افغانستان میں جامع حکومت کا درپیش چیلنج


افغانستان کے بحران کا حل بہت پیچیدہ ہے۔ طالبان کا حکومت سنبھالنا سمیت تمام فریقین کو ساتھ لے کر چلنا نہ صرف طالبان کے لیے بلکہ خود خطہ کی سیاست کے لیے اہم بنیادی نوعیت کا سوال ہے۔ کیونکہ پاکستان سمیت بہت سے فریقین اس نقطہ پر متفق ہیں کہ طالبان تنہا چلنے کی بجائے تمام فریقین کو ساتھ لے کر چلیں گے تو ہی بحران سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالتے ہی جو لفظ عالمی دنیا کی سطح پر مقبول ہوا وہ Inclusive Government کا ہی تھا۔ عالمی دنیا نے بھی یہ ہی اشارے دیے تھے کہ اگر افغان طالبان تمام فریقین کو ساتھ لے کر عبوری حکومت کا حصہ بنیں گے تو ان کی قبولیت پر غور کیا جاسکتا ہے۔ خود پاکستان نے بھی افغان طالبان کے سامنے یہ ہی نقطہ رکھا تھا کہ آگے بڑھنے کے لیے ایک متفقہ تصفیہ طلب عبوری حکومت ہی ابتدائی بحران کا حل ہے۔

طالبان کی اس وقت کی عبوری حکومت مجموعی طور پر طالبان کے لوگوں پر ہی مشتمل ہے۔ طالبان نے اگرچہ یہ عندیہ دیا ہے کہ آگے جاکر دیگر فریقین یا مخالفین کو اس عبوری نظام کا حصہ بنایا جائے گا۔ لیکن ابھی تک اس میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو رہی اور کہا جاتا ہے کہ طالبان کی سطح پر دو گروپ موجود ہیں جو دیگر فریقین کی حکومتی نظام میں شمولیت پر حمایت اور مزاحمت رکھتا ہے۔ عبدااللہ عبدااللہ، گلبدین حکمت یار اور حامد کرزئی نے بھی یہ ہی پیغام دیا تھا کہ طالبان سے بات چیت کا عملی نتیجہ تصفیہ طلب حکومت کی صورت میں سامنے آئے گا۔

لیکن ابھی تک کیونکہ تصفیہ طلب تمام فریقین پر مشتمل حکومت نہیں بن سکی تو لوگوں میں افغان طالبان کے بارے میں خدشات بھی موجود ہیں اور ان کے بقول شاید افغان طالبان تنہا ہی حکومت کو چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یقینی طور پر اس کے نتیجے میں افغانستان میں دیگر فریقین میں نہ صرف مایوسی بڑھے گی بلکہ اس کا نتیجہ مزید بداعتمادی اور انتشار کی صورت میں نمایاں ہو گا۔

افغان طالبان کے سامنے چار بڑے چیلنجز ہیں۔ اول افغانستان میں حکمرانی کے نظام کو موثر اور شفاف انداز میں چلانا، دوئم ایک مستحکم اور تمام فریقین پر مشتمل حکومت کا قیام۔ سوئم عالمی سطح پر طالبان کی سیاسی قبولیت اور معیشت کی بحالی اور لوگوں کی حکومت پر اعتماد کی بحالی کا عمل، چہارم طالبان کو خود کو ماضی کے طالبان سے دور رکھنا اور وہاں موجود تمام لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری، عورتوں کے حقوق اور آزادی، نقل و حمل اور مخالفین کے بارے میں سیاسی رویہ اختیار کرنا ہے۔ طالبان نے اگر کامیاب ہونا ہے تو ان کو زیادہ سیاسی طرزعمل سمیت پرانی سوچ اور فکر سے خود کو علیحدہ کرنا ہو گا جو شفاف بھی اور واضح نظر بھی آئے۔ کیونکہ یہ ہی طالبان کا رویہ یا طرزعمل عالمی دنیا میں ان کی ہر سطح پر سیاسی ساکھ اور قبولیت کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہو گا۔

پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جو اس وقت افغانستان او راس کے بحران کے بارے میں سب سے زیادہ حساسیت رکھتا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر پاکستان کی افغانستان کے تناظر میں سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان عالمی دنیا کی افغان بحران کے حل میں توجہ کا عملی مرکز بھی بنا ہوا ہے۔ عالمی قیادت، وزرائے خارجہ اور افغان بحران کے حل سے جڑے تمام عالمی فریقین پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان عملی طور پر افغان بحران کے حل کو محض افغان مسئلہ کے حل تک محدود ہو کر نہیں دیکھتا بلکہ اس کے بقول افغانستان کے بحران کا حل عملاً براہ راست اور خطہ کی سیاست کے مفاد میں ہے۔ کیونکہ پاکستان کو یہ خدشہ ہے کہ اگر افغان بحران کا حل نہیں ہوتا اور وہاں بڑے پیمانے پر بدامنی ہوتی ہے تو اس کا سارا نزلہ پاکستان پر پڑے گا۔ کیونکہ اس وقت عالمی دنیا میں اس بیانیہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ پاکستان اور طالبان کا باہمی تعلق ہے او ر طالبان کی کامیابی و ناکامی کا انحصار پاکستان پر ہی ہو گا۔ اگرچہ پاکستان کا موقف ہے کہ طالبان ہم سے یقینی طور پر رابطے میں ہیں مگر وہ خود مختار ہیں اور اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ یہ سوچ اور فکر درست نہیں کہ طالبان کٹھ پتلی ہیں اور ہماری ڈکٹیشن پر ہی چلتے ہیں۔ اس لیے طالبان کے فیصلوں کو محض ہمارے ساتھ جوڑ کر نہ دیکھا جائے۔

سفارتی طور پر پاکستان عالمی دنیا کو یہ بات باور کروانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ہمیں طالبان سے خود کو تنہا کرنے کی بجائے ان کے ساتھ خود کو جوڑ کر افغانستان کی تعمیر و نو میں حصہ لینا ہو گا۔ کیونکہ اگر افغانستان کے بحران کے حل میں عالمی دنیا شامل نہیں ہوگی تو اس کے نتیجے میں دنیا کو ایک بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ علاقائی سطح پر پاکستان ان ممالک کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ پالیسی اختیار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

چین، روس، ایران، ترکی، ملائشیا، سعودی عرب کی مشترکہ کوشش اور عالمی حمایت کے ساتھ ہی افغان بحران کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ حال ہی میں علاقائی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہان کی ملاقات اور پاکستان کا اس میں میزبانی کا کردار ظاہر کرتا ہے کہ ہم سیاسی اور انٹیلی جنس یا سیکورٹی سطح پر بھی معاملات پر غور و فکر اور مشترکہ حکمت عملی چاہتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے دو شنبہ میں عالمی راہنماؤں سے ملاقات اور بالخصوص تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے ملاقات کے بعد اپنی حکمت عملی اور پالیسی کو بنیاد بنا کر افغان طالبان سے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کے عمران خان کے بقول افغان امن کے لیے ضروری ہے کہ مستحکم حکومت کے لیے تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ مذاکرات کا یہ عمل عملی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں تصفیہ طلب حکومت چاہتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے بقول چالیس برس کی اس لڑائی کے بعد ان تمام دھڑوں کی شمولیت ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کی ضامن ہوگی جو محض افغانستان کے لیے ہی نہیں بلکہ خطہ کے مفاد میں بھی ہوگی۔ پاکستان کی جانب سے طالبان سے براہ راست مذاکرات کی ابتدا او راس میں دیگر فریقین کی شمولیت کو یقینی بنانے کی بات چیت عملی طور پر ایک بڑی مثبت پیش رفت ہے۔ اگر ان مذاکرات کے نتیجے میں کوئی مثبت پیش رفت ہوتی ہے اور واقعی عملی طور پر تصفیہ طلب حکومت بنتی ہے تو یہ پاکستان کی سفارتی کوششوں کی ایک بڑی کامیابی ہو سکتی ہے۔

اسی طرح پاکستان کی جانب سے افغانستان کے بحران کے حل میں روس، چین، ایران، تاجکستان، ازبکستان، بیلا روس اور قازقستان او ران وسط ایشیائی ریاستوں کی خطہ کی سیاست میں دلچسپی ظاہر کرتی ہے کہ یہ تمام فریق افغان بحران کے حل اور معاشی امکانات کو پیدا کرنے کو ہی اپنی ترقی کی کنجی سمجھتے ہیں۔ افغان طالبان سے مذاکرات کی یہ نئی کوشش کو عالمی اور بالخصوص علاقائی ممالک جن میں چین اور روس نمایاں ہیں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ پاکستان چین اور روس کے ساتھ مل کر طالبان پر اپنا سیاسی دباؤ بڑھا رہا ہے تاکہ افغان حکومت عالمی توقعات کے مطابق چل سکے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک بھی افغان حکومت کے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ دنیا کو واقعی افغانستان کے معاملات کا درست انداز میں ادراک کرنا چاہیے۔ بھارت سمیت وہ قوتیں جو افغان بحران کے حل میں مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے منفی کردار کے ساتھ معاملات درست کرنے کی بجائے خراب کرنا چاہتے ہیں اس پر علاقائی اور عالمی سطح پر ایک مشترکہ حکمت عملی درکار ہے۔

امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کسی پراکسی وار کا حصہ نہ بنیں۔ کیونکہ جو کچھ افغانستان میں ہوا ہے بربادی کے تناظر میں اس کی بڑی ذمہ داری امریکہ سمیت ان کی اتحادی ممالک حمایت سے جڑی ہے۔ اس لیے امریکہ سمیت نیٹو ممالک افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لیں اور افغانستان کو تنہا چھوڑنے کی بجائے اس کے ساتھ کھڑا ہو۔

افغان طالبان حکومت کو سمجھنا ہو گا کہ ان کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں او ران کو سیاسی لچک کا مظاہرہ بھی کرنا چاہیے او ران کا سیاسی کردار ہی اس وقت خطہ کی سیاست میں اہمیت اختیار کر سکتا ہے اس لیے گیند طالبان کی کورٹ میں ہے اور دیکھنا ہو گا کہ وہ اپنے فیصلوں میں کس حد تک سیاسی لچک کا مظاہرہ کر کے آگے بڑھتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو محض یہ نقصان طالبان کا ہی نہیں ہو گا بلکہ مجموعی طور پر خطہ کی سیاست کا بھی ہو گا جو ایک بڑے انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments