کیپٹل ہل حملہ: گرفتار افراد کے حق میں ریلی، پولیس اور صحافی مظاہرین سے زیادہ


کیپٹل ہل کے سامنے پولیس حفاظت پر معمور (فوٹو رائٹرز)
ویب ڈیسک — امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں رواں سال چھ جنوری کو کانگرس کی عمارت پر حملے اور ہنگامہ آرائی کے بعد گرفتار کیے جانے والے افراد کے حق میں ایک ریلی نکالی گئی۔ لیکن ریلی کے مقام پر مظاہرین کے مقابلے میں سیکیورٹی پر مامور پولیس اہل کار اور کوریج کے لیے آئے صحافی زیادہ تعداد میں نظر آئے۔

ہفتے کو ‘کیپٹل ہل’ پر ہونے والے اس مظاہرے کے دوران پولیس ہائی الرٹ رہی۔ اس موقع پر سیکیورٹی انتظامات کے تحت سیکٹروں اضافی سیکیورٹی اہل کاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ کیپٹل ہل کے اردگرد رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں اور رکاوٹوں کی مدد سے ریلی کے مقام کو کیپٹل ہل کے اطراف کی گلیوں سے الگ رکھا گیا تھا۔

اس کے علاوہ کئی مقامات پر “نو گن زون” کے پوسٹر چسپاں کیے گئے تھے جن کے ذریعہ لوگوں کو واشنگٹن کے ان قوانین سے آگاہ کیا گیا تھا جو کھلے عام اسلحہ رکھنے کی ممانعت کرتے ہیں۔

ریلی کا نام “جسٹس فار جے سکس” رکھا گیا تھا اور یہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان گرفتار حامیوں کے حق میں تھی جنہوں نے موجودہ صدر جو بائیڈن کی 2020 کے الیکشن میں کامیابی کے کانگریس کے توثیقی عمل کو روکنے کی خاطر کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا۔

کیپٹل پولیس نے ریلی کے انعقاد سے پہلے کہا تھا کہ محکمہ انٹرنیٹ پر ممکنہ طور پر تشدد پر اُکسانے سے متعلق خدشات سے آگاہ تھا اور اسی لیے سیکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے گئے تھے۔

سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر کیپٹل ہل کے قریب ڈی سی نیشنل گارڈز کے ایک سو ممبرز کو بھی الرٹ کر دیا گیا تھا۔

یو ایس کیپٹل پولیس کے اندازے کے مطابق مظاہرے میں چار سے ساڑھے چار سو افراد موجود تھے۔ اس موقع پر کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ ایک شخص کے پاس چاقو پایا گیا جبکہ دوسرے کے پاس ایک ہینڈ گن تھی۔

پولیس نے ایک ٹوئٹ کیا کہ دو افراد کو ریاست ٹیکساس سے جاری ہوئے وارنٹس کے تحت گرفتار کیا گیا۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ نے ایک رپورٹ میں کہا کہ ریلی میں شامل مظاہرین اور ان کے مخالف مظاہرین کے درمیان نعرہ بازی اور جھگڑے بھی ہوئے۔

یو ایس کیپٹل پولیس کے چیف ٹام مینگر کا کہنا تھا کہ اُنہیں خدشہ تھا کہ مظاہرین اور محض ایک کلو میٹر کے فاصلے پر موجود اُن کے مخالفین کے درمیان ٹکراؤ نہ ہو جائے۔

ان کے مطابق ایسی صورتِ حال تشدد کی شکل اختیار کر سکتی تھی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مخالف مظاہرین میں تین گروپ شامل تھے جن میں دو گروپ عموماً پرامن رہتے ہیں جب کہ تیسرے گروپ کے ماضی میں کچھ جھگڑے بھی ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ مظاہرے کے دوران کانگرس کا اجلاس نہیں ہو رہا تھا اور صدر جو بائیڈن بھی ہفتے کے اختتام پر اپنی آبائی ریاست ڈیلاویئر میں موجود تھے۔

واشنگٹن ڈی سی کے ہوم لینڈ سیکیورٹی اور ایمرجنسی ایجنسی کے چیف کرسٹوفر راڈریگیز نے مظاہرے کے متعلق کہا تھا کہ واشنگٹن میں نفرت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ “ہم ان لوگوں کی نفرت، تشدد اور مجرمانہ حرکات کو برداشت نہیں کرتے جو چھ جنوری کو بغاوت کے مرتکب ہوئے۔”

مظاہرین کیپٹل ہل کے قریب جمع ہیں۔
مظاہرین کیپٹل ہل کے قریب جمع ہیں۔

خیال رہے کہ اس سال کے آغاز میں چھ جنوری کو سابق صدر ٹرمپ کے تقریباً 800 حامی کیپٹل ہل پر چڑھ دوڑے تھے۔ جس کے باعث کانگرس کے اراکین خطرات سے سے بچنے کے لیے ایوانوں سے باہر بھاگ نکلے۔

ہنگامہ آرائی کے دوران یا اس کے فوراً بعد پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس ہنگامہ آرائی کے سلسلے میں 600 افراد پر الزامات عائد کیے گئے تھے جب کہ 40 لوگ افراد جیل میں ہیں۔

ایوانِ نمائندگان کی ایک سیلیکٹ کمیٹی اس حملہ کی تفتیش کر رہی ہے۔ اگست میں کمیٹی نے اس سلسلے میں وائٹ ہاؤس سے سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ، ایف بی آئی اور دوسرے وفاقی اداروں سے ریکارڈ طلب کیا تھا۔

ریلی سے قبل ہی پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی تھی۔
ریلی سے قبل ہی پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی تھی۔

سابق صدر ٹرمپ نے ہفتے کو ہونے والی ریلی کے بارے کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن انہوں نے کیپٹل ہل کے ان حملہ آوروں جن پر فرد جرم عائد کی گئی ہے کہا کہ “ہمارے جذبات ان لوگوں کے ساتھ ہیں جن کے خلاف ناجائز مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔”

ریلی کے منتظم میٹ برینرڈ، جو کہ ٹرمپ کے حمایتی ہیں اور ری پبلکن پارٹی کے تجزیہ کار رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ جیلوں میں قید لوگ سیاسی اسیر ہیں۔

جب اس بیان پر تبصرے کے لیے کیپٹل پولیس چیف سے ردِعمل جانا گیا تو انہوں نے کہا کہ “ہر شخص کو آزادی رائے کا حق حاصل ہے۔ وہ جس بات پر یقین رکھنا چاہیں یقین رکھ سکتے ہیں۔ میرا کام قانون کا نفاذ ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہر شخص محفوظ رہے۔”

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments