تقسیم کی دلہنیں اور گھر کے مجرم چراغ


تقسیم کا وقت جیسے ایک موقع تھا جس کو ہندوستان کے بہت سے مردوں نے گنوانے نہیں دیا۔ جہاں سکھ اور ہندو مسلمان لڑکیوں کو جبر جنسی کا نشانہ بناتے رہے، وہیں مسلمانوں نے بھی ہندو اور سکھ لڑکیوں کو معاف نہیں کیا، مختصراً، عورت کو معاف نہیں کیا۔

مختلف مذہبی تشخص رکھنے والے مردوں نے انہی مختلف یعنی مخالف مذہبی تشخص رکھنے والی لڑکیوں کو ایک ہی طریقے سے جنسی جبر کا نشانہ بنایا۔ جس میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں برتا گیا۔ یہ بھی تعجب کی بات ہے کہ نظریات، عقائد، خیالات مختلف ہوا کرتے ہیں مگر انسانوں کو تکلیف دینے کے انداز ایک سے ہوا کرتے ہیں۔ بالکل جیسے ان تمام عورتوں کو ایک طریقے سے سزا دی گئی جو تقسیم کی دلہنیں بنی۔ میرے نزدیک دلہن کسی سجی سنوری، شرماتی، خوشی سے سرشار انسان کم اور بہت سے جذباتی اور معاشرتی بوجھ اٹھاتی انسان زیادہ ہے۔ اس لئے تقسیم کی دلہنیں جو دلہنیں تو نہ بنی مگر تقسیم میں روا رکھے جانے والے پدرسری کے انتقام کی اذیتوں سے سرشار رہیں۔

اس خطے کے انسانوں میں نفرت ایسے بہترین انداز سے پڑھائی اور سکھائی گئی ہے کہ ایک دوجے کی نس انسانیت یعنی humamization تسلیم کرنا پیچیدہ عمل ہے۔ ایسے ہی یہاں اس بات کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ قیام کے وقت مسلمانوں نے بھی ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی۔ اس کی وجہ بھی سادہ سی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت موجود ہر مسلمان شخص کا نہایت روحانی تشخص پیش کیا جاتا ہے۔

ہم چونکہ پاکستانی ہیں تو مسلمان مردوں کی دیو مالائی تصویر کھینچ کر دکھائی گئی حالانکہ ان میں اور ان میں اس لئے کوئی فرق نہیں تھا جن کے لئے دوسرے مذہب کی عورت گرم گوشت کا چلتا پھرتا پرزہ تھا۔ مخالفین پر طاقت کا برملا اظہار یہ بھی رہا کہ عورتوں کو جو کہ قوم اور مذہب کی عزت کا بوجھ اٹھاتی آئی ہیں ایک بار پھر اس بوجھ تلے دبایا جائے۔

اکثر دوستوں اور دفتری رفقاء کے ساتھ بیٹھ کر تقسیم کے واقعات پر باتیں ہوں تو معلوم ہوتا کہ کیسے کسی کی نانی سکھ تھی جس کے خاندان والے ہندوستان جا آباد ہوئے اور وہ اکیلی رہ گئی۔ ایسے ہی کسی کی دادی کا خاندان ہندو ہوا کرتا تھا مگر دادی ہندوستان جانے کی بجائے یہیں رہ گئی جبکہ اس کا سارا میکہ ہندوستان میں جا بسا۔ بزرگوں کی بہادری کے قصے سناتے سناتے سامعین کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کیسے سکھوں اور ہندوؤں کے گھر لوٹے گئے اور ان کی زمینوں کو آباد کیا گیا۔

یہ کہانیاں دونوں جانب ہی ایک سی ہیں۔ مگر جنگ میں عورت کو جو ہتھیار بنایا جاتا ہے اور جاتا رہا ہے اس پر گفتگو نہ ہونا بہت سوں کو تاریخ اور حال میں پشیمان کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ اس کی نانی یا دادی کو تقسیم کے وقت اغواء کیا گیا یا جبری مذہب کی تبدیلی ہوئی۔ نہ ہندوستان میں یہ بحث ہے نہ پاکستان میں، جبھی دونوں ممالک کے بگڑے اور پست معاشروں کا عکس بھی ایک سا ہی ہے۔

اگر اس پر بحث کی ابتداء بھی ہو تو کون اس کو منطقی انجام تک پہنچا کر کسی مغوی کو انصاف دلائے کیونکہ اب تو ستر برس بیت چکے، تقسیم کی بد بخت دلہنیں تو اس جہاں سے بھی رخصت ہو چکی ہوں گی۔

کچھ عرصہ قبل، ہندوستان میں مقیم ایک سکھ دوست سے ایک موضوع پر بات ہوئی تو ان سے پتا چلا کہ ان کی نانی کا تعلق ایک مسلمان گھرانے سے تھا، جن کے والد پاکستان کی سول سروسز میں افسر تھے۔ تقسیم کے وقت وہ تو لاہور میں تھے، مگر ان کی بیٹی ہندوستان رہ گئی جبکہ سارا خاندان لاہور ہجرت کر گیا۔ عین تقسیم کے دنوں میں اکیلی گاؤں ”رہ“ جانے والی لڑکی ایک سکھ خاندان کی دلہن ”بن“ گئی۔ بعد ازاں جب گمشدہ خواتین کو بازیاب کرانے کے لئے پولیس ان کے گھر تک پہنچی تو تقسیم کی اس ”دلہن“ نے جانے سے انکار کر دیا۔ یہ بات بتلاتے وہ بھی شرمندہ تھے اور میں نے بھی مزید سوال نہ کیا۔

اسی طرح ایک روز ایک دوست نے باتوں باتوں میں اپنی سکھ خاندان سے تعلق رکھنے والی نانی کا ذکر کیا، جن کے گھر والے ہجرت کر کے امرتسر کے مضافاتی گاؤں میں آباد ہیں مگر حیرت کے طور پر دوران تقسیم اس سکھ خاندان کی لڑکی اپنے گاؤں ”رہ“ گئی جبکہ خاندان ہندوستان جا چکا تھا۔ ان ہی دنوں وہ سکھ لڑکی مسلمان بھی ہوئی جیسے چڑھتے پنجاب سے تعلق رکھنے والی مسلمان لڑکی نے اسلام کو خیر آباد کہا اور نئے مذہب کو قبول کیا۔

ان دونوں دل سوز واقعات میں بھی پدر سر نظام کا عورت کے خلاف تشدد اور امتیاز تو واضح ہے، جہاں عورت کی کل تعریف اس کا جسم ہے، جو پہلے مرد کے تقسیم کے جلال اور انتقام کا نشانہ بنا، جہاں عورت جنگ کا لوٹا ہوا مال کہلایا جس پر اتنی اجارہ داری ہے کہ اس کے دل میں بسے عقیدے تک کو مٹا دیا جاتا ہے۔ کبھی اس کا ایمان مٹایا جاتا ہے، کبھی اس کی اس کی زندگی پر گرفت، چاہے وطن کی تقسیم ہو یا کوئی خالصتاً گھریلو معاملہ، عورت کی رضا کو ہمیشہ مٹتے ہی پایا۔

کم ذات سمجھے جانے والی عورت کا جوٹھا نہ کھانے والے اس کے ساتھ جنسی تعلق ضرور قائم کرنا چاہتے ہیں۔ نسل در نسل خادمہ پیدا کی جانے والی عورت سے نکاح کرنا تو نازیبا ٹھہرتا تھا مگر اس کے ساتھ خلوت کو حق سمجھا جاتا رہا ہے۔ ایک کم عمر ہندو لڑکی کو اغواء کر کے جنسی تشدد کرنا تو معمول کی بات ہوگی مگر اس سے تب تک ”نکاح“ نہیں کیا جاتا جب تک وہ اغواء کاروں کے ایمان پر زبانی کلامی ایمان نہ لائے۔ جب خدا کی طے کردہ حد جنسی جبر کے روا رکھتے وقت عبور کر ہی لی تو خدا کے سامنے جبری نکاح کے کاغذ رکھنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں، جہاں عدل اور منطق مضحکہ خیز نکتے ہیں، وہاں وہی سچ ہے جو متشدد جھنڈ کی رائے میں اصلی اور کامل ہے۔

گزشتہ برس، کرتار پور راہداری کھلنے کے بعد کچھ ایسی ہی کہانیاں سامنے آئیں۔ ان میں تقسیم کے وقت اپنے مقامی گاؤں رہ جانے والی لڑکیوں کی آب بیتی یکساں تھی۔ ستر برس بعد کچھ ضعیف مسلمان بیٹیاں اپنے ضعیف سکھ ماں باپ سے ملی۔ کسی نے یوٹیوب کے ذریعے اپنی دادی کو اس کے ہندوستان میں بسے ہندو خاندان سے ملایا۔

تقسیم کے بعد دونوں ممالک میں گمشدہ لڑکیوں کو بازیاب کرانے کے معاہدے کے تحت نو برس میں بائیس ہزار مسلمان اور آٹھ ہزار ہندو اور سکھ خواتین کو بازیاب کرایا گیا تھا۔ یہ اعداد دکھنے میں کثیر مگر شاید حقیقت میں قلیل ہوں۔ ایسے بھی معاملات ہوئے جب دونوں ملکوں میں ان بازیاب شدہ خواتین کو ”ناپاک“ کہہ کر گھر والوں نے رد کیا کیونکہ عورت کی کل میراث اس کا زندہ وجود نہیں مرد کا طے کردہ قاعدہ ہے جس کے سبق میں اس کی حرمت مرد کے جرم کے مطابق طے پاتی ہے۔ جن عورتوں کو قبول کیا ان کی روداد بھی خاصی دل گرفتہ ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں عورت کا مجموعی طور جو مقام ہے، وہ پنہاں نہیں۔ جنسی تشدد کی متاثرہ عورت کو نظام اور سماج ایک ہی بوسیدہ عینک سے دیکھتا ہے، وہیں اسی عینک سے اس کے اپنے بھی دیکھتے ہیں۔

آج کی مثال لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنسی جبر کی شکار عورت خواہ وہ کم عمر ہو یا بالغ کے ساتھ کیا برتاؤ اختیار کیا جاتا ہے، اس کے خلاف ہونے والے جرم کو اس کا ہی جرم بتلایا جاتا ہے۔ معاشرے میں جابجا تشدد کے حامی اور عورت سے فطرتی نفرت کرنے والوں کی کبھی کمی نہیں ہوتی۔ ہم اس بات سے منکر ہیں کہ تقسیم کے وقت یا سقوط ڈھاکے میں عورت کے ساتھ ویسا برتاؤ نہیں کیا گیا جیسا یہاں روز دیکھنے، سننے اور سہنے کو ملتا ہے۔ ہم انکار تب کریں جب یہاں جنسی تشدد، اس کی دلیل، معذرت، اور حمایت دیکھنے کو نہ ملے۔

تقسیم کے وقت جن ہزاروں عورتوں کی جنسی قربانی کا چڑھاوا دیا گیا، اس کا تعلق ہندوستان یا پاکستان کے قیام سے کہیں کم، عورت کی پدرسری نظام میں نہ سمجھے جانی والی وقعت میں کہیں زیادہ ہے۔ مختلف اور مخالف مذاہب کے پیروکاروں کا ایک ہی نظر سے عورت کو دیکھنا اور اس کی حیثیت کو پرکھنا ثابت کرتا ہے کہ کوئی بھی مذہب، نظریہ، یا نظام پدرشاہی کو شکست دینے میں ناکام رہا ہے۔

جنسی تشدد گلیوں اور چوراہوں پر کم، گھروں کی چار دیواریوں میں زیادہ ہوتا ہے جو تب بھی تھا اور آج بھی ہے۔ عورت کا تشخص اور پہچان آج بھی داؤ پر لگی ہے، اس کی وقعت آج بھی کم ہے، اور وہ آج بھی جبر کی سب سے بڑی متاثرہ ہے جبکہ آج تقسیم ہو رہی ہے، فساد پھوٹے ہیں نہ عورت نوچنے والا کوئی مخالف گروہ کا بلوائی ہے، وہ اس کا اپنا سگا ہے، اسی ملک کا شہری، اور اس کا ہم ایمان ہے جو تشدد کرتا ہے اور الزام مظلوم پر عائد کر کے توقیر پاتا ہے۔

گھر کو گھر کے چراغوں سے آگ لگی ہے اور گھر کے چشم خاموش ہیں اور چراغوں کی لو کے ہاتھ لمبے اور ناپاک ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments