دوسرا ووٹ میرا نہیں تھا


کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ہو گئے۔ بیالیس کنٹونمنٹ کی دو سو چھ نشستوں کے لئے اکیس لاکھ ستانوے ہزار چار سو چوالیس ووٹر کا اندراج تھا جن میں خواتین کی تعداد دس لاکھ تینتالیس ہزار ایک سو نوے تھی تقریباً اتنی ہی جتنے مرد تھے۔ ہر الیکشن پر ہمارے ذہن میں ایک ہی سوال اٹھتا ہے۔ کیا الیکشن کے نتائج واقعی ووٹرز کی ذاتی رائے ہوتی ہے یا یہ محض ہندسے ہوتے ہیں جن کے حصول میں اہلیت سے زیادہ سیاسی فنکاری کا عمل دخل ہوتا ہے۔

کیا خواتین آزاد اور خود مختار ہوتی ہیں کہ جسے چاہیں منتخب کریں یا پھر ان کے گھر کے مرد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ بیلٹ پیپر پر کہاں مہر لگائیں۔ ان سوالوں کے جواب ہمارے معاشرے میں ووٹر کی حیثیت اور ووٹ کی عزت کا تعین کرتے ہیں۔ اگلی سطروں میں ہم اپنے کالج کے الیکشن کا واقعہ ہلکے پھلکے انداز میں بیان کرنے جا رہے ہیں اس چھوٹے سے چناؤ کی کہانی میں آپ کو انہی معاشرتی رویوں کی جھلک دکھائی دے گی جو عام انتخابات میں کارپرداز ہوتی ہے۔

اس دور میں کالج یونین پر پابندی تھی طلبہ تنظیمیں کالعدم تھیں گو حقیقتاً وجود رکھتی تھیں اور باہمی جھڑپیں اس کا مظہر تھیں۔ غیر نصابی سرگرمیاں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔ طلبہ کے مسائل اور غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے تین ممبران پر مشتمل ایکشن کمیٹی کا خیال پیش کیا گیا اور ان ممبران کے انتخاب کے لئے امیدواران میدان میں اترے۔ الیکشن کی گہما گہمی شروع ہو گئی پمفلٹ تقسیم کیے جانے لگے امیدواران اور ان کے گماشتے نومیدہ عوام کو خواب دکھانے لگے۔

پچھلی سے پچھلی بینچوں پر بیٹھنے والے بھی خوب اہمیت اختیار کر گئے۔ ہم نے جن تین امیدواروں کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا وہ تین مختلف جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انتخاب کرتے وقت جن خواص کو ملحوظ خاطر رکھا تھا ان میں امیدوار کا شریف النفس، نڈر، ثابت قدم اور اخلاقی طور پر اتم بالخصوص خواتین کی جانب ان کا طرز تکلم، برتاؤ اور انداز فکر مثبت اور ترقی پسند ہونا لازمی تھا۔ ضروری تو نہیں تھا یہ خوبیاں ایک ہی جماعت کے تینوں امیدواروں میں موجود ہوں لہذا ہمارا انتخاب سہ رنگا تھا۔ پی ایس ایف کے اعوان، جے ایس ایف کے ابڑو اور ڈی ایس ایف کے ببر۔ ہمارے ایک سیاسی بزرجمہر نے اس انتخاب کو رد کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ ایک ہی جماعت کے تینوں ممبران چنے جائیں۔

ہم نے پوچھا ”کیا یہ جماعتی انتخابات ہیں یا اس انتخاب کا سیاسی نصب العین ہے؟“

ایسا تو نہیں ہے لیکن۔ انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ اس ادھوری بات میں چھپا رمز ہم سمجھ گئے کہ یہ انتخابات اسی طرح غیر جماعتی اور غیر سیاسی ہیں جیسے اسلامی بنکوں کی بلا سود بنکاری۔

ہمارے دوست، بھائی، محلے دار، عباسی (وہ پڑوسی لفظ پر معترض ہوتے تھے کیونکہ ہمارا گھر ان کے گھر سے ملا ہوا نہیں تھا اس لئے محلے دار کا وسیع الرقبہ لاحقہ استعمال کیا گیا ہے ) کا کہنا تھا کہ اعوان اور ابڑو کا انتخاب تو مناسب ہے لیکن ڈی ایس ایف جیسی تانگہ پارٹی کے امیدوار ببر کا انتخاب بے تکا ہے تانگہ پارٹی کے لقب سے یہ استہزا مقصود ہوتا تھا کہ اس جماعت کے کل کارکن ایک تانگے میں سما سکتے ہیں۔

ہم نے کہا ”انتخاب امیدوار کی ذاتی خصوصیات کی بنیاد پر ہے جماعتی وابستگی پر نہیں۔“
”میں چاہتا ہوں آپ ببر کے بجائے شیخ کو ووٹ دیں“ عباسی نے اپنا پن جتاتے ہوئے کہا

شیخ، آزاد امیدوار تھا اس کا کسی جماعت سے تعلق نہیں تھا لیکن اسے خواتین کے لئے نا مناسب خیالات کا اظہار کرتے سنا تھا اور ہم اسے ووٹ دینے کے حق میں نہیں تھے۔ ہمارے دو ٹوک جواب پر عباسی نے کہا ”ببر کی قسمت میں شکست کے سوا کچھ نہیں اور ہم اپنا قیمتی ووٹ ضائع کریں گے۔“ عباسی کے اس فقرے نے جیسے مہمیز کر دیا۔ ہم ببر کی انتخابی مہم کے لئے متحرک ہو گئے۔ اس کے لئے پوسٹر بنا کر گرلز ہاسٹل کی بیرونی دیوار پر چسپاں کیے۔

گرلز ہاسٹل کی بیرونی دیوار کسی بل بورڈ سے کم نہیں تھی۔ نہ صرف یہ کہ کالج کے لڑکے گرلز ہاسٹل کے سامنے والے لان میں شامیں گزارتے تھے بلکہ شہر جانے کے لئے ہر پیادہ، کار اور بس کو گرلز ہاسٹل والی سڑک سے ہی گزرنا پڑتا تھا۔ اس مہم خیزی پر ببر نے تو ہم سے رابطہ نہیں کیا البتہ لوگوں نے چہ مگوئیاں ضرور شروع کر دیں۔ عباسی نے تو لگی لپٹی رکھے بغیر پھٹ سے کہہ دیا

”کیا آپ کو ببر سے عشق ہو گیا ہے“ ؟

کیوں کسی اچھے کو اچھا کہنے کے لئے عشق ہونا ضروری ہے کیا؟ ہمارے آتشیں انداز کو دیکھ کر عباسی کو ہاتھ جوڑتے ہی بنی۔

پولنگ کے روز گرلز ہاسٹل سے نکل کر آڈیٹوریم میں قائم پولنگ اسٹیشن کی جانب جا رہے تھے کہ سبزہ زار کو کاٹتی روش پر عین اس مقام پر عباسی نے روک لیا جہاں پچھلی شجرکاری مہم میں ہمارا لگایا ہوا بید مشک کا پودا سر اٹھائے کھڑا تھا۔

”تیسرا ووٹ آپ کو ببر کی بجائے شیخ کو دینا ہے، بس“ ۔ عباسی کا لہجہ اپنائیت اور تحکم دونوں کی لو دے رہا تھا۔

”کیوں“
”کیونکہ میں کہہ رہا ہوں اور میں آپ کا دوست ہوں بھائی ہوں“

”تم مرد حضرات یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ووٹ کا حق خواتین کو اس لئے نہیں دیا گیا کہ وہ متعلقہ مردوں کی پسند کے امیدوار کے ووٹوں کی گنتی بڑھائیں بلکہ یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہونا چاہیے“

دو ٹوک جواب سن کر عباسی نے پینترا بدلا ”دیکھیں شیخ کے منتخب ہونے سے ہمیں کئی فائدے حاصل ہوسکتے ہیں“
”ذاتی فائدے کے لئے ایسے شخص کو چن لیا جائے جس کی شخصیت اور فکر سے اتفاق نہیں“ ،

دیکھیں دوستوں میں بات بے بات ہو جاتی ہے ورنہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں وہ ایسا نہیں ہے۔ اگر ببر کی جیت یقینی ہوتی تو میں آپ کو مجبور نہ کرتا لیکن اس کا جیتنا ممکن نہیں۔ آپ کا ووٹ ضائع ہونے کی بجائے ہمارے کام جائے تو اچھا ہے ”

”ٹھیک ہے“ ہم نے بالآخر ہتھیار ڈال دیے
”وعدہ کریں“ اس نے بچوں کی طرح ضد کی

”تم سے وعدہ کر کے اور اندر جاکر میں شیخ کو ووٹ نہ ڈالوں تو تمہیں کیا پتہ چلے گا“
”تبھی تو وعدہ لے رہا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے آپ پابندی عہد کرتی ہیں“
اور ”وعدہ“ کہنے تک وہ سد راہ بنا رہا۔

شیخ کو ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد ہم کاریڈور میں جانے کیوں ساکت کھڑے تھے کہ عباسی شتابی ہماری طرف آیا اور شرارت سے بولا ”آپ اپنے دل پر پتھر نہ رکھیں اور ببر کو ہی ووٹ دے دیں“ ہماری خشمگیں نگاہیں دیکھ کر اس نے ہنس کر کہا ”شیخ کے جیتنے کے آثار نہیں پھر آپ کو کیوں مجبور کیا جائے۔“

”عباسی کے بچے، شیخ کو ووٹ کاسٹ ہو چکا ہے“ اور عباسی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گیا۔ ہم سوچ رہے تھے پولنگ ختم ہونے سے پہلے اسے کیسے پتہ چلا کہ شیخ ہار رہا ہے۔

عباسی کی پشین گوئی صحیح ثابت ہوئی۔ شیخ ہار گیا تھا اور ببر بھی۔ ببر کو صرف تین ووٹ ملے تھے جیت، اعوان، ابڑو اور بروہی کی ہوئی تھی لیکن خدا گواہ ہے بروہی نے ہمارے ساتھ کبھی وہ سلوک نہیں کیا جو عام انتخابات کے بعد ووٹ نہ دینے والے حلقوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

دوسرے دن ہم اپنی سہیلیوں کے ساتھ کالج کی کینٹین میں بیٹھے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے گپ شپ لگا رہے تھے۔ گرم پیسٹری اور کڑک چائے کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی اور ویٹر، مشاق کرتب باز کی مانند دونوں ہتھیلیوں پر چائے کے کپ سے بھری ٹرے ٹکائے میزوں کے درمیاں دوڑ رہے تھے۔ تب ببر ہماری میز کی طرف آیا اور سلام کر کے عین ہمارے مقابل کرسی پر بیٹھ گیا۔

”میں آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ اپ نے مجھ پر اعتماد کیا میرے لئے محنت کی۔“

اس نے اپنی دونوں کہنیاں میز پر ٹکائیں اور دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت اور انگوٹھے سے اپنی ٹھوڑی کو اوپر اٹھایا اور خلاؤں میں دیکھتے ہوئے اپنے مخصوص دھیمے ہجے میں بولا

”ایک ووٹ میرا تھا، دوسرا آپ کا۔ تیسرا ووٹ مجھے کس نے دیا ہو گا؟“

اس کا یہ جملہ ہماری منافقت پر زناٹے دار طمانچہ تھا جس کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے۔ ببر اب تانگہ پارٹی کے بجائے قومی دھارے کی پارٹی کا سرگرم رکن ہے اخبار میں اس کی مصروفیات پڑھ کر ملنے کو جی چاہا مگر ندامت آڑے آتی ہے اس تحریر کے ذریعے میں اپنی معذرت ببر تک پہنچانا چاہتی ہوں اسے بتانا چاہتی ہوں کہ دوسرا ووٹ میرا نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments