جویریہ صدیق کے کالم کے جواب میں!


آج ملک کے موقر روزنامہ میں چھپنے والے کالم بعنوان ”خواتین ڈاکٹرز کہاں ہیں؟“ میں محترمہ جویریہ صدیق صاحبہ نے ایسی خواتین کے بارے میں بات کی ہے کہ جو ڈاکٹری کی تعلیم تو حاصل کر لیتی ہیں پر عملی طور پر اس شعبے میں آنے کی بجائے گھر داری اور دیگر کاموں میں مشغول ہو کر اس اہم شعبے کی تعلیم کو طاق نسیاں پر رکھ دیتی ہیں۔ یوں ان کی تعلیم کا قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔

اور یہ کالم پڑھ کر میرے دماغ میں خیال آیا کہ اس مسئلے کے حوالے سے میری بھی کچھ یہی سوچ ہے۔ کچھ اسی قسم کے خیالات ہمارے ذہن میں بھی گزشتہ ایک دہائی سے اس وقت سے دوڑ رہے تھے جب ینگ ڈاکٹرز  نے ہڑتال کر دی تھی اور کئی سو مریض محض ڈاکٹروں کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مر گئے تھے۔ اور ینگ ڈاکٹرز کے نمائندے بڑی معصومیت سے ٹی وی پر بیٹھ کر کہتے تھے کہ ہم کیا کریں، حکومت ہمارے مطالبات مان نہیں رہی ہے تو ہڑتال کرنا ہمارا جمہوری حق ہے۔ جب بھی ڈاکٹر ہڑتال کرتے ہیں تو اس کی سزاء مریضوں کو اپنی جان دے کر بھگتنی پڑتی ہے

پہلی بات تو یہ کہ اگر ہڑتال کرنا ڈاکٹروں کا حق ہے تو زندگی جینا مریضوں کا حق ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ یہ جو ڈاکٹر صاحبان، طب کی تعلیم حاصل کرنے سے پہلے کہتے ہیں کہ ہم دکھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اپنے اس وعدے کو عملی شکل میں پورا بھی کریں۔

ان ڈاکٹر صاحبان کی خوش قسمتی دیکھیے کہ انہوں نے ایک ایسے اعلٰی اور قابل احترام شعبے کی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے کہ، ڈاکٹروں کو بے روزگاری کا ویسا سامنا نہیں کرنا پڑتا جیسا دیگر تعلیم یافتہ افراد کو کرنا پڑتا ہے اور معاشرے میں عام طور پر انتہائی احترام کا سلوک ہوتا ہے۔ لوگ ڈاکٹر داماد یا بہو پانے کے لیے کتنے جتن کرتے ہیں۔ یعنی مختصراً ڈاکٹر کی تعلیم پاء کر ان کی ان کی زندگی سنور جاتی ہے۔ لیکن سرکار کی کسی غلطی یا غفلت کا غصہ ہم عوام پر نکالا جاتا ہے۔

اور یہ ڈاکٹر ہم عوام کو ایک ایسے معاملے کی سزا دیتے ہیں کہ جس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ اسی طرح کئی ایک دفعہ کسی ڈاکٹر پر کوئی مجرم قاتلانہ حملہ کر کے فرار ہو جائے تو بھی ڈاکٹر ہڑتال کر دیتے ہیں کہ جب تک ہمارے ساتھی پر حملہ کرنے والے کو گرفتار نہیں کیا جائے گا ہم مریضوں کی کوئی خبر گیری نہیں کریں گے۔ کئی دفعہ ایسی صورت میں مریض ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اب ذرا یہاں آپ ان ڈاکٹروں کے دوہرے معیار اور موقف کے تضاد کو دیکھیے کہ ان کے ساتھی ڈاکٹر کی زندگی اتنی اہم ہوتی ہے کہ اس پر حملہ کرنے والے کو پکڑے جانے تک یہ ہڑتال کر رہے ہوتے ہیں لیکن دوسری جانب عام مریض کی جان ڈاکٹر کے نہ ہونے سے چلی جائے تو ان کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔

حالانکہ وہ مریض بھی تو کسی کا پیارا، کسی کی امیدوں کا مرکز ہوتا ہے۔ اور پھر کسی پر قاتلانہ حملہ ہونا صرف ڈاکٹروں تک محدود تو نہیں ہے۔ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پر قاتلانہ حملے کی خبر ہر چند دنوں بعد ذرائع ابلاغ میں آجاتی ہے۔ اگر ڈاکٹروں کی اس منطق کو زندگی کے دیگر شعبوں پر منطبق کر دیا جائے تو پھر کسی مکینک پر حملہ ہونے کی صورت میں ملک بھر کے مکینکوں کو ہڑتال کر دینی چاہیے۔ اسی طرح کسی ہوٹل والے پر حملہ ہونے کی صورت میں ملک بھر کے ہوٹلوں کی انجمن کو اپنے ہوٹل بند کر دینے چاہیں۔

اسی طرح کسی کریانہ کے دکاندار پر حملہ ہو تو ملک بھر کے دکانداروں کو کریانہ کی دکانیں بند کر دینی چاہیں۔ اسی طرح فرنیچر ساز، ویلڈنگ، اور زندگی کے دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں کو بھی ڈاکٹروں کی پیروی کر دینی چاہیے۔ لیکن کیا آپ نے ڈاکٹروں کے علاوہ زندگی کے کسی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو، سوائے وکلاء کے، ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ نہیں ناں! کیونکہ اگر ایسا ہونے لگے تو پھر تو مملکت کا سارا کاروبار ہی ٹھپ ہو کر رہ جائے کہ ہر روز زندگی کے کسی نہ کسی شعبے سے تعلق رکھنے والا قتل ہو جاتا ہے۔ اور پھر ڈاکٹروں کی ہڑتال کا جواز اس لیے بھی نہیں رہتا کہ عام مریضوں نے تو ان کے ساتھی پر حملہ نہیں کیا ہوتا، بلکہ عوام نے تو اپنے خون پسینے کی کمائی کا ایک حصہ ٹیکسوں کی صورت میں ڈاکٹروں کی تعلیم پر خرچ کیا ہوتا ہے، تو ان کو کس بات کی سزاء مل رہی ہوتی ہے۔ ؟

تو اب اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ حل یہ ہے کہ بجائے ڈاکٹر بننے کے امیدوار کے لیے خواہ مخواہ پری میڈیکل میں زیادہ سے زیادہ نمبروں کی بے معنی دوڑ کے، کہ ایسے مقابلے میں پانچ دس کم نمبر لینے بھی اتنے کند ذہن نہیں ہوتے۔ ایسے امیدوار سے عہد لیا جائے کہ آپ لوگ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انسانی زندگی بچانے کا حلف بھی اٹھا رہے ہیں تو آپ کو اس حلف کی ہر حال میں پاسداری کرنا ہوگی۔ اس لیے ڈاکٹر بننے کے بعد آپ سرکار سے کسی معاملے کی شکایت کی صورت میں ہڑتال کرنے کے حق کو استعمال نہیں کر سکتے اور اگر آپ نے ایسا کیا اور آپ کے ہڑتال کرنے کی وجہ سے کسی کی جان چلی گئی تو آپ پر قتل کا مقدمہ چلے گا اور لازما سزا ہوگی۔

اگر امید وار اس شرط کو مانے تو تبھی اسے داخلہ دیا جائے، ورنہ نہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم ڈاکٹروں کو ہڑتال کرنے کے آئینی حق سے محروم کر کے ان کو اپنے جائز مطالبات پیش کرنے کے حق سے بھی محروم کرنا چاہ رہے ہیں۔ نہیں، ایسی بات نہیں۔ اگر ڈاکٹروں کو کوئی جائز شکایت ہو تو اس حوالے سے یہ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر اپنی نوکری کے اوقات کار پورے کر کے فارغ وقت میں احتجاج کریں۔ اس کے علاوہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹروں کی جگہ زندگی کے کسی ایسے دوسرے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد ڈاکٹروں کے حق میں ہڑتال کریں کہ جن کے ہڑتال کرنے سے کسی کی جان نہ جائے۔ مثلاً وکیل، ڈاک، ریلوے کے ملازم، پٹواری اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد۔ اور یہ کوئی اتنی دور کی کوڑی نہیں ہے۔ ؎

ستر کی دہائی میں برطانیہ کے ڈاکٹروں کے مطالبات منوانے کے لیے لیبر یونین نے ڈاکٹروں کی جانب سے ہڑتال کر دی تھی تاکہ ڈاکٹر آرام سے مریضوں کی دیکھ بھال کی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں اور عوام کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ تو یہ کام موجودہ دور میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹروں کی انجمنیں زندگی کے دیگر شعبہ جات کی انجمنوں سے معاہدے کریں کہ وہ ان کی جگہ پر ہڑتال کریں گے تاکہ ڈاکٹر حضرات پورے سکون سے مریضوں کی دیکھ بھال پر توجہ دے سکیں۔

اس کے علاوہ قانون بنایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹروں کے تنخواہ بڑھانے یا مستقل ملازمت دینے یا ڈاکٹروں کی جان کے تحفظ کے حوالے سے حکومت سے پھڈے کی صورت میں ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم عدالت عظمٰی میں اس معاملے کے حوالے سے عرضی پیش کرے گی اور عدالت روزانہ کی بنیاد پر سماعت کر کے ایک ماہ کے اندر اندر اس کا فیصلہ کرے گی اور چونکہ عدالت عظمٰی ملک میں انصاف فراہم کرنے کا حتمی و آخری ادارہ ہے تو دونوں فریق اس کے فیصلے کو تسلیم کریں گے۔

اور جہاں تک خواتین کے یا مردوں کے بھی ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر کے کسی دوسرے شعبۂ زندگی کو اختیار کرنے اور یوں ڈاکٹری کی تعلیم سے عوام کو کوئی فائدہ نہ ملنے کے مسئلے کا سوال ہے، تو اس حوالے سے یہ کیا جائے کہ ہر امیدوار سے کہا جائے کہ حلف لکھ کر دیں کہ اگر آپ والدین یا کسی دوسرے کو خوش کرنے کے مقصد سے نہیں بلکہ صحیح معنوں میں شعبۂ طب کو اختیار کرنے کے لیے ذہنی طور پر سو فیصد تیار ہیں تو تب ہی داخلہ لیں۔

آپ اب سو فیصد بالغ ہیں اور اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار ہیں، اور اگر آپ نے بعد میں اسے بطور پیشہ کم از کم اگلے بیس سالوں کے لیے اختیار نہ کیا تو آپ پر کم از کم دو ڈاکٹروں کی تعلیم کے پورے اخراجات ادا کرنے کا جرمانہ ہو گا کہ آپ کے ڈاکٹر بننے کے لیے سو فیصد ذہنی طور پر تیار نہ ہونے کی وجہ سے کسی ایسے امیدوار کے، جو یہ پانچ سال کی تعلیم حاصل کر کے طب کے شعبے کو بطور پیشہ اختیار کرتا اور کتنے ہی افراد کی زندگیاں بچانے کا سبب بنتا، ضائع کر دیے ہیں۔ پھر کوئی محض اپنے والدین کو خوش کرنے اور اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھوانے کے شوق میں منہ اٹھا کر طب کی تعلیم حاصل کرنے نہیں آئے گا بلکہ صرف وہی داخلہ لیں گے جو سو فیصد پورے خلوص دل سے طب کے شعبے کو اختیار کرنا چاہتے ہوں گے۔

ڈاکٹر صاحبان سے بھی دست بستہ عرض ہے کہ سرکار کی کوتاہی یا غفلت کی سزا بے گناہ عوام کو نہ دیں۔ ڈاکٹر صاحبان معاشرے کی خدمت کرتے ہیں، خاص طور پر موجودہ کرونا کی وبا کے دوران ڈاکٹر صاحبان اپنی جانیں انتہائی خطرے میں ڈال کر لوگوں کی زندگیاں بچانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی صرف تعریف ہی کی جا سکتی ہے لیکن بے گناہ عوام کو کسی دوسرے کے کیے کی سزا دے کر ان کی جان لینا طب کے مقدس پیشے کی نفی ہے۔ یہ کہاوت مشہور ہے کہ اگر ڈاکٹر اچھے اخلاق سے پیش آئے تو مریض کی آدھی بیماری تو ویسے ہی چلی جاتی ہے۔

وہ خواتین و حضرات جو کسی وجہ سے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرلیتے ہیں مگر باقاعدہ اپناتے نہیں، وہ کم از کم یہ کر سکتے ہیں کہ اپنے محلے میں جمعے کے دن یا چھٹی کے دن لوگوں کو مفت معائنہ کر کے دوائی لکھ دیں۔ ڈاکٹر صاحبان سے گزارش ہے کہ ڈاکٹر روتھ فاؤ جیسا بنیں جن کی اپنے اور غیر سبھی تعریف کرتے ہیں۔ ایسی چند ایک مثالوں سے تو ہم ذاتی طور پر بھی واقف ہیں۔ ہم ایک ڈاکٹر صاحب سے ذاتی طور پر واقف ہیں کہ جو اس زمانے میں کہ جب عام ڈاکٹر تین سو روپے معائنہ کا معاوضہ لیتے تھے وہ صرف پچاس روپے لیتے تھے کیونکہ ان کی والدہ نے انہیں کہا تھا کہ دوسرے چاہے جتنا بھی معاوضہ بڑھا لیں تم صرف پچاس روپے فیس لو گے اور وہ والدہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے صرف پچاس روپے لیتے تھے۔

اسی طرح ایک اور ڈاکٹر صاحب کہ جن کا انتقال ہو چکا ہے، وہ اپنے امیر مریضوں سے تو خوب معاوضہ لیتے تھے مگر غریب مریضوں سے نہ صرف معائنہ کا معاوضہ نہیں لیتے تھے، بلکہ اپنی طرف سے انہیں مفت دوائی بھی دے دیتے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر مریض اتنا بیمار ہوتا کہ وہ ان کے مطب تک چل کر نہ آ سکتا تو وہ اپنی گاڑی میں بغیر معاوضہ کے مفت ان کے گھر جا کر مریض کا معائنہ بھی کرتے اور دوائی بھی اپنی طرف سے مفت دیتے۔

خوش اخلاق اتنے کہ مریض مرنے کے قریب ہوتا لیکن ان کے اچھے رویے سے خوش ہو کر جلد ہی ٹھیک ہو جاتا۔ ان ڈاکٹر صاحب کا انتقال بھی اپنی ہمدردی سے ہوا کہ وہ اپنے موٹر سائیکل پر گھر واپس آرہے تھے کہ اچانک ان کے سامنے ایک کتا آ گیا۔ کتے کی جان بچاتے ہوئے وہ موٹر سائیکل پر قابو نہ پا سکے اور ایک درخت سے ٹکرا گئے جس سے انہیں سر پر شدید چوٹیں آئیں اور وہ انتقال کر گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments