پی سی بی اپنے آنسو پونچھے


انگلینڈ کے انکار کو لے کے رمیز راجہ کے بیان کا پہلا حصہ تو بالکل سطحی سا ہے جو گلی محلے کے کسی نیم خواندہ آدمی کے جیسا ہے۔ اس پر تبصرے بنتا نہیں۔

دوسرا حصہ جس میں وہ عوام اور کرکٹ ٹیم کی موٹیویشن اور کرکٹ کو بہتر کرنے کی بات کرتا ہے وہ بہت اہم ہے۔

انڈیا کو کوئی سرخاب کے پر نہیں لگے ہوئے کہ ہر کوئی انڈیا بھاگ کر جاتا ہے۔ انڈیا کرکٹ میں کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اور کرکٹر صرف پیسے کا ہے۔

کیری پیکر جو چینل 9 کا مالک تھا اس کا خیال یہ تھا کہ کرکٹرز کو زیادہ پیسے ملنے چاہیں جو صرف اسی صورت ممکن تھا جب کرکٹ کمرشلائز ہو اور اس میں جدت لائی جائے۔ ہوا یہ کہ 1976 میں اس کے آسٹریلین کرکٹ بورڈ سے اختلاف ہو گئے اور انہوں نے چینل 9 کی بڈ مسترد کر دی۔ کیری پیکر کو بڑا رنج ہوا اس نے اس وقت کے بڑے بڑے کرکٹروں سے رابطہ کیا اور آئی سی سی کے متوازی ایک نظام قائم کر دیا۔ بڑے بڑے کرکٹرز نے اپنے ملک کی ٹیموں کو چھوڑ کر کیری پیکر سیریز (ورلڈ کرکٹ سیریز) میں شمولیت اختیار کی۔

آج اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہمارے مہاتما جی جو کہ قوم کی اخلاقی تربیت بھی کر رہے ہیں یہ اس پورے معاملے کے سب سے بڑے بینیفشری تھے۔ اور پاکستان کی قومی ٹیم کی چلتی سیریز کے دوران کرکٹ ورلڈ سیریز کھیل رہے تھے۔

مقصد بتانے کا یہ ہے کہ آپ ملک کے اندر آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹس کرا دیں۔ بڑے سپانسرز پکڑیں، سٹیڈیم بھریں پھر دیکھیں کرکٹرز کیوں نہیں آتے۔ پھر بتا رہا ہوں کرکٹر صرف پیسے کا ہے۔ حب الوطنی، کمٹمنٹ وغیرہ ثانوی چیزیں ہیں۔ رونے دھونے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ کرکٹرز کو باور کروا دیں کہ پاکستان میں کرکٹ کے اندر پیسہ ہے اور بس۔

جاتے جاتے دو مثالیں۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ایشیز سیریز اسی طرح ہے جیسے پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچز۔ 1977 والی ایشز سیریز میں آسٹریلیا کو 3۔ 0 سے اور 1978 والی سیریز میں 5۔ 1 سے پھکی پڑی تھی وجہ یہ تھی کہ سارے بڑے پلیئرز نے کیری پیکر سائن کیا ہوا تھا۔ سائن کیوں کیا ہوا تھا کیونکہ زیادہ پیسے ملنے تھے۔ ساؤتھ افریقہ پاکستان کے خلاف اپنی تقریباً بی ٹیم کے ساتھ کھیلا، نیوزی لینڈ اپنی بی ٹیم لایا۔ وجہ یہ ہے کھلاڑی ادھر مصروف ہیں جدھر پیسے مل رہے ہیں۔

پی سی بی اپنے آنسو پونچھے، اور سٹریٹیجی بنائے کہ کرکٹ کو پاکستان کے لیے منافع بخش کیسے بنانا ہے، کھلاڑیوں کو کیسے کھینچنا ہے۔ کوئی سازش نہیں ہے۔ آج آپ سپانسرز لے کر آئیں، سٹیڈیم بھریں تو کل ساری دنیا کے کرکٹرز پاکستان میں ہوں گے۔ اگر مظفرآباد جیسے پسماندہ شہر میں تیسرے درجے کے ہی سہی اگر غیر ملکی کھلاڑی لا کر ٹورنامنٹ کروایا جا سکتا ہے تو اچھے سپانسرز پکڑ کر پاکستان میں اور بہتر غیر کھلاڑی خرید کر آئی پی ایل کو کیوں بہتر نہیں کیا جا سکتا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments