آکسس معاہدہ: بحرالکاہل کے پانیوں پر نئی سرد جنگ


ممتاز ماہر سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات، میکنڈر کا جیو پولیٹیکل تجزیہ عالمی سیاست میں سمندری پانی کی اہمیت بیان کرتا ہے۔ جس کا تجزیہ ہے کہ جو ملک سمندری جزیروں یعنی پانی کی گزرگاہوں جہاں سے دنیا کی 95 فیصد تجارت ہوتی ہے کو کنٹرول کرے گا دراصل وہ دنیا کو کنٹرول میں رکھے گا۔ آکس دفاعی معاہدے کو بھی اسی سیاق و سباق میں دیکھا جانا چاہیے کیونکہ چین بحرالکاہل پر بہت تیزی کے ساتھ قدم جما رہا ہے اسی میں رخنہ ڈالنے کے لئے یہ سہ فریقی معاہدہ ہوا ہے۔

اس معاہدے کے مطابق آسٹریلیا کو ایٹمی صلاحیت رکھنے والی آبدوزیں مہیا کی جاتی گی۔ اس کے علاوہ، تینوں ممالک سائبر سیکیورٹی، ڈرون ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، زیر سمندر فائبر آپٹکس اور کوانٹم ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اس معاہدے پر فرانس اور چین نے سخت تنقید کی ہے۔ فرانس، جس نے 2016 می آسٹریلیا کو آبدوزوں کی فراہمی کا معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت آسٹریلیا کو 66 ارب ڈالر مالیت کی 12 آبدوزیں فراہم کرنا تھا۔

اب آکس معاہدے کی وجہ سے فرانس اور آسٹریلیا کا معاہدہ ختم ہو گیا ہے۔ جس پر فرانس کی حکومت نے شدید احتجاج کیا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ جین یوز لی ڈریان نے کہا کہ ہم نے آسٹریلیا کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کیا تھا، لیکن انہوں نے اسے توڑ دیا ہے جو کہ پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے برابر ہے۔ فرانسیسی حکومت نے امریکہ اور آسٹریلیا سے اپنے سفیروں کو بھی طلب کیا ہے۔ دوسری طرف، چینی دفتر خارجہ نے اس معاہدے کو یہ کہتے ہوئے غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے کہ اس سے ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافہ ہو گا۔

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چین جنوبی بحرالکاہل میں اپنی موجودگی میں اضافہ کرتا رہا ہے۔ اور جنوبی بحرالکاہل کے ممالک کے ساتھ اپنی تجارت کو بڑھا رہا ہے جبکہ دوسری طرف اس تجارت کی بدولت، آسٹریلیا کے ساتھ ان ممالک کی باہمی تجارت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ مزید براں چین اس خطے کے اکثر ممالک کو بہت زیادہ امداد بھی دیتا رہا ہے اور 2006 سے 2017 کے درمیان تقریباً 1.5 بلین امریکی ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔ چین کی اس پالیسی اور ان پیش رفت نے آسٹریلیا کو پریشان کر رکھا ہے کیونکہ یہ ممالک پہلے آسٹریلیا پر انحصار کرتے تھے۔ سب وہ چین کی زیر کنٹرول آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایک جزیرہ براعظم ہونے کے ناتے، آسٹریلیا کو ایک طاقتور بحریہ کی ضرورت ہے اور یہ معاہدہ بلاشبہ آسٹریلوی بحریہ کی فوجی طاقت پر بہت بڑا اثر ڈالے گا۔ اس معاہدے میں سب سے زیادہ فائدے میں آسٹریلیا رہے گا۔

بریگزٹ کے بعد برطانیہ خود کو ایک عالمی کھلاڑی کے طور پر اپنی حیثیت بحال کرنے کی تگ و دوڑ میں ہے۔ چین کے ساتھ اس کے سیاسی اختلافات اور تائیوان کے مسئلے نے برطانیہ اور چین کے باہمی تعلقات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ چین کے ساتھ پرانی دشمنی اور چین کی ابھرتی ہوئی معاشی اور عسکری طاقت دوسری وجہ ہے جو برطانیہ کو اس معاہدے کے ذریعے چین کا راستہ روکنے پر مجبور کر رہی ہے۔ برطانیہ کے قومی سلامتی کے مشیر، سر اسٹیفن لوگروو  نے واضح کیا ہے کہ آکسس معاہدہ آبدوزوں کی فراہمی کی ایک شکل ہے، انہوں نے اس معاہدے کو چھ دہائیوں میں دنیا میں کہیں بھی طرح کے تعاون کی سب سے اہم مثال قرار دیا ہے۔

جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، اس کی دشمنی اور چین کے ساتھ سرد جنگ (جو امریکہ کی واحد اقتصادی اور عسکری اتھارٹی کو چیلنج کر رہی ہے)، اب کوئی راز نہیں۔ کرہ ارض پر ابھرتے ہوئے چین کا سامنا کرنے کے لیے جو عالمی منڈیوں پر اقتصادی اور بحرالکاہل پر قبضہ کر رہا ہے، امریکہ نے یہ اقدام آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر اٹھایا ہے۔ اس سے پہلے، اس نے چین کے گھیراؤ کے کے لیے بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر quad الائنس بھی قائم کیا تھا۔ امریکہ اس خطے، ایشیا اور انڈو۔ پیسیفک میں اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کی ہر کوشش کرے گا جس کے لیے آکسس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

چین کے لیے یہ دفاعی معاہدہ بحرالکاہل میں اپنے قدم جمانے کے راستے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اور چین کو یقینی طور پر QUAD کے ساتھ ساتھ اس طاقتور سہ فریقی اتحاد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں جنگ خارج از امکان ہے، لیکن چین اور اکسس کے درمیان سرد جنگ کے نتیجے میں خطے میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ جس کا خمیازہ علاقائی ممالک کو بھگتنا پڑے گا۔

ماہرین معاہدے کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں اور اسے IAEA اور NPT کے اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ایک طرف آسٹریلیا جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کا دستخط کنندہ ممبر ہے، جبکہ دوسری طرف، IAEA کے مطابق پرامن مقاصد کے علاوہ جوہری ٹیکنالوجی کی فراہمی پر پابندی ہے۔ ایٹمی سائنسدانوں کے بلیٹن میں اسکالر سبسٹین فلپ نے AUKUS پر تنقید کی اور لکھا ہے کہ ”ہم اب آنے والے سالوں میں انتہائی حساس عسکری جوہری ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کی توقع کر سکتے ہیں، جس میں درحقیقت نئے جوہری مواد دیکھنے کو ملے گے جس کا کوئی بین الاقوامی تحفظ نہیں ہے۔

معاشی اور عسکری طاقت کی ہوس عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ آکسس معاہدے کا مقصد بحرالکاہل میں چین کے بڑھتے ہوئے غلبے کا مقابلہ کر کے اسے روکنا ہے جہاں یعنی جنوبی بحرالکاہل میں چین امداد، تجارت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے ذریعے اپنے اپ کو مضبوط بنا رہا ہے۔ اگرچہ یہ معاہدہ آسٹریلیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس آبدوزیں فراہم کر کے جنگ کے روک تھام کی طرف ایک اقدام ہے، لیکن خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کے خدشات کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ جس کا خمیازہ خطے کے غریب ممالک اور عوام کو بھگتنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments