بڑے دادا


مدرسہ مجیدیہ کے آنگن میں میرے ابا مولانا امداد احمد علی تعزیتی ہجوم میں گھرے چھوٹے دادا کے آخری لمحات کے بارے میں بتا رہے تھے

”حسب معمول تہجد کے لئے بیدار ہوئے، وضو بنایا اور تہجد کے معمولات سے فارغ ہو کر اسی مصلے پر کمر سیدھی کرنے لیٹ گئے۔ حسب معمول فجر کی اذان کے ساتھ بیدار ہوئے اور وضو تازہ کر کے خلاف معمول اسی مصلے پر دو سنتوں کی نیت باندھ لی اور پہلی رکعت کے پہلے سجدے میں ہی مالک نے یاد کر لیا “

تعزیتی ہجوم نے اونچی آواز سے سبحان اللہ سبحان اللہ کا نعرہ لگایا۔ ابھی نعرہ فضا میں تحلیل ہی نہیں ہوا تھا کہ مسجد کے موذن عبدالشکور شعلہ نے اپنی بھاری آواز کا شعلہ بھڑکا دیا

”ان کوالہام ہو گیا تھا اسی لئے اسی لئے سنتیں گھر میں ادا کرنے کھڑے ہو گئے تاکہ موت آئے بھی تو سجدے کی حالت میں آئے۔ اوپر خدا اور نیچے میں گواہ ہوں کہ مولوی جی نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں کبھی گھر میں سنتیں ادا نہیں کیں۔ علامہ اقبال نے اسی لئے تو کہا ہے کہ

تیرے مومن کا یہی انجام ہونا ہے۔

موت سے پہلے موت کا الہام ہونا ہے۔

یا تو میدان جنگ میں ملنی ہے شہادت۔

 یا پھر مصلے پر اختتام ہونا ہے “

ادھر شعلے نے اپنے بے وزن شعروں کا وزن اقبال کے کندھوں پر ڈالا ادھر پنڈال سے سبحان اللہ کی آوازیں اٹھیں اور شعلے کے چہرے پر تسلی کی ایک لہر اٹھی جیسے اسے کنفرم ہو گیا ہو کہ وہ اور اقبال ایک ہی رنگ اور مزاج کے شاعر ہیں۔

شعلے کی گواہی کے بعد ابا ایک بار پھر چھوٹے دادا کے مناقب اور آخری لمحات کی داستان بیان کرنے لگے اور میں وہاں سے اٹھ کر باہر گلی میں آگیا۔ مجھے الجھن ہو رہی تھی کہ ابا ایک عالم آدمی ہو کر سجدے میں موت کی کہانیاں کیوں سنا رہے ہیں۔ کیا ہر آنے والے کو یہ جھوٹی کہانی بار بار سنانا ضروری ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ چھوٹے دادا بے چارے پاخانے پر بیٹھے بیٹھے دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوئے تھے۔ ابا اور میں نے ہی ان کی بے ستر لاش کو غسل خانے سے نکالا تھا۔ اس سے پہلے کہ میری الجھن غصے میں بدلتی مجھے ابا کی وہی بات یاد آگئی جو انہوں نے دادا کا ازار بند باندھتے ہوئے کہی تھی

”خدا بزرگوں کے پردہ رکھنے والوں کو کبھی بے پردہ نہیں کرتا۔ یہ شرع کا حکم بھی ہے اور میرا بھی۔ اس بات کو پلے سے باندھ لو عبدالحمید “

میں ابا کا حکم یاد کر کے گھر کی طرف چل پڑا۔ مجھے تنہائی کی ضرورت تھی دو دن سے میرے دماغ میں ایک عجیب سی ہلچل تھی۔ مجھے چھوٹے دادا سے کچھ کہنا تھا لیکن کہنے سننے سے پہلے ہی ان کی موت کا سانحہ ہو گیا۔ میں نے اسی ہلچل کے ساتھ ہی گھر میں قدم رکھا تاکہ جب تک جنازہ نہیں اٹھتا میں اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھ کے دادا کے لئے کچھ پڑھ سکوں۔ گھر کے صحن میں میرے چھوٹے دادا اور لوگوں کے مولوی جی عبدالمجید خاکی کا سفید کفن میں ملبوس جسد خاکی چارپائی پر رکھا تھا۔ چارپائی کے گرد مدرسہ مجیدیہ سے آئی دریاں اور صفیں صبح صبح ہی بچھا دی گئی تھیں۔ جن پر علاقے اور خاندان کی عورتیں پھیلی پڑی تھیں۔ وہ جو ناظرہ قران شریف پڑھنا جانتی تھیں تلاوت میں مصروف تھیں۔ اور باقی کے آگے کھجور کی گٹکوں کی ڈھیریاں تھیں۔ ہونٹ ہل رہے تھے گٹکیں گر رہی تھیں۔ چارپائی کے دونوں طرف پیڈسٹل پنکھے اپنے آگے رکھے برف کے بلاکوں پر گرم ہوا ڈال کر انہیں پانی کر رہے تھے اور چھوٹے دادا کی میت اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے انتظار میں ٹھنڈی ہو رہی تھی۔

وہ آدمی جو کل تک اپنے زور خطابت سے آگ لگا سکتا تھا آج خاموش پڑا ہے۔ ابھی پچھلے جمعے کی بات ہے صدر ضیا کے مرنے پر انہوں نے جمعے کا ایسا خون گرما دینے والا خطبہ دیا کہ مجھ سمیت ہمارے علاقے کے سارے جوان اسلام آباد کوچ کر گئے تاکہ شہید کے جنازے میں شامل ہو کر اپنی آخرت سنوار سکیں۔ جنازے کے بعد صدر ضیا کی موت کا غم غلط کرنے کے لئے میں اور میرے کچھ ساتھیوں نے مری کا چکر بھی لگا لیا تھا۔ چھوٹے دادا صدر ضیا کو امت مسلمہ کا مسیحا سمجھتے ہوئے اکثر فخر سے بتاتے تھے کہ ریفرنڈم میں نہ صرف انہوں نے جنرل صاحب کو سات ووٹ ڈالے ہیں بلکہ اپنے بارہ سال کے پوتے عبدالحمید سے بھی دو پرچیاں ڈلوائی ہیں۔ جب وہ بھرے مجمعے میں میرا نام لیتے تو میرے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اور گردن میں ایک خاص قسم کا تناﺅ آ جاتا جیسے میں نے اسلام کے نام پر مرد مومن کو دو ووٹ ڈال کر دلی کے قلعے پر اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا ہو۔ مجھے لگتا ہے انہوں نے ضیا کا جانا دل پر لے لیا تھا اسی لئے سی ون تھرٹی کے پھٹنے کے بعد ایک ہفتہ بھی نہ نکال سکے اور غسل خانے میں ان کا دل پھٹ گیا۔ ضیا سے پہلے وہ ایوب خان اور نواب کالا باغ کے حامی ہوا کرتے تھے۔ بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ سکوت پسند ہو گئے۔ نہ اس پر تنقید کرتے تھے اور نہ ہی تعریف۔ لیکن 1974 کے سال میں بھٹو نے اوپر تلے دو ایسے کارنامے کئے کہ چھوٹے دادا پر اس کی تعریف کرنا واجب ہو گئی۔ ابا بتاتے ہیں کہ ٹی وی پر شاہ فیصل، یاسر عرفات، عدی امین اور کرنل قذافی جیسے عظیم مسلمان رہنماﺅں کوایک ساتھ لاہور کی شاہی مسجد میں نماز پڑھتا دیکھ کر چھوٹے دادا کی آنکھیں بھیگ گئیں اور انہوں نے روتے روتے فرمایا

”ایوب خان اور مونچھوں کو تاﺅ دے کر مشرقی اور مغربی پاکستان سیدھا کرنے والا نواب صرف باتیں کرتے رہ گئے لیکن لاڑکانے کا سندھی بازی لے گیا۔ میرے اللہ نے اس سے امت مسلمہ کو اکٹھا کرنے کا کام لے ہی لیا “

اسی 74 کے ستمبر میں جب پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو اسلام کے دائرے سے نکالا توچھوٹے دادا نے فرمایا

”جس طرح حجاج بن یوسف نے قران پاک پر اعراب لگوا کے جنت کمائی تھی۔ اسی طرح بھٹو نے قادیانیوں کو کافر قرار دے کر اپنی جنت پکی کر لی ہے۔ وہ ایک شرابی کبابی داڑھی منڈھا اور شیعہ ہونے کے باوجود پکا جنتی ہے “

 ضیا کی آمد کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی اور وہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنے خطبوں میں کل تک کے پکے جنتی کو فاسق فاجر اور نجی محفلوں میں کافر کہنے لگے۔ بھٹو کو پھانسی پر انہوں نے مٹھائی بانٹی تو نہیں لیکن کھائی ضرور تھی۔

میں کفن میں لپٹے چھوٹے دادا پر ایک نظر ڈال کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تاکہ وہاں موجود عورتوں کے پردے میں خلل نہ پڑے۔ اس سے پہلے کہ میں کمرے میں داخل ہوتا برآمدے کے ایک ستون سے ٹکی دادی وزیراں بی بی کی نحیف آواز نے میرے قدم روک لئے

مولوی جی کو تم سے بہت امیدیں تھیں عبدالحمید۔ دادی پانی ہوتی برف پر نظریں جمائے مجھ سے ہمکلام تھیں

کل رات ہی کہہ رہے تھے کی اس سال تراویح میں عبدالحمید کا مصلیٰ سنوں گا۔ دیکھ لو تمہیں مصلے پر دیکھے بغیر چلے گئے۔

اب ان کی نظریں پانی کے قطروں اور کانپتے پنکھوں سے ہوتی ہوئی گھر کے صدر دروازے کی طرف اٹھ گئیں

مردے کو زیادہ دیر گھر میں رکھنا شریعت کے خلاف ہے۔ یہ محمد سعید کب آئے گا؟

بے چین دادی کی خالی آنکھیں غیر اراد ی طور پرکبھی پگھلتی برف اور کبھی اس کھلے دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں جہاں سے چچا محمد سعید نے آنا تھا۔ شاید وہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا برف پگھلنے سے پہلے آکر اپنے ابا کا آخری دیدار کر لے۔ میں کمرے میں جانے کی بجائے دادی کے سامنے اور عورتوں کی طرف پشت کر کے بیٹھ گیا تاکہ میری موجودگی ان کی بے چینی میں کچھ کمی کر سکے۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہ بے چینی خدا کے سوا کوئی کم نہیں کر سکتا۔ میں دادی کا ہاتھ ہاتھ میں لے کر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ دروازے اور برف کے درمیان سعی کرتی دادی کی خالی آنکھیں دروازے پر آکر جم گئیں۔ مجھے یوں لگا جیسے چچا سعید آ گئے ہیں میں نے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا مگر وہاں چچا کی بجائے لنگوٹ بنیان کے نام پر کپڑے کی دو دھجیاں پہنے بڑے دادا اپنا بالوں بھرا سینہ کھجا رہے تھے۔ بڑے دادا کو دیکھ تلاوت کرتیوں کے ہونٹ اور گٹکیں گراتیوں کے ہاتھ رک گئے۔

بڑے دادا غلام رسول نے تیس سال بعد اس گھر میں قدم رکھا تھا۔ ان کو آج سے کوئی تین دہائی پہلے بڑے قبرستان میں ایک جن کا ہاتھ لگا تو وہ کسی کام کے نہ رہے بلکہ اسی جن کی غلامی میں آکر مجذوب ہو گئے۔ اب وہ اسی قبرستان کے ایک کونے میں رہتے تھے۔ ان کی آنکھوں میں اتنا جلال تھا کہ چھوٹے دادا کے علاوہ کسی میں ان کے قریب جانے کی ہمت نہیں تھی۔ وہ ہی پچھلے تیس سال سے بڑے دادا کو دن میں تین بار کھانا دینے جاتے اور پھر خالی برتن لیکر واپس آتے تھے۔ انہوں نے بڑے دادا کے لئے ایک گائے پال رکھی ہے جس کے دودھ کا ایک بڑا گلاس ہر کھانے کے ساتھ جاتا ہے۔ شائد وہ آج تک پچھتاوے کی آگ کو گائے کے دودھ سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ تقسیم کے بعد چھوٹے دادا کو جن قابو کرنے کا شوق چڑھا۔ اس کے لئے وہ عملیات کرتے چلے کاٹتے۔ کوئی جن تو قابو نہیں آیا الٹا ایک ہندو جن نے ان کے بڑے بھائی کو قابو کر لیا۔ ہندو کم بخت خود تو ہندوستان چلے گئے لیکن اپنے جن پاکستان میں چھوڑ گئے چھوٹے دادا کو زندگی میں صرف یہی ایک پچھتاوا تھا کہ ان کے شوق میں بڑے بھائی پر مصیبت آئی ہے۔ جس دن بڑے دادا پر جن آیا انہوں نے اسی وقت گھر چھوڑ کے قبرستان میں ڈیرہ لگا لیا۔ اب وہ نہ گھر کے رہے نہ کسی اور کام کے۔ ان کی جوان بیوی اور میری دادی کی رو رو کر آنکھیں سوج گئیں۔ وہ دن چھوٹے دادا پر بہت بھاری گزرے۔ بڑے دادا کے روحانی علاج کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن جن نے انہیں تو نہیں چھوڑا انہوں نے اپنی بیوی کو ہی چھوڑ دیا۔ جون کی ایک تپتی دوپہر میں وہ ننگے پاﺅں قبرستان سے چل کر اپنے گھر کے دروازے تک آئے اور اپنے پھپھڑوں کی پوری طاقت سے اعلان کیا

”میں غلام رسول ماشکی ولد اللہ داد ماشکی اپنے پورے جنون میں اپنی بیوی وزیراں کو طلاق دیتا ہوں “

اعلان کرنے کے بعد انہوں نے طلاق کے تین ڈھیلے دیوار کے اوپر سے گھر کے صحن میں اچھالے جو دادی کے سامنے گر کر مٹی میں مل گئے۔ اور بڑے دادا ہاتھ جھاڑ کر وہاں سے چلے گئے

جوان بھابھی کی طلاق نے چھوٹے دادا کے پچھتاوے کو اور بڑھا دیا۔ لہذا بزرگوں کے مشورے اور دباﺅ میں آ کر انہوں نے اس سے شرعی نکاح کر لیا۔ میرے ابا بڑے دادا کی اولاد ہیں۔ لیکن مجال ہے جو کبھی انہوں نے ابا کو اپنی اولاد نہ سمجھا ہو۔ انہوں نے سب کے سامنے کئی بار کہا تھا کہ میرے جانے کے بعد امداد احمد علی ہی میرا وارث اور مدرسہ مجیدیہ کا مہتمم ہو گا۔

یہ تو وہ کہانی ہے جو ہمارے خاندان اور پورے علاقے میں مشہور ہے اور ایک کہانی وہ ہے جو مجھے دو دن پہلے بڑے دادا نے سنا کر میرے  دماغ میں ہلچل مچائی تھی۔ دراصل میں تقدیر کا مارا اس دن اپنے استاد مولوی صابر مرحوم کی قبر پر فاتحہ پڑھنے قبرستان چلا گیا۔ میں وہاں سے نکل ہی رہا تھا کہ میرے کانوں میں کسی کی بھاری آواز آئی

”تو امداد کا تخم ہے ناں لڑکے “

یہ سوال سن کر میرے قدم جہاں تھے وہیں رک گئے۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے دل ہی دل میں جنوں سے بچاﺅ کا وظیفہ پڑھ کے اپنے گرد حصار باندھنا شروع کر دیا

”ادھر ادھر کیا دیکھتا ہے اوپر دیکھ تیرے باپ کا باپ تیرے سر پر بیٹھا ہے “۔ آواز دوبارہ مجھ تک آئی

میں نے وظیفہ پڑھتے پڑھتے اوپر آنکھ اٹھائی تو دیکھا کہ میرے سر کے عین اوپر پیلو کے ایک درخت کی سب سے مضبوط شاخ پر بڑے دادا بیٹھے اس کی شاخوں سے پیلو چن رہے ہیں اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا وہی بول پڑے

”تیری شکل مجھ سے بہت ملتی ہے مجھے لگتا ہے تو امداد کا ہی ہے۔ بول ہے کہ نہیں؟“

”ہوں بڑے دادا ہوں“۔ ۔ یہ جملہ گولی کی تیزی کے ساتھ میری زبان سے نکلا

یہ سنتے ہی بڑے دادا آہستہ آہستہ درخت سے نیچے اترنے لگے۔ اور میں اپنی جگہ پر منجمد کھڑا وظیفہ پڑھتا اور یہ سوچتا رہا کہ انہوں نے آج تک علاقے کے کسی انسان کو بات کرنے کے قابل نہیں سمجھا سالوں سے چپ کے روزے ہیں لیکن آج مجھ سے کیوں ہمکلام ہو رہے ہیں اس سے پہلے کہ میرا دماغ مجھے اس سوال کا جواب دیتا بڑے دادا میرے سامنے آکھڑے ہوئے۔ انہوں نے مٹھی کھولی جس میں دبے پیلو ہتھیلی کے پسینے سے بھیگ رہے تھے

”پک گئے ہیں۔ کھا لے“ انہوں نے مجھے حکم دیا

میں نے ڈرتے ڈرتے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا انہوں نے سارے پیلو میری ہتھیلی پر منتقل کئے اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا حکم دے کر اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑے۔ میں مٹھی میں دبے پیلو کسی جھاڑی میں پھینکنے ہی والا تھا کہ انہوں نے چلتے چلتے گردن موڑکر پیچھے دیکھا اور میرا ہاتھ کرنٹ کی تیزی سے اپنے منہ کی طرف اٹھ گیا اور میں نے سارے پیلو ایک ہی ہلے میں حلق سے نیچے اتار لئے۔ اگلے چند لمحوں میں ہم ان کے ٹھکانے پر پہنچ چکے تھے۔ ٹھکانہ کیا تھا ایک بڑے سے سوکھے درخت کے تنے میں بنی ایک قدرتی کھوہ تھی جس میں بمشکل ایک ہی بندہ بیٹھ سکتا تھا اور اگر لیٹنے کا موڈ ہو تو گھٹنوں کو سینے سے لگا ئے انگریزی کا آٹھ بنے لیٹ بھی سکتا تھا۔ یوں سمجھیں یہ کھوہ سر چھپانے کی جگہ تو تھی ٹانگیں پھیلانے کی نہیں۔ میں اس ٹھکانے کی وسعتوں میں کھونے ہی والا تھا کہ بڑے دادا کی بھاری آواز کا ہتھوڑا سوال کی شکل میں میرے سر پر پڑا

نام کیا ہے تیرا لڑکے؟

عبدالحمید دادا جی۔ میں نے فوراً جواب دیا

بیٹھ جا۔ کیوں سوکھے چمڑے کی طرح میرے سامنے اکڑا کھڑا ہے۔ بیٹھ

بڑے دادا کے حکم کی تعمیل میں میں جہاں کھڑا تھا وہیں بیٹھ گیا۔

ہابیل قابیل کاقصہ سنے گا ؟ دادا نے سوکھے تنے سے ٹیک لگاتے ہوئے پوچھا

اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا انہوں نے قصہ سنانا شروع کر دیا

”میں نے کل رات خواب میں دیکھا سفید کفن میں لپٹی میری لاش گھر کے آنگن میں رکھی ہے۔ کچھ لوگ لاش کے اردگرد بیٹھے قطار گوٹی کھیل رہے اور کچھ سپ کی بازی لگا رہے ہیں۔ ایک مکروہ شکل کی بڑھیا میرے مردہ منہ میں دودھ ٹپکا رہی ہے۔ میرے علم کے مطابق اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ میں اس دنیا سے جانے والا ہوں۔ صبح سے سوچ رہا تھا کہ کوئی آئے اور میں اسے ہابیل قابیل کا قصہ سنا کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا اور سننے والے کی روح کو بھاری کروں۔ ہاں تو عبدالحمید قصہ شروع ہوتا ہے تقسیم سے پہلے جب اس گاﺅں میں ہندومسلمان اکٹھے رہتے تھے۔ سکول پڑھا ہے تو؟ “ انہوں نے اچانک سوال کیا

”جی ہاں اپنے گاﺅں کے سکول میں تین جماعتیں پڑھی تھیں پھر مدرسے آگیا تھا“

میں نے ایک جملے میں اپنا سارا تعلیمی سفر دادا کے سامنے رکھا

”تو جس سکول میں پڑھا ہے اس کا سب سے پہلا ماسٹر لکھی رام کھتری تھا۔ عمر میں تو مجھ سے دس سال بڑا تھا لیکن تھا میرا یار۔ کھتری ہونے کے باوجود میرے ساتھ ایک ہی تھالی میں کھاتا تھا۔ جب 47 میں ادھر تم ادھر ہم ہوا تو سارے ہندو گاﺅں چھوڑ کر ہندوستان نکل گئے لیکن لکھی رام نے کہا میں نہیں جاﺅں گا۔ مجھے یہاں کوئی خطرہ نہیں۔ سارا گاﺅں میرا شاگرد ہے۔ کوئی بدنصیب ہی ہو گا جو اپنے استاد کے جان مال پر ہاتھ ڈالے گا۔ یہیں پیدا ہوا ہوں یہیں مروں گا۔ جس دن اس نے اعلان کیا اسی کی رات کوئی حرامی ماسٹر کے گھر کی دیوار کود کے اس کی گائے کلے سے کھول کر لے گیا۔ اگلی صبح گائے گاﺅں کے چوک میں کٹی ملی۔ لکھی رام اشارہ سمجھ گیا۔ میرا یار گاﺅں چھوڑنے والا آخری ہندو تھا “

یہ کہتے ہوئے بڑے دادا کی آواز میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہو گئی اور وہ چند لمحے کے لئے خاموش ہو گئے۔ اور ان کی نظریں گاﺅں سے باہر جانے والی سڑک پر ایسے جم گئیں جیسے وہ اسی سڑک پر اپنے یار کو جاتا دیکھ رہے ہیں۔ وہ کافی دیر بت بنے سڑک کو اور میں انہیں دیکھتا رہا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ کسی گری قبر سے نکل کر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے نیولوں کی جوڑی نے ان کا دھیان توڑا اور وہ بجلی کی تیزی کے ساتھ اپنی کھوہ سے نکل کر نیولوں کو موٹی موٹی گالیاں بکنے لگے

”دفع ہو جاﺅ مردے خورو۔ سارے قبرستان کا امن برباد کر دیا تم سب نے مل کر۔ تمہاری ماں کے ساتھ کرنل جیمز اور نمبردار انجھو برا کریں حرام کے تخمو۔ خبردار اب نہ آنا “

کرنل جیمز تحصیل میں بیٹھنے والا کوئی انگریز افسر تھا جس کے گھر اور دفتر میں ہمارے گاﺅں کے نمبردار انجھو کے حکم سے بڑے دادا مشکوں میں پانی بھر بھر پہنچاتے تھے۔ نیولوں پر گرجنے کے بعد وہ دوبارہ اپنے آستانے میں بیٹھ گئے اور اپنا قصہ مجھے سنانے لگے

”لکھی رام اپنے گھر کی چابیاں حوالے کرتے ہوئے بولا غلام رسول ہم جا رہے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے نہیں۔ ہمارا وطن کون چھین سکتا ہے۔ یہ گرد کچھ دنوں میں بیٹھ جائے گی۔ تب تک میرا گھونسلا تیرے حوالے میرے یار۔ جیسے ہی حالات اچھے ہوں گے۔ میں تیری بھابھی اور بچوں کو لیکر واپس آجاﺅں گا۔ لیکن لکھی رام واپس نہیں آیا۔ ہاں بھٹو کی شاہی میں بنگال کی جنگ لگنے سے پہلے اس کا بڑا بیٹا اور میرا بھتیجا راجندر آیا تھا۔ اس کا قصہ آگے سناﺅں گا پہلے ہابیل قابیل کی سن لے۔ دنوں پر دن اور سالوں پر سال گزر گئے بٹوارے کی گرد نہ بیٹھی نہ لیٹی۔ میں دن میں دو بار لکھی رام کے گھر جاتا اس کے خالی کمروں کو کھول کے ہوا لگواتا۔ بند مکانوں کو ہوا نہ لگے تو ان کی بنیادوں میں سیم لگ جاتی ہے۔ پانی بھر جاتا ہے عبدالحمید۔ یہی حال دلوں کا ہے جو بندے دلوں کو تالے لگا لیتے ہیں ان کی رگوں میں زنگ اور پھپھڑوں میں پانی بھر جاتا ہے۔ بند مکان کھڑے کھڑے ڈھے جاتے ہیں اور دل بند ہو جاتے ہیں۔ میں جب تک زندہ رہا لکھی رام کے مکان کو نہیں گرنے دیا۔ ہاں جس دن میں مرا اسی دن مجیدے نے اس پر قبضہ کر کے وہاں مدرسہ کھول دیا۔ اس حرامی کی کب سے نظر تھی پرائے مال پر۔ اسی نے لکھی رام کی گائے کاٹ کے اسے مجبور کیا تھا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کے چلا جائے۔ “

چھوٹے دادا کا نام لیتے ہی بڑے دادا کی آنکھوں میں ایک عجیب سی وحشت اتر آئی تھی۔

”ایوب جرنل کی شاہی آنے سے کئی سال پہلے مجیدے نے مجھ سے کہا کہ لالہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اب ہندو واپس آئیں۔ اس لئے تم لکھی رام کے گھر کی چوکیداری چھوڑو۔ اللہ کے نام پر مدرسہ بنے گا تو تمہیں قیامت تک ثواب ہو گا۔

میں نے اٹھایا ڈنڈا اور کہا دفع ہو جا لوبھی۔ بڑا ملا بنا پھرتا ہے حرامی۔ خبردار جو تو نے میرے یار کے مکان پر نظر رکھی۔

اب تو ذرا اپنے دل کو جکڑ کے بیٹھ حمیدے۔ ہابیل قابیل کی کہانی میں عورت آنے والی ہے “

دادا نے یہ کہ کر آنکھیں بند کیں اور ایک گہری سانس لی۔ وہ کافی دیر آنکھیں بند کئے بیٹھے رہے جیسے کوئی بڑی بات کرنے سے پہلے ہمت اکٹھی کر رہے ہوں۔ قصے میں عورت کی آمد کی خبر سن کر میرے اعصا ب بھی تن گئے

”اس دن ایسی گرمی تھی جیسے فرشتوں نے دوزخ کے سارے دروازے کھول دئیے ہوں۔ رانجھو نمبردار کے کھیتوں میں گندم کاٹ کاٹ کر میری زبان لوسی کتے کی طرح لٹکنے لگی تھی۔ میں نے سوچا باقی کی کٹائی سورج ڈھلنے پر کر لوں گا اس لئے اپنے سر پر گیلا صافہ ڈالا اور گھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ تاکہ تیری دادی سے کچی لسی کی ایک بڑی بالٹی بنوا کے پی جاﺅں لیکن جونہی گھر پہنچا تیری دادی اور مولوی مجیدے کو ایک ساتھ دیکھ کر میری ساری گرمی سردی میں بدل گئی۔

ایک ساتھ مطلب؟ میں نے پھٹی آنکھوں کے ساتھ اچانک سوال داغا

بڑے دادا نے ایک ساتھ کو لفظوں میں بیان کرنے کی بجائے دنوں ہاتھوں سے کچھ ایسے اشارے کئے کہ میرے کانوں سے دھوئیں نکلنے لگے۔ مجھے ان کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔ مجھ میں اب وہاں بیٹھ کر بڑے دادا کی خرافات سننے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ میں وہاں سے اٹھ کر اپنے راستے پر چل دیا۔ لیکن بڑے دادا کا قصہ چلتا اور میرے کانوں تک پہنچتا رہا

”دل تو کر رہا تھا کہ دونوں کو مار ڈالوں لیکن اندر سے بزدل ہوں۔ ذات کا ماشکی ہوں۔ اس لئے دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر یہاں بیٹھا ہوں تیس سالوں سے۔ رک عبدالحمید۔ ادھر آ۔ تو نے میرے جو پیلو کھائے ہیں ان کا حق ادا کر۔ “دادا کے لہجے میں لجاجت تھی

میں واپس ان کی طرف پلٹا اور اسی ٹوٹی قبر پر بیٹھ گیا جس پر پہلے بیٹھا ہوا تھا۔

کون سا حق؟ میں نے بیٹھتے ہوئے پوچھا

 ”بھٹو کی شاہی میں راجندر آیا تھا میرے پاس یہیں قبرستان میں اپنے باپ کا خط لے کر۔ وہ بے چارہ اپنے گھر پر مدرسہ اور مجھے بے گھر دیکھ کر سمجھ گیا کہ چاچا غلام رسول کچھ نہیں بچا سکا۔ وہ مجھے دیکھتا رہا اور میں اسے۔ نہ اس نے کچھ کہا نہ میں نے۔ پھر وہ اپنے باپ کا لکھا خط دے کر چلا گیا۔ ان پڑھ ہوں پڑھ نہیں سکتا۔ نہ اتنے سالوں میں کسی سے پڑھوانے کی ہمت ہوئی۔ “

 بڑے دادا نے درخت کی کھوہ کے ایک پوشیدہ کونے میں ہاتھ ڈال کے چمڑے میں محفوظ کیا ہوا ایک کاغذ نکال کے میرے سامنے کیا

”اب مرنے والا ہوں۔ خواب دیکھا ہے۔ مرنے سے پہلے یار کی یار سے ملاقات کرا دے۔ میرے کھائے پیلو حلال کر۔ “

انہوں نے خط میرے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا میں نے کئی تہوں میں لپٹے اس کاغذ کو کھول کر پڑھنا شروع کیا۔

میرے پیارے بھائی غلام رسول السلام علیکم

وعلیکم السلام۔ ۔ نظریں جھکائے دادا نے آہستہ سے کہا

بعد از سلام دعا ہے کہ پرماتما تمہیں ہمیشہ سکھی رکھے۔ تم بھی کہو گے آج اتنے سالوں بعد لکھی رام اپنا مردہ کہاں سے نکال لایا۔ تو بھائی بات دراصل یہ ہے کہ تمہاری دونوں بھتیجیوں کرشنا دیوی اور منگلا دیوی کے رشتے طے ہو گئے ہیں۔ اسی سال پوہ میں ان کی رخصتی کی تاریخوں کا مہورت نکلا ہے۔ تمہیں تو پتہ ہے ہم سانس بھی مہورت کے حساب سے لیتے ہیں۔ (تم ہمیشہ مہورت پر سانس والی بات کرتے اور میرا مذاق اڑاتے تھے۔ یاد ہے؟ )

سب یاد ہے لکھی رام سب یاد ہے۔ دادا کی آواز میں گرتے آنسو مجھے سنائی دے رہے تھے لیکن میں نے خط پڑھنا جاری رکھا

راجندر کو اس لئے تمہارے پاس بھیج رہا ہوں کہ اگرتمہارے پاس وقت ہو تو میرے مکان کا جتنی قیمت میں بھی سودا ہوتا ہے کر دو اور جو رقم ملتی ہے اس کو دے دو تاکہ کرشنا اور منگلا کو عزت سے رخصت کر سکوں۔ میں اس کام کے لئے خود تمہارے پاس آتا لیکن مجبوری ہے نہیں آ سکتا۔ اب مجبوری بھی سن لو۔ دو سال پہلے دائیں طرف فالج گر گیا تھا چلنے پھرنے سے معذور ہوں۔ بس دعا کرو پوہ تک زندہ رہوں۔ پھر سکون سے مر جاﺅں۔ اپنا گاﺅں اور لوگ بہت یاد آتے ہیں۔ اپنے اللہ پر یقین کرو مجھے تو سارے خواب ہی اپنے گاﺅں کے آتے ہیں۔ سب خوابوں میں گاﺅں کا ایک ایک بندہ ہوتا ہے۔ تمہارے بچوں کا کیا حال ہے۔ امداد کے بعد کتنے بچوں کے باپ بنے ہو؟ چھوٹے بھائی عبدالمجید کا کیا حال ہے۔ اسے بھی کئی بار خواب میں دیکھا ہے۔ بہن وزیراں بی بی کو میرے سلام ضرور دینا اور اسے کہنا اس کی سہیلی درگا اسے بہت یاد کرتی تھی۔ تمہاری بھابھی اور راجندر کی ماں درگا بے چاری پچھلے سال گزر گئی تھی۔ اس کی آتما کی شانتی کے لئے دعا کرنا۔

راجندر یہاں ایک سکول میں ماسٹری کرتا ہے۔ تم اسی سے یہ خط پڑھوا لینا اور اس کا جواب بھی اسی سے لکھوا لینا۔ یہ خط بھی میں نے راجندر سے لکھوایا ہے۔ ہو سکے تو اپنی ‘بھائی عبدالمجید اور گاﺅں کے باقی دوستوں اور میرے سکول کی کوئی تصویر بھی بھیج دینا۔ بس میرے بھائی کوشش کرنا کہ مکان کی اتنی قیمت مل جائے کہ تمہاری بھتیجیوں کا فرض عزت سے ادا ہو جائے۔ سب چھوٹو ں کو پیار اور بڑوں کو سلام۔

تمہارا بھائی۔ ماسٹر لکھی رام کھتری

مورخہ دو مارچ 1970

خط پر لکھی تاریخ پڑھ کر میں نے اسے تہہ کیا اور دادا کی طرف دیکھا۔ وہ سر جھکائے سسکیوں سے رو رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے بہنے والے موٹے موٹے آنسو کچی زمین پر گر رہے تھے۔ نمبردار رانجھو کی قبر سے نکلنے والے پتلی ٹانگوں اور موٹے پیٹوں والے کالے سیاہ چیونٹوں کی ایک قطار زمین پر گرے ان آنسوﺅں سے بچ کر کسی بے کتبہ قبر کی طرف جا رہی تھی۔ میں نے تہہ شدہ خط دوبارہ چمڑے میں لپیٹا اور بھاری دل لئے وہاں سے چل دیا۔

دروازے کی دیلیز پر کھڑے بڑے دادا صحن میں رکھی چھوٹے دادا کی لاش کو دیکھے جا رہے تھے۔ وہاں موجود عورتوں میں کھسر پھسر شروع ہو گئی تھی کہ بڑے دادا اپنے چھوٹے بھائی کا آخری دیدار کرنے آئے ہیں۔ بڑے دادا آہستہ آہستہ چارپائی پر رکھی لاش کی طرف بڑھے لیکن اس پر کوئی نظر ڈالے بغیر سیدھا اس چھپر کی طرف بڑھ گئے جس کے نیچے گائے بندھی تھی۔ انہوں نے گائے کے تھنوں کی طرف اپنا سر جھکایا اور اپنے کھلے منہ میں دودھ کی دھاریں مارنے لگے۔ جب گائے کے تھن خالی ہو گئے اور ان کا پیٹ بھر گیا تو وہ وہاں سے اٹھے۔ دودھ کے قطرے ان کی لمبی میلی کچیلی داڑھی سے گر رہے تھے۔ وہ چھپر سے نکلے اور آکر چھوٹے دادا کی لاش پر رک گئے۔ اچانک انہوں نے چھوٹے دادا کی بند آنکھوں میں رکھے گئے خانہ کعبہ کے غلاف کے کالے دھاگے نکالے۔ ادھر انہوں نے دھاگے نکالے ادھر ساری عورتوں کے منہ سے ہائے اللہ کی آواز ایک ساتھ نکلی۔ لیکن کسی میں بڑے دادا کے جلال کے آگے کھڑا ہونے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ انہوں نے دھاگے  نکالنے کے بعد بڑے دادا کے دودھ جیسے سفید کفن سے اپنی میلی داڑھی میں اٹکا دودھ صاف کر کے اسے داغدار کر دیا۔ اور صرف اتنا کہا۔ ۔

” جا مجیدے۔ لکھی رام تیرا انتظار کر رہا ہے “

یہ کہہ کر وہ جہاں سے آئے تھے وہیں سے باہر نکل گئے۔ دادی کا اترا چہرہ دیکھ کر مجھے بڑے دادا کے ہاتھوں سے کئے وہی اشارے یاد آگئے اور میں بڑے دادا کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا۔

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments