غٹئی (ایک سچی کہانی)۔


خدا جانے نام اس کا کیا تھا لیکن سب اسے غٹئی کہتے تھے۔ غٹئی کا مطلب ہے موٹی یا بڑی۔ موٹی تو وہ بالکل نہیں تھی پھر نہ جانے کیوں اس کا نام غٹئی پڑ گیا۔ شاید وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی اس لئے والدین نے اسے غٹئی پکارا ہو گا۔ یہی پھر اس کا نام پڑ گیا، ویسے بھی جب حیثیت شکل اور لباس سے جھلکتی ہو تو کسے پڑی ہے کہ حقیقی نام معلوم کرے؟ کمتر حیثیت تو اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ دیتی ہے۔

وہ کون تھی، اس کے ماں باپ کون تھے، ان سوالوں کے متعلق راوی خاموش ہے۔ یقیناً اس کے ماں باپ اور آگے پیچھے رشتہ دار تھے لیکن کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ جاننا ضروری نہیں تھا، کیا اتنا کافی نہیں تھا کہ اس کے ماں باپ وہ تھے جن کا مطمح نظر زندگی بھر ایک لقمۂ تر کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔ غربت جب پہچان بن جاتی ہے تو اور کسی جان پہچان کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ غربت کے علاوہ اس کی شکل میں بھی کچھ ایسا نہیں تھا کہ اس کے متعلق مزید جاننے کی زحمت اٹھائی جائے۔

اس کا خاندان نسل در نسل لوگوں کی خدمت کرتا آیا تھا۔ اس کا باپ گاؤں کے صاحب حیثیت لوگوں کے حجرے میں پڑا حجرے کی دیکھ بال کرتا تھا۔ حجرے کی صفائی اور وہاں موجود چیزوں کے علاوہ وہ گھوڑے کو چارہ ڈالتا تھا، اس کی مالش کرتا تھا، خان کے گھر پر کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو بازار سے لاتا، کھیتوں میں کام کرتے مزدوروں کے پیچھے چائے اور کھانا لے کر جاتا، واپسی میں گھوڑے کے لئے گھاس کاٹ کر لاتا یا پھر لکڑیاں اٹھا لاتا کہ خان کے گھر کا چولہا جلتا رہے۔ وہ اکثر اپنے کام سے اکتا جاتا یا پھر جب ڈانٹ ڈپٹ زیادہ ہو جاتی تو ایک کو چھوڑ کر دوسرے خان کے ساتھ ہو لیتا، شکلیں اور جگہ تبدیل ہو جاتی لیکن کام وہی رہتا اور ذلت کا احساس بھی وہی۔

غٹئی کی ماں کی زندگی بھی انہیں خطوط پر استوار تھی، فرق بس اتنا تھا کہ وہ ہر روز چار پانچ گھروں میں جاتی، وہاں پر کام کاج میں ہاتھ بٹاتی اور شام کو گھر واپس آجاتی، واپسی پر اس کے ہاتھ میں کچھ کھانا ہوتا، جس کا گھر پر بیتابی سے انتظار رہتا۔ میاں بیوی کو اس خدمت کے بدلے کچھ اناج بھی مل جاتا، خیرات زکوٰۃ کے کچھ پیسے بھی کبھی کبھار مل جاتے جس سے وہ روزمرہ کی چیزیں خرید لیتے۔ کچھ پیسے بچ جاتے تو دونوں میاں بیوی گاؤں سے باہر قصبے کا رخ کرتے۔ گاؤں کے معززین انہیں دیکھتے تو آپس میں ہنسی مذاق کرتے ہوئے کہتے، ”گلے پھر اپنی بلبل کو چوڑیاں دلانے جا رہا ہے“ ۔

پہننے کے لئے انہیں لوگوں کے بیکار پرانے کپڑے ہی ملتے، اس لئے کپڑوں کی انہیں فکر بالکل نہیں رہتی۔ مختلف گھروں کے کپڑے ان کو ملتے تو سارا کنبہ آپس میں ان کپڑوں پر تبصرہ کرتا۔ ’اسلم خان کے گھر کے کپڑے جب تک گھس گھس کر چیتھڑے نہ بنے تو کسی پر دل نہیں آتا‘ ؛ ’حمید خان کے پاس روپوں کے انبار ہیں لیکن کپڑے سستے ہی خریدنے ہوتے ہیں اسے‘ ، نواب خان کا دل بھی نوابوں والا ہے، سب بال بچے کپڑے قیمتی ہی خریدتے ہیں اور کوئی جوڑا تین دفعہ سے زیادہ نہیں پہنتے ’۔ ان کے گھر زیادہ تر دوسرے گھروں کی باتیں ہوتیں، کبھی کوئی محبت اور ہمدردی کے دو لفظ بول دیتا تو ان کے چہرے کھلے کھلے نظر آتے۔

ایک شام کو غٹئی اپنی ماں اور ذہنی طور پر کمزور بھائی کے ساتھ گھر کے آنگن میں بیٹھی تھی، کہ غٹئی کا باپ تھکا ہارا گھر آیا۔ اس کے چہرے پر خوشی اور طمانیت کے آثار تھے لیکن گاہے گاہے آنکھوں میں پریشانی ظاہر ہو جاتی۔ غٹئی کی ماں نے جب پوچھا کہ کیا بات ہے تو اس کا ہاتھ آہستہ سے اس کی جیب کی جانب گیا اور جب جیب سے نکلا تو پانچ روپے کا چمکتا ہوا نوٹ لئے ہوئے تھا۔ پھر بولا؛ ”فروپیسر صاب نے غٹئی کو اپنے ساتھ پشاور لے جانے کا کہا ہے۔ کہتا ہے، میرے بچوں کے ساتھ رہے گی“ غٹئی کی ماں خوشی سے چارپائی کے بازو تک سرک آئی۔ ”یہ تو بہت اچھی بات ہے“ ؛ وہ خوشی سے بولی؛ ”فروپیسر صاحب اچھے دل والے ہیں، وہ اس کا بہت خیال رکھیں گے، بنگلے میں رہے گی“ ۔ بنگلے کا سن کر غٹئی کا دل مچلا تو اٹھ کر وہاں سے یوں چل دی جیسے اس کے لئے پروفیسر صاحب کے گھر سے رشتہ آیا ہو۔

اگلے دن غٹئی کی ماں پروفیسر صاحب کے بھائی کے گھر چلی گئی۔ گھر کے صحن میں گندم کا انبار پڑا تھا، خاتون خانہ اپنے چند عورتوں کے ساتھ صحن کے بیچ بیٹھی گندم صاف کر رہی تھی۔ وہ بھی پاس بیٹھ کر گیہوں سے گھن علیحدہ کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد خاتون خانہ اٹھ کر کمرے میں گئی تو اس نے پاس بیٹھی خارونے ادے سے اپنا ماجرا بیان کیا۔ وہ بغیر کسی توقف کے بولی؛ ”بالکل مت سوچو، آج ہی بھیج دو، فروپیسر صاحب کے بنگلے میں ہے ہی کیا؟ ایک بیٹی، ایک بیٹا اور کل ملا کر چار بندے۔ نوکر رکھے ہوئے ہیں، شیشے جیسا چمکتا بنگلہ ہے، غٹئی بس بچوں کو سنبھالے گی، اس کے ساتھ تمہارے بھی دن پھر جائیں گے، مجھے کہتے تو گل ریناز کو اسی وقت ساتھ روانہ کر دوں“

شام کو اپنے گھر سے باہر غٹئی کو خارونے ادے کی بیٹی گل ریناز ملی۔ گل ریناز نے اسے بتایا کہ ایک دن وہ اپنی ماں کے ساتھ پروفیسر صاحب کے بنگلے گئی تھی۔ بنگلہ بہت خوبصورت تھا، رنگ بہ رنگ پھولوں سے بھرا ہوا۔ اس دن اس نے ڈبل روٹی پر جیم لگا کر کھایا تھا، اتنا مزیدار کہ اب بھی یاد کرتے منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ پروفیسر صاحب کے گھر میں فریج بھی ہے جو ہر وقت پھلوں، گوشت، جیم اور ڈبل روٹیوں سے بھرا رہتا ہے۔

اگلے دن عصر سے پہلے غٹئی اپنے باپ کے ساتھ گاؤں کے اڈے پر موجود تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی جس میں اس کے کپڑے اور چوڑیاں رکھی ہوئی تھیں۔ مہینہ پہلے جب گندم کی فصل گھروں کو پہنچی تھی تو اسے بھی دیگر بچوں سمیت گندم ملی تھی۔ وہ بھاگ کر سلامو کاکا کی دکان پہنچی تھی اور گندم بھری جھولی خالی کر کے اس نے چوڑیاں خرید لی تھیں۔ گاؤں کا اڈہ بالکل خالی تھا، وہ اپنے باپ کے ہمراہ تانگے کا انتظار کر رہی تھی۔

اسے یہ سب کچھ عجیب لگ رہا تھا۔ گاؤں کی واحد مسجد کا منارہ نظر آ رہا تھا، اسے لگا کہ جیسے مسجد کا منارہ اسے دیکھ رہا ہے، اس سے کچھ کہنا چاہتا ہے یا شاید مسجد کا منارہ بہ زبان خاموشی گاؤں کے لوگوں سے کچھ کہہ رہا تھا۔ عصر کی اذان کی صدا گاؤں کی مسجد سے بلند ہوئی تو اس کے ہاتھ یکایک سر کی جانب گئے، سر پر پڑا دوپٹہ اس نے درست کر لیا اور نہایت انہماک سے اذان سننے لگی۔ دور گاؤں کی کچی سڑک پر کچھ نمودار ہوا اور ساتھ ہی ٹکا ٹک کی آوازیں آنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد موہوم سی تصویر واضح ہوتی چلی گئی، ٹکا ٹک کی آوازیں تیز ہوتی گئیں اور ساتھ ہی غٹئی کا دل لرزنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد وہ ٹانگے میں سوار جی ٹی روڈ کی جانب رواں دواں تھے۔ پکی سڑک پر پہنچ کر انہیں جلد ہی بس مل گئی۔ پشاور پہنچے تو شام ہو چکی تھی، شام کے سائے آہستہ آہستہ بڑھنے لگے لیکن یہ شام گاؤں کی شام سے بالکل مختلف تھی۔ گاؤں کی خاموش شام آہستہ آہستہ اندھیرے کی گود میں اترتی ہے، یہاں شور تھا اور روشنیاں۔ پروفیسر صاحب کے بنگلے میں پہنچے، گیٹ کے اندر داخل ہوئے تو پروفیسر صاحب کا ملازم انہیں اندر لے گیا۔ غٹئی کے باپ تو اندر چلے گئے لیکن غٹئی ادھر ہی رک گئی۔ وہ حیرت سے گیٹ کے پاس کھڑی موٹر کو دیکھنے لگی اور آہستہ آہستہ اس پر ہاتھ پھیرنے لگی۔

”لے آئے بچی کو“ ، پروفیسر صاحب نے اس کے باپ سے پوچھا۔ ”جی ہاں یہ ہے“ ۔ اس کے باپ نے پیچھے دیکھا تو غٹئی کو موجود نہیں پایا۔ وہ گھبرا کر باہر کی طرف لپکا لیکن اسی لمحے گھر کا ملازم غٹئی کو اندر لے آیا۔ پروفیسر صاحب شفیق انسان تھے، اس نے غٹئی کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور اس کے باپ سے بولا، ”تم فکر مت کرو، یہ میرے بچوں کی طرح میرے پاس رہے گی“ ۔ باپ اجازت لے کر چل دیا تو غٹئی دوڑ کر اس سے لپٹ گئی اور ساتھ ہی اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ پروفیسر صاحب نے اس کے والد کو رات ٹھہرا لیا تاکہ بچی کو حوصلہ ملے۔

اگلے روز، غٹئی کے باپ بازار کا کہہ کر گاؤں لوٹ آئے اور غٹئی شام تک اس کا راستہ دیکھتی رہی۔ ایک دفعہ گیٹ کسی کے لئے کھلا تو اپنی پوٹلی ہاتھوں میں لئے دروازے کی طرف بھاگی۔ بنگلے کے صحن میں ٹھوکر کھا کر گری تو کانچ کی ساری چوڑیاں ٹوٹ گئیں۔ شام ہوتے ہی بے قراری حد سے بڑھ گئی، اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے گرم آنسو اس کے گالوں پر آ کر رک گئے، اس نے ہاتھ سے اپنے آنسو پونچھ لئے اور خاموشی سے باورچی خانے جا کر برتن دھونے لگی۔

پروفیسر صاحب کا بڑا بیٹا چار سال جبکہ اس کی بیٹی لگ بھگ دو سال کی تھی۔ اس کی بیوی بھی نہایت شفیق عورت تھی۔ کچھ دنوں میں غٹئی کا دل لگ گیا۔ وہ زیادہ تر پروفیسر صاحب کی بیٹی کو گود میں اٹھائے پھرتی رہتی۔ بچے کھلونوں کے ساتھ کھیلتے تو یہ بھی ساتھ ہوتی۔ کوئی کھلونا ٹوٹ جاتا تو اسے بہت دکھ ہوتا۔ اسے جوڑنے کی کوشش کرتی۔ پروفیسر صاحب مہینے میں ایک آدھ دفعہ بچوں کو لے کر گاؤں ضرور جاتے۔ غٹئی بھی ساتھ ہوتی۔ غٹئی کے کپڑے دیکھ کر اس کی سہیلی گل ریناز کو اس پر رشک آتا۔ اب غٹئی جن کپڑوں سے اکتا جاتی، مالکن سے اجازت لے کر گل ریناز کو دے دیتی۔

وقت گزرتا گیا، پروفیسر صاحب کی دو اور بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوا۔ سب بچے غٹئی کے ہاتھوں میں پلنے بڑھنے لگے۔ غٹئی اب ان کے خاندان کا حصہ بن گئی۔ بچے سکول جاتے تو غٹئی صبح سویرے اٹھ کر ان کے لئے ناشتہ تیار کرتی، انہیں تیار کر کے ان کے بیگز اور ٹفن پکڑاتی، گیٹ سے باہر نکل کر انہیں گاڑی میں سوار کرتی اور واپس آ کر گھر کے کام کاج میں لگ جاتی۔ پروفیسر صاحب پر اللہ کا کرم تھا، ترقی کرتے چلے گئے۔ بچے بڑے ہوتے گئے، بڑا بیٹا کالج میں داخل ہو گیا۔ غٹئی کے والدین دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اب پروفیسر صاحب اور ان کا خاندان ہی غٹئی کا سب کچھ تھا۔ گاؤں میں ان کا گھر تک نہیں تھا۔ اس کے ماں باپ پرائے گھر میں پیدا ہوئے اور پرائے گھر سے ان کے جنازے نکلے۔

گاؤں سے پروفیسر صاحب کا تعلق استوار تھا۔ عید وہ بچوں سمیت اپنے آبائی گھر پر مناتے۔ غٹئی جب بھی آتی۔ گل ریناز سے اس کی ملاقات ضرور ہوتی کہ گل ریناز پروفیسر صاحب کے آبائی گھر کے پاس ایک کمرے میں رہتی اپنے شوہر کے ساتھ۔ وہ اور اس کے شوہر پروفیسر صاحب کے چھوٹے بھائی کی خدمت کر کے زندگی گزار رہے تھے۔ گل ریناز کی شادی ہو گئی تھی لیکن اس کی کوئی اولاد نہیں تھا۔ آخر کار اس نے اپنے گونگے، بہرے بھانجے کو گود لے لیا۔ اللہ کے کام اللہ ہی جانے، ایک دن یہ گونگا، بہرہ بچہ ایک حادثے کا شکار ہوا اور دونوں ہاتھوں سے بھی معذور ہو گیا۔ گل ریناز ہمت نہیں ہاری، اسے محبت سے پال پوس کر جوان کیا، اس کی شادی کر دی، آب وہ بچوں کا باپ بن چکا ہے اور گل ریناز کے بڑھاپے کا سہارا بن کر اس کے ساتھ ہی رہ رہا ہے۔

ایک دن اچانک خبر آئی کہ پروفیسر صاحب کو اپنے دفتر میں دل کا دورہ پڑا ہے۔ غٹئی بیگم صاحبہ کے ساتھ بھاگ کر ہسپتال پہنچی۔ پتہ چلا کہ پروفیسر صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ غٹئی پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ پورا خاندان غم کے پہاڑ تلے دب گیا۔ غٹئی اس مشکل وقت میں سب کو دلاسا دیتی رہی۔ پروفیسر صاحب کو گزرے چند مہینے ہی ہوئے تھے کہ بیگم صاحبہ بھی ان سے جا ملی۔ آن کی آن میں خوشیوں بھرا گھرانا غم کی تصویر بن گیا۔

بچے ابھی سارے پڑھ رہے تھے۔ غٹئی اب سب سے بڑی تھی۔ اس نے سب بچوں کو سینے سے لگایا۔ سب کی پڑھائی نہ رکنے دی۔ بچے پڑھ لکھ گئی۔ گاؤں ان کا آنا جانا پہلے کم اور پھر مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ زمین کے تنازعات نے سر اٹھایا۔ خاندان کے لئے مالی مشکلات پیدا ہوئیں لیکن بچوں نے معاملات سنبھال لئے اور پہلے سے زیادہ مالی خوشحالی نصیب ہوئی۔

تینوں بہنوں کی شادیوں کے بعد بھائیوں نے بھی شادیاں کر لیں۔ غٹئی ہر موقع پر پیش پیش رہتی۔ نہایت سلیقے اور قرینے سے سارے امور سر انجام دیے۔ اب بھائیوں کے بیچ جائیداد کی تقسیم نے مسائل جنم دیے۔ دونوں الگ الگ گھروں میں رہنے لگے۔ غٹئی کبھی ایک اور کبھی دوسرے کے پاس رہتی۔ بیچ بیچ میں بہنوں کے گھر بھی چکر لگا آتی۔ اس نے کوشش کی کہ بھائی ایک دوسرے کے قریب آئیں لیکن مال و زر کی ہوس اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ضد آڑے آتی رہی۔

اب سب غٹئی سے تنگ آنے لگے۔ دس سال کی تھی جب پروفیسر صاحب کے گھر گئی تھی اب عمر پچاس سے اوپر تھی۔ بیمار بھی رہنے لگی۔ اب نہ پروفیسر صاحب تھے نہ بیگم صاحبہ اور نہ وہ گھر۔ نئے گھروں میں اس کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ ایک دن پروفیسر صاحب کے بڑے بیٹے نے گھر سے نکال دیا۔ گرتی پڑتی دوسرے بھائی کے پاس گئی تو وہاں بھی سر چھپانے کو جگہ نہیں ملی

مایوس ہو کر گاؤں کا راستہ لیا۔ سارے راستے سوچتی رہی کہ کہاں جائے گی؟ ماں باپ تو کب کے دنیا سے چلے گئے تھے۔ گھر ان کا کوئی تھا ہی نہیں۔ پروفیسر صاحب کی پیڑھی کے سارے رشتہ دار بھی دنیا میں نہیں رہے۔ نئی نسل سے اسے کوئی امید نہیں۔ تھی کہ جن کی خدمت گزاری میں ساری عمر گنوا دی، وہ دو وقت کی روٹی اور سر کے لئے چھت دینے کو تیار نہیں تھے تو اوروں سے کیا امید رکھ سکتی تھی؟ گاؤں میں کوئی نہیں تھا لیکن گاؤں تو اپنا تھا نا۔ اسی امید پر وہ گاؤں پہنچ گئی۔

گاؤں کے اڈے میں رکشے سے اتری تو جیسے بت بن گئی۔ قدم اٹھ ہی نہیں رہے تھے۔ وہ ان مکانات کو دیکھتی رہی جو پروفیسر صاحب کے رشتہ داروں کے تھے۔ وہ اس ایک ایک گھر میں خوشی غمی کے موقعوں پر بیگم صاحبہ کے ساتھ جاتی رہی تھی۔ حیران و پریشان کھڑی وہ سوچتی رہی، اس کے دل میں آیا کہ واپس جائے کہ بھرے گاؤں میں اسے سر چھپانے کو جگہ میسر نہیں تھی۔ گاؤں کے کچے گھر پکے مکانات میں تبدیل ہو گئے تھے اور شاید لوگوں کے دل بھی پتھر کی طرح سخت ہو گئے تھے۔ گاؤں کی بلند و بالا عمارات میں مسجد کا منارہ کہیں کھو گیا تھا، اچانک اس کی نظر اونچے مکانات کے بیچ ایک جگہ پر پیوست ہو گئی۔ مکانات کے بیچ مسجد کا منارہ نظر آ رہا تھا، اگلے لمحے عصر کی اذان کی صدا فضاء میں گونجنے لگی اور اس کے ساتھ ہی اس کے دل میں گل ریناز کا خیال آیا۔

گل ریناز نے اپنا چھوٹا سا گھر بنا لیا تھا، جہاں وہ ہاتھوں سے معذور اپنے بیٹے کے ساتھ رہ رہی تھی۔ ”نہیں نہیں، ۔ گل ریناز بیچاری خود دو وقت کی روٹی کے لئے ترستی ہے، وہ میرا بوجھ کیسے برداشت کرے گی؟“ ۔ اچانک وہ ایک طرف کو روانہ ہوئی، ایک دروازے کے سامنے پہنچ کر رکی، کچھ دیر رکی رہی اور پھر اندر داخل ہو گئی۔ گل ریناز نے اسے کھلے دل سے خوش آمدید کہا، چار سال سے زائد عرصہ گزر چکا کہ غٹئی، گل ریناز کے ساتھ اس کے ایک کمرے کے گھر میں رہ رہی ہے۔ گل ریناز کہتی ہے کہ اس کا رزق اگر اللہ نے میرے ذمے لکھ دیا ہے تو وہ اور اس کا بیٹا بھوکا رہ لیں گے لیکن غٹئی کو کبھی بوجھ تصور نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments