3 سال کی عورت کا ریپ کیس!


جج صاحب اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے ”اہلمد“ کو دوسری کرسی لانے کا حکم دیتے ہوئے ”ع ش“ کو اپنی نشست دے دی کمرہ عدالت میں موجود وکلاء سائلین اور عملے نے کسی بھی فاضل جج کی جانب سے ایسے عمل کا شاید پہلی دفعہ مشاہدہ کیا تھا، جج صاحب دوسری نشست پر تشریف فرما ہو چکے تھے، ”ع ش“ جو کہ پہلی باہر کچہری آئی تھی اس سائے ماحول اور لوگوں سے کھچا کھچ بھرے اس کمرے کا بغور جائزہ لینے میں لگی رہی،

عدالتی کارروائی شروع ہو چکی تھی، اچانک ”ع ش“ سے سوال ہوا کہ بتائیں آپ کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ خاموش رہی اور کچھ سہم سی گئی کسی بھی کیس میں عدالت پیشی سے متعلق یہ اس کا پہلا تجربہ تھا، وکیل ”ع ش“ کے قریب آیا کٹہرے میں کھڑے 20 سالہ نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ”بیٹا کیا یہ گندے انکل ہیں؟ انہوں نے آپ کو زور سے پکڑا تھا؟

یہ سننے کے بعد ”ع ش“ کو شاید معلوم ہوا کہ یہ سب کارروائی اس کے ساتھ چند روز پہلے پیش آئے واقعے سے متعلق ہی ہے، وہ مزید کچھ دیر چپ رہنے کے بعد بولی ”ہاں جی یہ بہت گندے انکل ہیں انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور زور سے پکڑا تھا پھر انکل نے مجھے اپنی ٭٭٭٭٭٭ میں شور کرنے لگی تو انہوں نے میرے منہ پر زور سے ہاتھ رکھ دیا، بابا نے مجھے بتایا تھا کہ اگر کوئی غلط طرح“ ٹچ ”کرے تو“ شاؤٹ ”کرنا مجھے یا ماما کو بتانا ہے، جب میں نے ماما کو آواز دی تب انکل نے اپنے ہاتھ سے میرا منہ زور سے بند کر دیا،“ ع ش ”کی اپنے حق میں گواہی مکمل ہو چکی تھی۔

کمرہ عدالت میں چند سیکنڈ کے لئے خاموشی رہی پھر وکیل صفائی نے اپنے موکل کے دفاع کا آغاز کیا، ملزم جو کہ قدرے مطمئن نظر آ رہا تھا اس کا والد وکلاء کے پینل، قریبی دوستوں کے بڑے گروپ کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود تھا،

ملزم جرم سے صاف انکار کرتے ہوئے بولا، جج صاحب یہ مجھے پھنسانے کی سازش ہے، میں تو مرمت کا کام کرنے ان کے گھر گیا تھا کام پسند نہ آیا پیسے دینے کے بجائے مجھ پر یہ الزام دھر دیا اس کے لئے ”ع ش“ کو استعمال کیا جا رہا ہے جج صاحب ”یہ 3 سال کی عورت جھوٹ بول رہی ہے“

”ع ش“ یہ سب سن کے بہت حیران تھی کہ انکل تو جھوٹ بول رہے ہیں، اسے تو کسی نہ بھی نہیں سکھایا کہ کیا بولنا ہے، صرف اتنا بتایا گیا تھا کہ جو غلط اور گندے کام کرتے ہیں انہیں پولیس پکڑ لیتی ہے اس کے ساتھ جس انکل نے گندی حرکت کرنے کی ”کوشش“ کی آج سب مل کر انہیں پولیس کو دینے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں انکل نے جو کیا ویسے ہی وہ سب کو ایک بار پھر بتانا پڑے گا۔

”ع ش“ کا والد بھی اپنے چند قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ایک کونے میں کھڑا ساری کارروائی کو سن رہا تھا، تاثرات سے عاری چہرے سے اس کے اندر کی کیفیت کا اندازہ لگانا مشکل تھا، وہ کچھ نہیں بولا لیکن وہ چیخ چیخ کر کہ رہا تھا، میری بچی سچی ہے، وہ کیوں جھوٹ بولے گی، وہ تو کل ہی مجھ سے نئی گڑیا لینے کی ضد کر رہی تھی، وہ تو فرشتوں کی طرح معصوم ہے اس کے ساتھ ایک حیوان نے انسانیت سوز سلوک کیا ہے

اس 3 سال کی عورت کو عدالت آنے سے قبل قریبی تھانے میں بھی اپنے ساتھ پیش آئے واقعے کا احوال بھی بتانا پڑا تھا متعلقہ ایس ایچ او نے واقعے سے متعلق فوری مقدمہ درج کر کے اسے مزید تحقیقات کے لئے تفتیشی ٹیم کے حوالے کیا، لیکن نہ جانے اس کیس کی تفتیشی افسر کو بھی کیوں اس بچی کی گواہی کافی محسوس نہیں ہو رہی تھی،

پہلے تو بچی کے اہلخانہ سے سوال کیا کہ آپ نے کیس چلانا بھی ہے؟ نہیں تو بات چیت یا جس طرح آپ چاہیں معاملہ ختم بھی ہو سکتا ہے، معاملہ ختم نہیں منطقی انجام تک پہنچانا ہے یہ ہم اپنی نہیں بلکہ سب کی بیٹیوں کی خاطر کریں گے،

جس کے بعد تفتیشی نے ”ع ش“ کے والد سے کہا آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں الٹا آپ کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے، والد تھانے میں چیخ کر بولا خدا کا خوف کریں کیا یہ 3 سال کی بچی جھوٹ بول رہی ہے؟ ہم یہاں انصاف لینے آئے ہیں آپ نے انصاف نہ کیا تو ہم اور دروازے کھٹکھٹائیں لیکن اس درندے کو معاشرے میں مزید تباہی پھیلانے نہیں دیں گے

”ع ش“ کے گھر والوں کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ اب اپنی 3 سالہ بچی کی سچائی کو ثابت کرنے اور ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے نہ صرف ایک طویل قانونی جنگ لڑنی ہے بلکہ انصاف کی راہ میں حائل کرپٹ، جانبدار نظام اور افراد کا بھی مقابلہ کرنا ہو گا

ہر طرح سے ان کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کی جائے گی، ہر وہ حربہ استعمال ہو گا کہ وہ خوف زدہ ہو کر اس کیس سے پیچھے ہٹ جائیں جیسا کہ اس نوعیت کے اکثر کیسز میں دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن اس 3 سالہ عورت کے عزت دار گھر والے کسی صورت بھی اپنی بچی کے سچ کو جھوٹ میں بدل دینے کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھے

متعلقہ ایس پی اور پھر ڈی آئی جی تک اپنی درخواست پہنچائی گئی تھانے میں جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا وہ بیان کیا بھلا ہو بڑے افسر کا جس نے تفصیلات دیکھنے ”ع ش“ سے ملنے اور کئی دن گزر جانے کے بعد میرٹ پر کارروائی شروع نہ کیے جانے پر تفتیشی افسر کو سخت ہدایات دی تھیں اس کے بعد ہی ملزم کے خلاف مزید کارروائی کا آغاز ہوا اور معاملہ عدالت میں پہنچا تھا۔ جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments