میری بوتل میری مرضی


اس تاریک رات کے غضبناک سمندری طوفان میں وہ پرانی کشتی ہم سب مسافروں کی زندگی کا واحد سہارا تھی جس کا پیندا پانی اور ریت سے بھر چکا تھا۔ ساحل قریب تھا مگر ٹھاٹھیں مارتی لہروں کے سامنے زندگی کی امید بہت دور دکھائی دے رہی تھی۔ نئی سحر کے منتظر ملاح اور مسافروں کو جب ہر امید کجلاتی ہوئی محسوس ہوئی تو مرکز نگاہ وہ چند مذہبی اور باشعور رہنما ہی رہ گئے جو اللہ کی بارگاہ میں سربہ سجود، آنسو بہاتے اور گڑگڑاتے تمام مسافروں کی زندگی کی بھیگ مانگ رہے تھے یا پھر منزل تک جلد رسائی کی تدبیریں بن رہے تھے۔

بالآخر محسوس ہوا کہ اشکوں کی زباں سن لی گئی، آہوں کے اشارے دیکھ لیے گئے اور تدبیریں رنگ لے آئیں۔ طوفان تھمنے لگا ہے اور ساحل کی روشنیاں نئی زندگی کی نوید بن کر قریب تر ہوتی گئیں۔ کشتی جب ساحل سے ٹکرائی تو حد نگاہ فقط ٹوٹی ہوئی کشتیوں کے پرخچے، جانداروں کی لاشیں اور گندگی کے ڈھیر نظر آ رہے تھے۔ میری طرح ہر مسافر اپنے اطراف سے بے خبر بس دور سے آتی ہوئی روشنی کے تعاقب میں دیوانہ وار دوڑ پڑا۔ میں تھکن سے چور، امیدوں کا سہارا لیے بس چلتا رہا مگر نجانے کیوں ہمت جواب دینے لگی۔

آبادی ابھی کچھ فاصلے پر ہی تھی کہ میں گر پڑا۔ ریت پر پڑا اپنا خالی وجود مجھے ریت جیسا ہی محسوس ہوا جو شاید طوفان سے تو بچ گیا تھا مگر اب آندھیوں کے کام آنا تھا۔ میں ہوش کھو بیٹھا۔ جب آنکھ کھلی تو زمین پر لپا ہوا گرم سورج اور اردگرد لوگوں کا ہجوم پایا۔ مرد، عورتیں بچے اور بوڑھے سب دہر کے اس ویرانے میں گزشتہ طوفان کے نظارے میں ابھی تک کھوئے ہوئے تھے۔ غرق ہو جانے والی کشتیوں کے مالک اور بچ جانے والے مسافروں کا آہ و فغاں ہر گام صاف سنائی دے رہی تھی۔ اخباروں کی سرخیاں داستان شب غم کو یوں بیاں کر رہی تھیں کہ گویا واقعات کو خبر بنانا ضروری ہو۔ کہ جیسے اس حادثے کا غم ان اخبارات سے کرم کی بھیک مانگ رہا ہو۔ یہ خبریں بس یہی منادی کرا رہی تھیں کہ وہ ستم شعار طوفان آرزوئے کرم سے اس طور خالی تھا کہ ہر شے اور ہر نفس کو ہمیشہ کے لیے برباد کر کے چل دیا۔

انہی الجھنوں سے لڑتا میں اس ہجوم سے باہر نکلا تو دیکھا کہ رات کے طوفان کے ستائے ہوئے مسافر غم غلط کرنے کے لیے کچھ بے نیاز دکانداروں کے گرد جمع ہیں جو عام شربت کی بوتلوں میں کچی اور خطرناک ”شربت“ پلانے میں مصروف تھے۔ غم حیات میں شباب لالہ و گل کو پکارنے والوں میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی مگر تعجب کا سبب زیادہ تر وہ حضرات بن رہے تھے کہ جو گزشتہ رات کی اس مشکل گھڑی میں رب کی بارگاہ میں گڑگڑاتے ہوئے اس ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگانے کا واحد ذریعہ سمجھے جا رہے تھے یا پھر وہ حضرات جو عقل کی دلیل اور تدبیر کو بروئے کار لاتے ہوئے بچاؤ کی کوششوں میں تھے۔ وردیوں میں ملبوس انتظامی حکام بالخصوص پولیس بھی اس حرکت کو نظریۂ ضرورت کی دلیل دیے اپنے مخصوص ناکوں پر انتہائی فرض شناسی سے کھڑے تھے۔ ہر ایک نظر فریب قضا کھانے کو شاید اس لیے تیار تھی کہ اس وقت کی گرمی کی تپش اور اضطراب سے نجات کا واحد علاج بس وہی شربت دکھائی دے رہا تھا۔

اب منزل پر پہنچ کر ان لوگوں کے دلوں کا سفینہ کیا ابھرتا کہ طوفان کی ہوائیں ساکن تھیں۔ زمانے کے بحر سے کشتی کیا کھیلتی کہ موجوں میں کوئی گرداب باقی نہ رہا تھا۔ یہ سب دیکھ کر میرے لیے خزاں کے ماتھے پر داستان گلاب لکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ دوسروں کے برعکس میں شاید میت ضمیر کو دفن نہیں کرنا چاہتا تھا اور میری روح اس غم سے اکتانے لگی۔ میں منافقت کی سبھی تہمتیں اپنے سر لینے کو تیار ہو گیا اور شربت بیچنے والوں کے پاس جا بیٹھا۔

غم حیات، غم روز گار اور پھر بے وطنی کی نا امیدی کو نظرانداز کر کے عرض کیا ”شراب کے نشے پر پردہ کیوں؟ اگر یہ عشق کا وار ہے تو ظاہر داری کی شریعت سے دور کیوں لے جا رہی ہے؟ اگر یہ احساس کے وجود پر زخمء تیغ ہے تو اسے دلکشاں کیسے کہیں؟ سچ خریدنے کی اوقات میری نہیں ہے مگر اس کوشش میں زباں کٹے تو خنجر کو مرحبا کیسے کہیں؟ سفینہ تو کنارے آ لگا پر اب خدا سے ستم وجود ناخدا کیسے کہیں؟ وہ خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا اور پھر بولا

”وہ سحر کہ جس کی تلاش میں نکلے ہوئے ہم سب مسافروں کی آرزو بس یہی تھی کہ وہ ملے گی کہیں نا کہیں۔ اب اس صبح ازل کے انکار کی جرآت ہی کیونکر؟ اور پھر اس کی روشنیوں کو داغ داغ اجالا کہنے کی جرآت؟ وصال منزل و گام کے بعد اہل درد کے دستور بدل جانے کا الزام؟ گرانئی شب میں کمی نہ آنے کا شکوہ؟ منزل کے حصول پر بھی لاحاصل کا شکوہ؟ میرے خاموش اور حیران وجود کو دیکھ کر وہ بولتا رہا۔“ آج ہم میں سے ہر ایک کی امید منزل، نظر کے مزاج، خوشی اور درد کے ہر رنگ ہماری ”ہستی کی میں“ کے گرد طواف کر رہے ہیں۔

ہستی کا ثبوت یا تو عقل بن سکتا ہے یا پھر عشق۔ آدم خاکی کی عقل کی نگاہ، اس کا جوت، اس کا دائرۂ فکر ہمیشہ ایک سینسر کی محتاج ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج کی اس جدید دنیا میں اس سکرین پر ”بالائے میں“ سے آگے کوئی دوسری شے بچتی ہی نہیں تو حاصل ”میں اور میری مرضی“ کے سوا کچھ اور کیسے رہے؟ عشق کی بجائے عقل کے کلیے پر بسنے والی اس دنیا کے سامنے میری تسلیم فقط یہی رہ جاتی ہے کہ ”میری بوتل میری مرضی“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments