میں نے ناروے کے لوگوں کو کیسا پایا؟


ناروے کے بارے میں میرے مضامین کا سلسلہ اب تمام ہوتا ہے۔ میں نے کوشش کی کہ تمام مضامین، جہاں تک ممکن ہو، غیر جانبدار رہ کر لکھوں۔ تاہم آج آپ ناروے کو ذرا میری آنکھ سے دیکھیے۔ میرے لکھے سے آپ کا متفق ہونا لازمی نہیں۔ آپ کو اختلاف کا پورا حق ہے۔

جب کوئی نووارد پہلی بار ناروے آتا ہے تو اسے یہی لگتا ہے جیسے یہاں کے لوگ بہت سرد مزاج ہیں۔ کہیں کوئی گرم جوشی نظر نہیں آتی۔ وہی بات کہ ٹھنڈی زمین کے ٹھنڈے ٹھار باسی۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے۔ نارویجین ٹھنڈے مزاج کے لوگ ہیں۔ یہاں کوئی گلیوں بازاروں میں چیختا چلاتا نظر نہیں آتا۔ کوئی اپنے کسی دوست آشنا سے اچانک مل کر اسے گرمجوشی سے جپھی ڈال کر چومتا نہیں۔ دور سے بلند آواز میں پکارتا نہیں۔ خوشی سے بے قابو ہو کر ناچتا گاتا نہیں، غم و غصے میں سر نہیں پیٹتا۔ سڑک پر دو گاڑیاں ٹکرا جایں تو دونوں فریق آپس میں دست گریبان نہیں ہوتے۔ تہذیب کا مظاہرہ کرتے ہیں غلطی کرنے والا اپنی خطا مان لیتا ہے۔

اگر آپ کے ہمسائے کو آپ سے کوئی شکایت ہے تو وہ آپ کے دروازے پر آ کر آپ سے الجھتا نہیں۔ بلکہ ایک مہذب تحریر آپ کے پوسٹ بکس میں ڈال دیتا ہے کہ آپ کی بلی ہمارے لان میں آ کر گند ڈالتی ہے، اسے سنبھالیں۔ یا آپ کے گھر سے میوزک بہت بلند ولیوم میں بجایا جاتا ہے۔ رات دس بجے کے بعد ذرا دھیما کر دیجیئے۔ یا یہ کہ جب آپ اپنے گھر کے سامنے کی برف صاف کرتے ہیں تو ایک ڈھیر ہمارے گھر کے سامنے جمع ہو جاتا ہے۔ ایسا مت کیجیئے۔ آپ جواب میں ان کے گھر جا دھمکنے یا ہر بات سے انکار کر کے اونچی آواز میں بول کر تماشا مت بنائیں۔ ان کی شکایات کا تحمل سے سنیں اور آئندہ محتاط رہنے کا وعدہ کریں۔

ناروے کا معاشرہ ایک آزاد معاشرہ ہے۔ یہ آزادی انہیں ان کے آئین اور ان کی جہوریت کے طفیل ملی ہے جسے وہ بہت عزیز جانتے ہیں۔ یہاں تک آنے میں انہوں نے بہت محنت کی ہے اور وہ کسی صورت اس میں بگاڑ پسند نہیں کرتے۔ جب تحمل اور برداشت کی بات ہوتی ہے تو ناروے اس لسٹ پر ٹاپ پر آتا ہے۔ دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ، دوسرے کے نظریات کا احترام اور اپنی بات کہنے کا سلیقہ اس ملک کے باسیوں کا خاصا ہے۔ ناروجیوں کے لیے تاریخ، جغرافیہ اور مذہب سے کہیں زیادہ ان کی اپنی اقدار اہمیت رکھتی ہیں۔ آپ سے بھی وہ بالکل یہی توقعات رکھتے ہیں۔ رش والی جگہوں پر کوئی دھکے دے کر آگے نکلنے کی کوشش نہیں کرتا۔ قطار بنا کر باری کا انتظار انہیں بچپن سے ہی سکھا دیا گیا ہے۔ کوئی آپ کے گھر نہیں جھانکتا، آپ بھی ٹوہ نہ لیں۔

فطرت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ہر درخت ہر پودا ہر شاخ اور ہر بھول کی قدر و منزلت کرتے ہیں۔ درخت کاٹنا اور فطرت کو خراب کرنا سخت ناپسندیدہ کام ہے۔ جنگلوں میں لمبی واک پر جانا، پہاڑوں پر چڑھنا ان کے لیے فطرت سے رابطے کا درجہ رکھتا ہے۔ ماحول کی آلودگی برداشت نہیں کرتے۔ صفائی ان کے ایمان کا نصف سے بھی زیادہ ہے۔ سال میں ایک دو بار تمام پڑوسی مل کر ایک دن طے کرتے ہیں اور اس دن اپنے آس پاس کی جگہ کی صفائی کرتے ہیں۔ مرد زن چھوٹے بڑے سب اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ راستے کے پتھر ہٹاتے ہیں، گھاس پھوس اکھاڑتے ہیں۔ یہ ایک کار خیر ہے اور قطعی طور پر رضاکارانہ ہے۔ کوئی زبردستی آپ کو کھینچ کر نہیں لے جائے گا لیکن یہ محلہ آپ کا محلہ ہے تو آپ کو شرکت ضرور کرنی چاہیئے۔ بچوں کو بھی ساتھ لے جایئے۔ وہ یہ سیکھ لیں تو اچھی بات ہے۔

اپنا جھنڈا انہیں بہت عزیز ہے۔ اسے نیچا یا گرتا دیکھنا برداشت نہیں کرتے۔ قومی دن سترہ مئی کو ہر نارویجین گھر میں جھنڈا لہراتا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ مزدوروں کے دن یکم مئی پر بھی حکومتی عمارات اور گھروں پر بھی ناروے کے جھنڈے لہراتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی اختلافات کتنے بھی ہوں، قومی مفاد ایک ہی ہے۔

ناروے کئی لحاظ سے ایک منفرد ملک ہے۔ فلاحی ریاست تو ہے ہی۔ یعنی شہریوں کی فلاح و بہبود کی تمام ذمہ داری ریاست کی ہے لیکن ناروے کے شہری بھی اپنے فرائض سے غافل نہیں۔ انہیں اپنی خودمختاری، جمہوریت اور متوازن معاشرے کی بہت قدر ہے۔ پر امن ہیں اور ایک پر تحفظ زندگی گذار رہے ہیں۔ اس لیے دنیا میں کہیں گڑبڑ ہو تو اس سے پریشان بھی ہوتے ہیں اور حیران بھی اور اس زیادتی کے خلاف مظاہرے بھی کرتے ہیں۔

لوگ ذرا لیے دیے رہتے ہیں۔ کچھ اپنے آپ ہی میں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بداخلاق ہیں۔ آپ کو کبھی کوئی مشکل پیش آئے اور مدد درکار ہو وہ حاضر ہیں۔ بلکہ دور تک جا کر آپ کی مدد کریں گے۔ لیکن چونکہ ذرا ریزرو ٹائپ ہیں اور کچھ شرمیلے بھی اس لیے گھلتے ملتے نہیں۔ انہیں دوست بنانا آسان نہیں۔ لیکن ایک بار اگر آپ کی ان سے کیمسٹری مل جائے اور دوستی ہو جائے تو یہ عمر بھر کے دوست ثابت ہوں گے۔

فزیکل فٹنس کا خیال رکھتے ہیں۔ اسپورٹ اور ورزش سے لگاؤ ہے۔ جم میں ہر عمر کے لوگ اپنی فٹنس بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ سب ہی اسکینگ کرتے ہیں۔ اور کچھ نہ کرسکیں تو لمبی واک پر نکل جاتے ہیں۔

ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے ’’ آپ جناب’’ کا تکلف نہیں کرتے۔ ہر ایک کو’’ تم’’ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ حالانکہ زبان میں ’’آپ’’ کا صیغہ موجود ہے لیکن اب کم ہی استعمال ہوتا ہے۔ قدیم برسوں میں بزرگوں اور انجانے لوگوں کو ’’آپ’’ کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا لیکن اب یہ طرز تخاطب شاہی خاندان کے افراد تک محدود ہو گیا ہے۔ اسی طرح مسٹر، مسز اور مس کا تکلف بھی نہیں کرتے۔ سر اور میڈم بھی متروک ہے۔ ہر ایک کو نام سے مخاطب کرتے ہیں۔

شکوے شکایتیں کرنا ناروجینز کی عادت نہیں اور نہ ہی وہ ہر وقت کسی کو برابھلا کہتے رہتے ہیں۔ انہں غصہ دلانا تقریبا ً ناممکن ہے۔ ٹریفک میں پھنسے ہوں یا برف کے طوفان میں جھنجھلاتے نہیں۔ اسٹرس کا مطلب ہی نہیں جانتے۔ اعصاب پر پورا کنٹرول ہے۔

مثبت سوچ کا یہ عالم ہے کہ اگر آپ پورے ہفتے کی لگاتار برفباری سے تنگ آ کر کچھ کہہ بیٹھیں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ یہ برف نارتھ پول کے برفانی ریچھوں، پینگوئنز اور دوسرے سرمائی جانوروں کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ اگر مسلسل برستی بارش کی شکایت کریں تو آپ کے علم میں اضافہ کریں گے کہ پانی کی کتنی افادیت ہے۔ پانی ہو گا تو اس سے بجلی بنے گی۔ زیادہ پانی ہو تو زیادہ بجلی بنے گی۔ زیادہ بجلی بنے گی تو سستی بھی ہو گی۔ شدید سردی میں ٹھٹھر رہے ہوں تو وہ دلاسا دیں گے کہ کوئی موسم خراب نہیں ہوتا، بس آپ کا لباس موسم کے لحاظ سے مناسب نہیں ہوتا۔ اب آپ کے پاس کوئی جواز نہیں موسم کو کوسنےکا۔

سیاسی طور پر بہت بیدار ہیں۔ انتخابات سے پہلے ہر پارٹی کا منشور بغور پڑھتے ہیں، پھر اپنے خیالات اور سوچ سے ملتی جلتی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ اپنی ہی حکومت اور اپنی ہی پارٹی سے اختلاف کریں تو برملا اظہار بھی کرتے ہیں اور تنقید بھی۔ اندھی عقیدت کے قائل نہیں۔ ووٹ لازمی ڈالتے ہیں۔

اپنے بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی خود اعتماد اور خود مختار بنانے کا عمل شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اسی لیے بچے چودہ پندرہ سال کی عمر سے ہی چھوٹے موٹے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور کوئی کام نہ ملے تو صبح اخبار پھینکنا یا آس پڑوس کے گھروں کی گھاس کاٹنے کا کام بعوض کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اٹھارہ سال کی عمر میں بالغ ہوتے ہی اپنی ذمہ داری کا احساس ہو جاتا ہے۔ ہر نوجوان اپنا ذاتی مکان چاہتا ہے۔ اس کے لیے بچت کرتا ہے، بنک سے قرضہ لیتا ہے۔ والدین گارنٹی دیتے ہیں اور وہ اپنی زندگی گذارنے کی شروعات کرتا ہے۔ والدین بھی کسی قیمت پر بچوں پر اپنا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔

دنیا کا امیر ترین ملک ہے۔ لوگوں کے پاس بھی’’ کافی’’ پیسہ ہے۔ چھٹیوں میں جہاں چاہیں جا سکتے ہیں اور جاتے بھی ہیں لیکن اگر دیکھا اور پوچھا جائے تو چھٹیاں یہ اپنے دور دراز کے علاقے میں بنے کیبن پر ہی گذارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جہاں نہ بجلی ہے نہ گرم پانی کی سہولت۔ موبایئل فونز بھی کبھی کبھی کام نہیں کرتے۔ تمدن سے دور، گہماگہمی سے پرے بس سکون ہی سکون، یہ ہیں ان کی پسندیدہ ترین تعطیلات۔ دوسرے ممالک کا سفر سورج کی گرمی حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ چھٹیوں کے شوقین ہیں۔ اکثر یہ بحث ہوتی ہے کہ چھٹیوں کا ایک دن کم کر کے تنخواہ بڑھا دی جائے، ناروے کے باسی اسے رد کر دیتے ہیں۔

معیار زندگی بہت بلند ہے۔ قوت خرید بھی کافی ہے۔ مہنگی گاڑی، مہنگا گھر، مہنگے لباس اور مہنگی تفریحات۔ جو بھی نئی شے انہیں درکار ہوتی وہ گھر ہو یا گاڑی، نیا ٹی وی ہو یا نیا فون اس کے لیے باقاعدہ پلان بنا کر بچت شروع کر دیتے ہیں۔ کرسمس کے تہوار پر ان کی پلاننگ کچھ دھری رہ جاتی ہے۔ اس پر بہت خرچ کرتے ہیں اور دل کھول کر کرتے ہیں۔ خاندان کے ہر فرد کے لیے اور دوستوں کے لیے بھی تحفے خریدنا بہت اہم ہے۔

کھانا عام طور پر گھر پر ہی کھانا پسند کرتے ہیں۔ اور کچھ کھائیں نہ کھائیں، مچھلی کا روغن کوڈ لیور آئل ان کی روز مرہ غذا کا حصہ ہیں۔ چھوٹا بڑا اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کرشوق و عقیدت سے پیتا ہے۔ ڈنر میں آلو اہم جز ہے۔ سلاد کے بھی شوقین ہیں۔ کافی کے بہت شوقین ہیں۔ اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں کافی کی پیاس لگی رہتی ہے۔

ان کی بول چال میں ایک لفظ ’’ کوس’’ تواتر کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ معذرت کہ اس کا درست اردو ترجمہ کرنے سے قاصر ہوں۔ یوں سمجھ لیں کہ بہت آرام دو اور تسکین بخش۔ انگریزی کا لفظ ’’کوزی‘‘ (Cozy) اس کا قریب ترین ترجمہ ہے۔ اس لفظ کو آپ نارویجینز کا اجتماعی تکیہ کلام سمجھ لیں۔ ہر چیز ہر بات ہر صورت حال پہ کوس لاگو ہے۔ کام سے گھر جاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب میں گھر جاکر کوس کروں گا۔ یا میں اپنے ڈنر سے کوس کروں گی۔ اس کوزینس کو یہ بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ کسی سے ملنا ہو یا کامل تنہائی ہو، ان کے لیے کوزی ہے۔ کسی کی تعریف کرنی ہو یا کسی بات پر داد دینی ہو یہ جادوئی لفظ کوس ساری مشکل آسان کر دیتا ہے۔

یورپ کے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت ناروجیوں کی انگریزی بہت بہتر ہے۔ لیکن یہاں آکر بسنے والوں سے وہ یہ جائز توقع رکھتے ہیں کہ وہ نارویجین سیکھیں۔ آپ بھی زبان سیکھے بغیر کہیں آگے نہیں جا پائیں گے۔

موم بتیوں کے بہت شوقین ہیں۔ جھٹ پٹے کے وقت میز پر کئی موم بتیاں جلا کر رکھ دیتے ہیں۔ کوئی مہمان آئے تو اس کے احترام میں شمع روشن کر دی۔ کوئی اہم دن منانا ہو تو بھی اور کسی کی یاد آرہی ہو تو بھی موم بتی جلا دو۔ اسی طرح پھول بھی ان کی زندگیوں میں بہت اہم ہیں۔ خوشی کا موقع ہو یا غم کا پھولوں کی زبان سے اظہار کیا جاتا ہے۔ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے دروازے کے پاس جوتے اتار دیتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ گھر صاف ستھرا رہے۔ اگر آپ کسی کے ہاں جائیں تو خیال رکھیں کہ آپ کے موزے صاف ہوں اور ان میں کوئی سوراخ بھی نہ ہو۔۔

کسی بھی صورت حال میں ان کا رد عمل شدید نہیں ہوتا۔ بڑی سے بڑی خبر اچھی بری سب آرام سے سہہ جاتے ہیں۔ حسرت ہی رہی کسی کو فرط جذبات سے بے قابو ہوتے دیکھیں۔ عام تاثر ان کے بارے میں یہی ہے کہ یہ بہت بور لوگ ہیں۔ بور باتوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ٹی وی پر ان کا خبرنامہ بھی سنسنی خیز مواد سے خالی ہے۔ ٹاک شوز میں بھی بس ایشوز پر بات ہوتی ہے۔ نا کوئی تندی نہ کوئی تیزی اور نہ گالی گلوچ نہ دست گریبان۔ ان کے ٹیبلویئڈ اخبار اور رسالے بھی اسکینڈلز کی چٹ پتی خبروں سے عاری ہی ہیں۔

لوگوں کا عام تاثر ان کے بارے میں یہ ہے کہ یہ حس مزاح سے عاری ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ان کی مزاح کی حس نہایت تیز ہے۔ کچھ کچھ برٹش مزاح کی طرح۔ ایسا مذاق کر جایں گے جو آپ کو گھر جا کر سمجھ آئے گا۔ لیکن کسی کا مذاق اڑانا بہت ناپسندیدہ کام ہے۔ خود پر مذاق بھی سہہ جاتے ہیں اور تنقید بھی۔

ناروجینز جانتے ہیں کہ وہ ایک خوش قسمت قوم ہیں۔ وہ اس بات پر بھی خوش ہوتے ہیں کہ وہ سویڈیش نہیں ہیں۔ خیر یہ تو وہ مذاق میں کہتے ہیں۔ سویڈن سے ان کی چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی ہے۔ لیکن ان کی خوش نصیبی میں کوئی شک نہیں۔ فلاحی ریاست، شخصی آزادی، خوبصورت ملک، مالی خوشحالی، وسیح امکانات، ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات، پر امن ماحول، باوقار زندگی اور مستقبل کی بے فکری۔

ان سب کے باجود نارویجینز بہت منکسرالمزاج لوگ ہیں۔ اپنی تعریفیں سن کر انہیں شرمندگی سی ہوتی ہے۔ دوسروں کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں۔ تعریف کریں گے لیکن مبالغے کی حد تک نہیں۔

آپ کہیں گے ناروے میں شاید فرشتے بستے ہیں۔ کوئی خامی یا برائی ان میں نہیں ہے کیا؟ تو ان کی اچھائی کبھی کبھی ایک خامی بن جاتی ہے۔ یہی دھیما مزاج دیکھ لیں۔ اسٹرس فری رہنے والا رویہ۔ بھئی کبھی کبھی کوئی ڈیڈ لائن آ جاتی ہے۔ وقت پر اسائنمنٹ دینا ہوتا ہے، تھوڑا سا اسٹرس لے لیں۔ پر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments