ثانوی زبان میں استعداد کے مسائل


سکول کے زمانے میں مسعود مفتی کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ “سر راہے” پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کا ایک فقرہ اس وقت یاد آ رہا ہے جو زبان کے متعلق ہے۔ “جن کی انگریزی پاکستان میں اس لیے مثالی سمجھی جاتی تھی کہ انگریز کیسے بولتے ہیں، انگلستان جا کر اس لیے مثالی بن گئی کہ انگریز کیسے نہیں بولتے۔”

ہمارے ہاں اس بات پر بہت واویلا ہوتا ہے کہ ہم اتنے برس تک انگریزی یا عربی پڑھاتے ہیں لیکن طالب علم ان میں چند فقرے لکھنے بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ کوئی ہمارا مسئلہ نہیں ہے، دنیا بھر کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ثانوی زبان میں کتنی مہارت درکار ہوتی ہے اور وہ کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس تحریر کا مقصد کوئی سنجیدہ علمی بحث کرنا نہیں، جس کی میں صلاحیت بھی نہیں رکھتا، بس کچھ لطائف و ظرائف کو بیان کرنا ہے۔

 میرے نانا جان مرحوم کا بسلسلہ ملازمت کچھ عرصہ ایران میں قیام رہا تھا۔ فارسی بہت اچھی جانتے تھے۔ وہ ایک واقعہ سنایا کرتے تھے۔ یہ واقعہ تقسیم ہند سے پہلے کا ہے۔ ہندوستان میں فارسی کے ایک پروفیسر سے ان کی وہاں ملاقات ہو گئی۔ پروفیسر صاحب نے نانا جان سے کہا کہ وہ شیراز کے کسی قدیم خاندان سے ملنا چاہتے ہیں۔ نانا جان ایک دعوت پر انھیں ساتھ لے گئے اور صاحب خانہ سے متعارف کروایا۔ ان کو وہاں چھوڑ کر نانا جان ادھر ادھر ہو گئے۔ کچھ دیر بعد صاحب خانہ کے ملازم نے آ کر کہا کہ آقا آپ کو بلا رہے ہیں۔ نانا جان جب اس کے پاس گئے تو وہ کافی خفا دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے نانا جان سے کہا، عجیب شخص ہو، مہمان کو میرے پاس چھوڑ کر خود غائب ہو گئے ہو۔ اب ہماری بات بھی تو کرواؤ۔ یعنی فارسی کے استاد ایک ایرانی سے اپنا مدعا بیان کرنے سے قاصر تھے۔

سر پیٹر میڈاور نوبل انعام یافتہ سائنسدان تھا۔ اسے 1960 میں فزیالوجی اور میڈیسن کے شعبے میں یہ انعام ملا تھا۔ اس کی تعلیم انگلستان کے بورڈنگ سکولوں میں ہوئی تھی جن کے خراب احوال کا ذکر اس نے اپنی خودنوشت سوانح میں کافی تفصیل سے کیا ہے۔ لیکن فرانسیسی زبان کے ایک استاد کا ذکر کرتے ہوئے اس نے لکھا ہے کہ اس نے زبان اتنی اچھی طرح پڑھا دی تھی کہ ‘میں بسہولت فرانسیسی میں لکھی کتب پڑھ سکتا ہوں۔ البتہ کبھی کسی فرانسیسی کے سامنے فرینچ بولنے کی ہمت نہیں پڑی کیونکہ میرا تلفظ اس کے لیے بالکل اجنبی ہوتا’۔

آئزایا برلن برطانوی فلسفی اور مضمون نگار تھا۔ اس کی جنم بھومی بالٹک ریاست لٹویا کا شہر ریگا تھا اور ابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرز برگ میں ہوئی تھی۔ نو سال کی عمر میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ برطانیہ منتقل ہو گیا تھا۔ وہ روسی زبان جانتا تھا۔ سن 1945 میں ماسکو میں برطانوی سفارت خانے نے روسی جاننے والے اہل کار نہ ہونے کی شکایت کی تو برلن کو ماسکو بھیج دیا گیا۔ ماسکو میں قیام کے دوران میں بورس پاسترناک سے اس کی ملاقاتیں رہیں۔ وہ سینٹ پیٹرز برگ میں اینا اخماتووا سے بھی ملنے گیا۔ ان دونوں سے ملاقاتوں کا اس نے بہت دلچسپ احوال رقم کیا ہے۔

جب اس کی اخماتووا سے ملاقات ہوئی تو اخماتووا نے اسے اپنی نظم سنائی۔ لیکن نظم سنانے سے پہلے اس نے کہا کہ اس نظم کو سمجھنے کے لیے بائرن کا یہ کینٹو سمجھنا ضروری ہے۔ اس نے آنکھیں بند کرکے بائرن کی نظم سنانا شروع کی۔ برلن کا کہنا ہے کہ وہ انگریزی زبان بڑی سہولت اور روانی سے پڑھ لیتی تھی لیکن اس کا انگریزی تلفظ سخت نامانوس تھا۔ برلن کی سمجھ میں کوئی ایک لفظ بھی نہیں آ رہا تھا۔ اس نے پریشانی کے عالم میں کھڑکی کے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔

ماریو بونگھے ایک مشہور فلسفی اور ماہر طبیعیات تھا۔ اس کا تعلق ارجنٹائن سے تھا۔ اسے ابتدا سے ہی کئی زبانیں سکھائی گئی تھیں۔ سن 1960 میں وہ ایک فلسفہ کانگرس میں شمولیت کے لیے کیلیفورنیا کی سٹین فورڈ یونیورسٹی آیا۔ وہ اور اس کی بیوی مارتھا انگریزی جانتے تھے۔ اس وقت تک بونگھے کے متعدد مقالات سائنس اور فلسفے کے جریدوں میں بزبان انگریزی شائع ہو چکے تھے۔ تاہم اس کو پہلی بار سپوکن انگریزی سے واسطہ پڑا تھا وہ چیزے دیگر تھی۔ مثلا وہ  laughter  کا تلفظ daughter کے وزن پر ہی کرتا تھا۔ اس قسم کے بہت سے لطائف سے اسے واسطہ پڑا تو اندازہ ہوا کہ لکھی ہوئی زبان اور بولی جانے والی زبان میں کتنا فاصلہ ہے۔

کارل پوپر کی زبان جرمن تھی لیکن اس نے انگریزی نثر لکھنے میں اتنا کمال حاصل کر لیا تھا کہ اس کے انگریز شاگرد بھی اس کی نثر کی داد دینے پر مجبور تھے۔ البتہ بولنے کا معاملہ الگ تھا۔ کارل پوپر پر اولین تعارفی کتاب لکھنے والے برائن میگی نے لکھا ہے کہ جب اسے پہلی بار پوپر کے گھر اسے ملنے جانا تھا تو پوپر نے ایڈریس بتاتے ہوئے کہا کہ تم فلاں سٹیشن پر ٹرین سے اتر جانا۔ جب وہ سٹیشن پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس نام کا تو کوئی سٹیشن ہی نہیں ہے۔ خیر تھوڑی سی انکوائری سے پتہ چلا کہ پوپر کا سٹیشن کے نام کا تلفظ غلط تھا۔ اس کا واحد امریکن شاگرد ولیم بارٹلی جب پچاس کی دہائی میں پہلی بار لنڈن سکول آف اکنامکس میں پوپر سے ملا تو اس نے لکھا کہ پوپر کے جملوں کی ساخت جرمن سٹائل میں تھی۔

 نوبل انعام یافتہ سائنس دان سر پیٹر میڈاور کی بھی پوپر سے بہت دوستی تھی۔ وہ فلسفہ سائنس میں پوپر کے موقف سے مکمل طور پر متفق تھا۔ اپنی خود نوشت سوانح میں پوپر کے جرمن سٹائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

My feet were flat enough to have attracted the attention of the philosopher Karl Popper. Once when he and I were attending a philosophic conference Popper said to my wife, ‘Jean, does Peter have anything against flat feet?’ This was not an ambiguous utterance for the great philosopher, for it was a literal translation of the German ‘Does Peter have a remedy for flat feet?’

 دوسری زبان سیکھتے وقت طالب علم کی تعلیمی ضرورت صرف اتنی ہوتی ہے کہ غیر ملکی زبان میں لکھی ہوئی عبارت کا مفہوم سمجھ سکے۔ کسی غیر ملکی زبان میں لکھنے اور بولنے کی استعداد پیدا کرنا ایک جداگانہ معاملہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments