آئین۔ایک مقدس دستاویز


کسی بھی ملک و قوم کے بنائے ہوئے بنیادی اصولوں اور قانون کا مجموعہ جو حکومت کے فرائض اور اختیارات کو اس ریاست میں موجود لوگوں کے حقوق کی ذمہ داری دیتے ہوئے متعین کرتا ہے، آئین کہلاتا ہے۔

آئین ہی وہ مقدس دستاویز ہے جو تمام شہریوں کو بلا رنگ و نسل برابر کی حیثیت عطا کرتا ہے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کا ضامن ہے۔ یہی وہ پاکیزہ معاہدہ ہے جو عوام کے حقیقی نمائندوں کے چناؤ کا باعث اور پھر ان نمائندوں کو اپنے فرائض سے ایمانداری سے عہدہ براء ہونے کا پابند کرتا ہے۔

ہر قسم کی سماجی، ، معاشی سیاسی اور شخصی آزادیاں مثلاً رہنے، پہننے، کھانے پینے، کاروبار کرنے، تنظیم سازی، آمدورفت، اور بولنے کی آزادی، آئین کے ہی مرہون منت ہیں۔

وطن عزیز کے قیام کے بعد آئین سازی کا عمل سست روی کا شکار رہا اور پاکستان کا پہلا آئین 23 مارچ 1956 کو ملک کے قیام کے 9 سالہ طویل عرصے کے بعد نافذ ہوا جبکہ ہمسایہ ملک نے یہی سنگ میل 3 سال کے مختصر عرصے میں ہی حاصل کر لیا۔ مزید برآں اپنے نفاذ کے صرف دو سال بعد ہی قومی آئین کی بساط لپیٹ دی گئی جس کے بعد مختلف طالع آزماؤں نے آئین توڑنا یوں فرض کر لیا کہ جیسے کسی بچے کا کھلونا، جسے جب جی چاہا اٹھا کر پھینک دیا ؛

”اور لے آئیں گے بازار سے اگر ٹوٹ گیا“

ضیا الحق صاحب تو یہ کہتے ہوئے بھی پائے گئے کہ آئین کی حیثیت ہی کیا ہے محض ردی کے چند ٹکڑے جنہیں جب دل چاہے پھاڑ کر ٹوکری میں پھینک دیا جائے۔

اگر ہم دنیا کے نقشے کا جائزہ لیں تو وہ ممالک جو تعمیر و ترقی کی دوڑ میں ممتاز ہیں، ان سب اقوام میں ایک ہی بنیادی وصف، آئین کی پابندی اور اس کی مسلمہ حیثیت کا ادراک مشترک نظر آئے گا۔

موجودہ دور میں ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے ماہر اور نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین کی تحقیق کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ ایسے ممالک جہاں جمہوریت موجود ہے اور لوگوں کو سیاسی اور سماجی آزادی حاصل ہے ان ممالک کی نسبت جدھر آمریت اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے، معاشی اور معاشرتی طور پر اور انسانی ترقی میں زیادہ بہتر اور مضبوط ہوتے ہیں اور ایسے ممالک میں کسی معاشی آفت سے نبٹنے کی استعداد بھی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ عوامی نمائندوں کو ووٹ لینے کے لئے بالآخر عوام کے پاس ہی جانا پڑتا ہے تو وہ لوگوں کے احساسات کا خیال زیادہ بہتر طریقے سے رکھتے ہیں جبکہ اس کے برعکس آمر بذریعہ قوت حکومت کرنے کے دلدادہ اور لاٹھی گولی کی سرکار کے پروردہ ہوتے ہیں۔

جب بھی کوئی ڈکٹیٹر آئین پر شب خون مارتا ہے تو دوسرے لفظوں میں وہ شخصی و اجتماعی آزادیوں کی بندش اور عوام کے بنیادی حقوق کا گلا گھونٹ کر بزعم خود ملک میں ترقی کا ڈول ڈالتا ہے جو در حقیقت تخریب اور ترقی معکوس کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ یعنی کہ جو حقوق ہمیں پیدائشی طور پر اپنے ملک کا شہری ہونے کی بنا پر ملتے ہیں، آمر چشم زدن میں ان کو کالعدم قرار دے کر اپنی پسند کا قانون لاگو کر دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آئین توڑنے کو خود آئین میں غداری کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔

ان سب حقائق کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ عوام ہوں یا خواص جب تک آئین کے تقدس کا نظریہ ہماری مجموعی قومی فکر پر غالب نہیں آ جاتا، معاشرے کی مثالی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ناممکن ہے۔

چلتے چلتے برسبیل تذکرہ، ایک دفعہ کسی ریٹائرڈ فوجی افسر نے بزرگ سیاستدان ولی خان سے کہا کہ سیاستدان جمہوریت کی اے بی سی سے واقف نہیں ہوتے تو جواباً ولی خان نے کہا کہ جناب جب ہم سیاستدان ایف پر پہنچتے ہیں تو آگے جی ایچ کیو آ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments