ ”نہ“ کی بہت ساری وجوہات ہیں جن کے شکنجے میں پنجگور ایک زمانے سے جکڑا نظر آتا ہے۔ ایک طرف سماجی قدغنیں تو دوسری جانب مذہبی کلچر۔ جس کی آبیاری ہر گلی اور کوچے میں کی گئی ہے۔

دو روز قبل ملنے والی خبر نے اس تاثر کو زائل کیا جو قیام پنجگور کے بعد آسیب کی طرح پیچھا کر رہا تھا۔ خبر یہ تھی کہ پنجگور کی تاریخ میں لڑکیوں کی پہلی لائبریری کا افتتاح ہو گیا ہے۔ تصویر میں لڑکیاں لائبریری کے اندر بیٹھی مطالعے میں مصروف ہیں۔ تصویر نے ایک سحر میں مبتلا کیا۔ آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ فون کیا خبر کی تصدیق ہوئی۔ تب یقین آیا۔

یہ لائبریری گرلز ڈگری کالج خدابادان کے احاطے میں واقع ہے۔ لڑکیوں کے لیے جداگانہ پبلک لائبریری کا اہتمام قطعاً نہیں ہوتا جب تک اس میں فرزانہ ہاشم کی سوچ و فکر کا عمل کارفرما نہیں ہوتی۔

پروفیسر فرزانہ نے بطور پرنسپل کالج 2015 میں جوائن کیا۔ کئی سال تک یہ خیال اس کے ذہن میں گردش کرتی رہی کہ کالج کے احاطے میں لڑکیوں کے لیے لائبریری کا سیٹ اپ قائم ہو۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ بلوچستان نور محمد مسکانزئی 2017 میں جب پنجگور آئے۔ انہوں نے گرلز کالج کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران فرزانہ نے کالج لائبریری کے لیے فنڈز کی استدعا کی لائبریری کے لیے ایک کروڑ روپے کا بجٹ منظور ہوا۔ فرزانہ کے بقول لائبریری بلڈنگ کی تکمیل اور خواب کو پورا کرنے مین سابقہ سیکرٹری خزانہ نورالحق بلوچ کی خصوصی دلچسپی اور کوششوں کا عمل دخل بھی شامل تھا۔ ”کالج کی سابقہ ادھورا بلڈنگ کو فنڈز سے مکمل کیا گیا

لائبریری کی تزئین و آرائش، فرنیچرز اور کتابوں کی فراہمی ڈپٹی کمشنر پنجگور رزاق ساسولی کی جانب سے عمل میں آئی۔ تاہم فرزانہ فراہم کی جانے والی کتابوں کی تعداد سے مطمئن نہیں ان کا کہنا ہے کہ کتابوں کی جو فہرست انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو ارسال کیا تھا آدھے سے زیادہ مسنگ ہیں۔

لائبریری کے اندر بیک وقت 50 لڑکیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ جس میں ریڈنگ ہال، ڈسکشن روم، ایڈمن آفس اور کینٹین کی سہولت موجود ہے۔ فرزانہ کو اس کا خیال کیسے آیا؟ اس پر وہ کہتی ہیں کہ جب ماسٹر کرنے کوئٹہ گئیں تو وہاں لائبریریوں کا سیٹ اپ دیکھا اس کے بعد سندھ میں دوران ایم فل اور پی ایچ ڈی وہاں کی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لائبریری سیٹ اپ دیکھے تو ذہن میں خیال ابھرا کہ یہ سب کچھ پنجگور میں کیوں نہیں ہو سکتا جہاں کی لڑکیاں حصول مطالعہ اور امتحانات کی تیاری کے لیے کوئٹہ یا کراچی کا رخ کر کے تعلیم پر خطیر رقم خرچ کرتی ہیں۔ خیال اور سوال نے لائبریری سیٹ اپ کے لیے آمادہ کیا۔

پہلا کام انہوں نے معمار سکول سے ملحقہ پبلک لائبریری کو آباد کر کے کیا۔ ”پہلا قدم ہم نے اپنے گھر سے اٹھایا کہ اپنے بچوں کو وہاں مطالعے کا عادی بنایا اب روایت نکلی ہے دیگر گھروں سے بھی بچے حمیدیہ پبلک لائبریری آتی ہیں۔“

کالج کو گزشتہ سال ڈگری کا درجہ ملا۔ اس وقت وہاں 180 طالبات زیر تعلیم ہیں۔ جن کے لیے صبح کے اوقات لائبریری کا سیشن رکھا جاتا ہے۔ ”لائبریری کو دو وقت چلانا فی الحال اس لیے مشکل ہے کہ اسے چلانے کے لیے لائبریرین موجود نہیں چند ماہ قبل ایک لائبریرین کے آرڈرز کیے گئے مگر کالج کے اندر لائبریرین کی کوئی پوسٹ تخلیق نہ کرنے کے سبب اس کا تبادلہ دوسرے کالج میں کر دیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر پنجگور نے لائبریرین کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے جونہی ان کا وعدہ وفا ہو گا لائبریری کو دو وقت پر چلائیں گے۔“ یہ الفاظ تھے فرزانہ ہاشم کے۔ ان کی خواہش ہے کہ یہ ڈیجیٹل لائبریری میں تبدیل ہو۔

موجودہ سال جب ہم نے جاہو میں گرلز لائبریری مہم کا آغاز گورنمنٹ گرلز سکول علی محمد گوٹھ سے کیا تو ہمیں دیگر احباب کے ساتھ ساتھ ادارہ تعلیم و آگاہی کی طرف سے خوبصورت کہانیوں کے پانچ سیٹ کتابیں موصول ہوئی تھیں۔ محترمہ بیلا رضا جمیل صاحبہ نے گرلز لائبریری پنجگور کا نام سنتے ہی پیغام لائبریری کے لیے کتابیں بھیجنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

پنجگور میں اس وقت 14 کے قریب پبلک لائبریریز ہیں۔ جن میں فقط چھ لائبریریز رن کر رہی ہیں۔ یہ فعال لائبریریز وہ ہیں جنہیں کمیونٹی کی سرپرستی حاصل ہے۔ گرلز لائبریری ان میں خوشگوار ہوا کو جھونکا ہے۔ دوران گفتگو فرزانہ کے خیالات اور اقدامات نے امید کے چراغ روشن کیے کہ اتنا سب کچھ کرنے میں اس کی کمٹمنٹ اور خواب کا عمل دخل شامل ہے۔ دل سے دعا گو ہیں کہ لڑکیوں کی لائبریری کا یہ سلسلہ بلوچستان کے گوشے گوشے پہنچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments