کہانی ”میں کرکٹ کو ایسا سیٹ کروں گا“ والی بڑھک کی


نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان سے کھیلے بغیر واپس جا چکی ہے۔ میڈیا پر موجود اطلاعات کے مطابق نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ سکیورٹی سے مشروط تھا اور دونوں ممالک کے سکیورٹی حکام نے چار ماہ کی محنت سے فول پروف سکیورٹی انتظامات کو ممکن بنانے کے بعد مہمان ٹیم کو پاکستان بلایا تھا۔ مگر اچانک سے نیوزی لینڈ کے حکام نے سکیورٹی کو ہی بنیاد بنا کر ہنگامی بنیادوں پر دورہ کینسل کر دیا۔ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم اپنے وطن واپس جا چکی ہے اور اب پاکستان میں ”جتنے منہ اتنی باتیں والا“ طوفان اٹھا ہوا ہے۔ اور نئے پاکستان کے سوشل میڈیائی فوجی اس اچانک صورتحال کو کنٹرول اور کاؤنٹر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

البتہ پرانے پاکستان کے سوشل میڈیا ٹرولز کہانی کو 1990 ء سے شروع کر رہے ہیں کہ جب عمران خان (اس وقت فاسٹ بالر) نے پاکستان کے دورے پر آئی نیوزی لینڈ کی ٹیم کو بی لیول کی ٹیم کہتے ہوئے کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ ٹرولز کہتے ہیں کہ اب وہی ”کھلاڑی“ نیوزی لینڈ کو پاکستان میں کھیلنے کے لئے منتیں کر رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر خان کی ”ریلو کٹے کہنے والی“ ٹویٹس لگا کر اسے مکافات عمل قرار دیا ہے۔ اور کچھ نے خان کی ان ٹویٹس کے بھی سکرین شاٹ لگائے ہیں کہ جو وہ نواز شریف دور میں کرکٹ بحالی کے خلاف کیا کرتے تھے۔

اور کچھ وہ والے صاحبان ”نہ تو میں پی ٹی آئی کا حامی ہوں نہ نون لیگ کا“ نے اس واقعے کو ملکی وقار کے خلاف سازش تک قرار دیا ہے۔ نصرت جاوید صاحب کے کالموں سے متاثر ان ”محب وطن پاکستانیوں“ کو لگتا ہے کہ پاکستان کے خلاف گریٹ گیم لگائی جا رہی ہے۔ اور نیوزی لینڈ چونکہ چین مخالف AUKUS نامی اتحاد کا حصہ بننا چاہتا ہے، تو اسی وجہ سے اس نے پاکستان کو عالمی طور پر شرمندہ کرنے کی ترکیب لگائی ہے۔

سابق چیئرمین پی سی بی جناب نجم سیٹھی نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس قضیے سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے سارا ملبہ سکیورٹی اداروں پر ڈالا ہے اور اس بات زور دیا ہے کہ ایک اندرونی میمو کس طرح سے نیوزی لینڈ ٹیم کے سکیورٹی حکام تک پہنچا ہے۔ جبکہ نئے پاکستان کے سوشل میڈیائی فوجیوں نے اس واقعے کے خلاف لکھنے والوں کو غدار اور خنزیر سے تعبیر کیا ہے اور نواز شریف اور مریم نواز کی کرپشن اور سپورٹس دشمنی کے واقعات کو بطور کاؤنٹر ٹویٹس کے استعمال کیا ہے۔

سچے /جھوٹے ٹویٹر اکاؤنٹس پر کالے اور گورے صحافیوں، کھلاڑیوں، ٹورسٹس اور سماجی شخصیات سے منسوب ٹویٹس کی بھرمار ہے اور نئے پاکستان کے سوشل میڈیا فوجی ان ٹویٹس کو کاپی کر رہے ہیں، جس میں یہ ”مشہور“ افراد پاکستان کو ایک محفوظ ترین ملک بتاتے ہیں اور پاکستان میں گزرے اپنے وقت کو یاد کرتے نظر آتے ہیں اور نیوزی لینڈ کو شرم دلاتے ہیں کہ ایسے پرامن ملک میں انہیں سکیورٹی خدشات کیسے نظر آ گئے۔

دوسری طرف نیوزی لینڈ کرکٹ کے سربراہ ڈیوڈ وائٹ کا کہنا ہے کہ وہ سکیورٹی خطرے کے بارے میں نہیں بتا سکتے ہیں۔ عالمی میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”میں یہ بتا سکتا ہوں کہ ہمیں مشورہ دیا گیا تھا کہ ٹیم کے خلاف ایک مخصوص اور قابل اعتماد خطرہ ہے۔ ہم نے فیصلہ لینے سے پہلے نیوزی لینڈ حکومت کے کئی عہدے داروں سے بات کی۔ ہمارے پی سی بی کو اپنے فیصلے کے بارے میں آگاہ کرنے کے بعد دونوں وزرائے اعظم کے درمیان فون پر بھی بات ہوئی۔ بدقسمتی سے ہمیں جو تجویز دی گئی اس کے پیش نظر ہم ملک میں رہ نہیں سکتے تھے“ ۔

بدقسمتی سے جس خطرے کی طرف کیوی کرکٹ بورڈ اشارہ کر رہا ہے وہ ہی ”اصل“ بات اور خطرہ ہے جس کو اس وقت نہ تو کوئی ففتھ جنریشنائی یوتھیا ٹویٹ کر رہا ہے نہ اس پر کوئی یوٹیوب انفلوئنسر پروگرام کر رہا ہے۔ کوئی اس بات کی تحقیق نہیں کر رہا کہ عین میچ والے دن اسلام آباد میں موجود ایک ریاست مخالف مدرسے اور مسجد کے اوپر افغانستان میں آئی حکومت کا جھنڈا کس وجہ سے لہرایا گیا تھا۔ اور وہاں کا مولوی اسلام آباد پولیس کو طالبان کے آنے کی خوشخبری نما دھمکی کس لئے لگا رہا تھا۔

قومی تشخص اور فکری سیاست کے شدید بحران کا شکار پی ٹی آئی اور یہ حکومت سمجھ ہی نہیں رہی کہ پاکستان میں کھیل (جو صرف کرکٹ ہی ہے اب) کے میدان آباد کرنے اور ٹورازم بحال کرنے کے لئے اصلی امن و سکون کی ضرورت ہے جو ایکسٹینشن دینے سے نہیں آتا۔ اور صرف لاف گزاف چھوڑنے اور بڑھکیں لگانے سے بھی نہیں آتا۔ وزیر اعظم عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو ملی بھگت میڈیا پر ترتیب دیے گئے پروگراموں میں بیٹھ کر وہ گلے کا زور لگا کر کہتے تھے کہ جب ”میں“ اقتدار میں آیا تو ”میں“ کرکٹ کو ایسا سیٹ کروں گا کہ دنیا دیکھے گی۔ مگر جب وہ ایک صفحے کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تو ان کی ترجیحات میں کرکٹ آخری نمبروں پر تھی۔ ایک وٹس ایپ میسج کے ذریعے انہوں نے پی سی بی کا چیئرمین لگایا اور گزشتہ تین سالوں میں ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان کا بیڑہ غرق کیا۔

ایک سپورٹس مین کا جذبہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا کھیل پیش کرے اور تنقید سے ماوراء ہو کر اپنے کام میں لگا رہے اور ایک سیاستدان کا خاصہ یہ ہوتا ہے وہ بردبار ہو، نپی تلی بات کرے اور اختلاف کے دروازے کو کبھی بند نہ ہونے دے۔ بدقسمتی سے گزشتہ 22 جمع 3 سالوں میں خان صاحب کے ہر اقدام سے یہ نتیجہ نکلا کہ تو وہ نہ تو سپورٹس مین ہیں اور نہ ہی سیاستدان اور ان کے دور میں کرکٹ یتیم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments