نئی دہلی میں اسد الدین اویسی کی رہائش گاہ پر حملہ؛ ’یہ انتہا پسندی کا معاملہ ہے‘


نئی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کے مطابق زیرِ حراست افراد کو واردات کے مقام سے پکڑا گیا ہے۔ پوچھ گچھ میں انھوں نے کہا کہ وہ اسد الدین اویسی کے مبینہ ہندو مخالف بیانات پر احتجاج کر رہے تھے۔ (فائل فوٹو)
نئی دہلی — آل انڈیا مجلس اتحادِ المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کی دہلی کے پوش علاقے اشوک روڈ پر واقع سرکاری رہائش گاہ پر ہندوؤں کے ایک گروپ نے حملہ کیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔

رپورٹس کے مطابق منگل کی شام حملہ آوروں نے دروازے اور کھڑکیوں کو نقصان پہنچایا۔ رکنِ پارلیمان کے نام کی تختی توڑ دی۔

مقامی میڈیا کے مطابق رہائش گاہ میں ایک کلہاڑی بھی پھینکی گئی ۔ جب کہ اسد الدین اویسی کو ’جہادی کہا گہا۔ حملہ آور خود کو ’ہندو سینا‘ نامی تنظیم کے کارکن بتا رہا تھے۔ اس واقعے کی شکایت کے بعد دہلی پولیس نے پانچ افراد کو حراست میں بھی لیا ہے۔

نئی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس دیپک یادو نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زیرِ حراست افراد کو واردات کے مقام سے پکڑا گیا ہے۔ پوچھ گچھ میں انھوں نے کہا کہ وہ اسد الدین اویسی کے مبینہ ہندو مخالف بیانات پر احتجاج کر رہے تھے۔ زیرِ حراست افراد سے مزید پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

دیپک یادو کا مزید کہنا تھا کہ پانچوں افراد شمال مشرقی دہلی کے منڈاولی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ گرفتار شدگان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ دہلی میں ایک تنظیم ’ہندو سینا‘ کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان افراد نے اسد الدین اویسی کی حالیہ تقریر سنی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہندو مخالف تقریر ہے۔

اسد الدین اویسی نے دہلی کے انگریزی روزنامے ’انڈین ایکسپریس‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ان کی رہائش گاہ پر حملہ ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کو ایک خط لکھ کر ان کے گھر پر بار بار ہونے والے حملوں کی طرف توجہ دلائیں گے۔

ان کے بقول یہ سب کچھ ملک میں تعصب اور نفرت انگیز ماحول پیدا کرنے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ احتجاج ضرور کیا جائے لیکن توڑ پھوڑ کیوں کی جاتی ہے؟

اپنے گھر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں سے جنتر منتر 200 میٹر کی دوری پر ہے وہاں جا کر احتجاج کیا جا سکتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ مٹھی بھر لوگ نہیں ہیں۔ یہ لوگ ہندوتوا بریگیڈ کے اصل عناصر ہیں۔ حکومت کا کام ہے کہ وہ ایسے واقعات کو روکے۔ صرف حکومت ہی ایسی انتہا پسندی ختم کر سکتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ ان چیزوں کے عادی ہیں۔ وہ طویل عرصے سے یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ یہ بہت افسوسناک ہے کہ انتہائی محفوظ علاقے میں لوگوں کو ایسی حرکتیں کرنے کی جرات مل رہی ہے۔ یہ انتہا پسندی کا معاملہ ہے۔ یہ لوگ 2015 سے ہی یہ سب کر رہے ہیں۔

اسد الدین اویسی نے توڑ پھوڑ کے فوراً بعد ٹوئٹ میں کہا کہ ان کے چوکیدار پر بھی حملہ کیا گیا جس میں وہ زخمی ہو گیا ہے۔ حملہ آوروں نے فرقہ وارانہ نعرے بازی کی۔

خیال رہے کہ پیر کو احمد آباد کے دورے میں اسد الدین اویسی نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان پر تنقید کی تھی کہ حکومت کے دیے گئے غلے اور اناج کو ابا جان کہنے والے کھا جاتے تھے۔

منگل کو لکھنو میں میڈیا سے گفتگو میں اسد الدین اویسی نے کہا تھا کہ جن لوگوں نے حملہ کیا وہ سب انتہا پسند ہیں۔ اس کے لیے بی جے پی ذمہ دار ہے۔ اگر ایک رکن پارلیمان کے گھر پر حملہ ہوتا ہے تو اس سے کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔

انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ حملہ آور ڈنڈوں اور کلہاڑی سے لیس تھے۔ انھوں نے گھر پر پتھراؤ کیا۔ ان کے نام کی تختی توڑ دی۔ حملہ آوروں نے انہیں مارنے کی دھمکی دی۔ چوکیدار کے پوتے پوتیاں خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔

انھوں نے مزید لکھا کہ یہ تیسرا موقع ہے جب ان کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا۔ گزشتہ بار جب حملہ کیا گیا تھا تو راج ناتھ سنگھ وزیرِ داخلہ تھے اور جو ان کے پڑوسی تھے۔ الیکشن کمیشن کا صدر دفتر ان کے گھر کے برابر میں ہے۔ ان کے گھر کے سامنے پارلیمنٹ ہاؤس کی پولیس کا تھانہ ہے۔ وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ وہاں سے آٹھ منٹ کی دوری پر ہے۔ اگر ایک رکن پارلیمان کا گھر محفوظ نہیں ہے تو وزیر داخلہ امت شاہ کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں۔

’ہندو سینا‘ کے قومی صدر وشنو گپتا نے اعتراف کیا کہ گرفتار شدگان ان کی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق انہیں معلوم ہوا ہے کہ اسد الدین اویسی کے گھر پر توڑ پھوڑ ہوئی ہے۔ وہ پر تشدد کارروائیوں کے خلاف ہیں البتہ اسد الدین اویسی کو بھی ہندو مخالف تقاریر نہیں کرنی چاہیئں۔

ان کے مطابق اسد الدین اویسی اور ان کے چھوٹے بھائی اکبر الدین اویسی مسلمانوں کو متاثر کرنے کے لیے ہندو مخالف تقریریں کرتے ہیں۔ ان کی تقریریں اشتعال انگیز ہوتی ہیں۔ انہوں نے ان کے خلاف احتجاج کی حمایت بھی کی۔

اسد الدین اویسی بیرسٹر اور تعلیم یافتہ سیاست دان ہیں۔ ان کے والد سلطان صلاح الدین اویسی بھی رکن پارلیمان رہے ہیں۔

حیدرآباد میں ان کی سیاسی جماعت کافی مضبوط ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی اکبر الدین اویسی تیلنگانہ اسمبلی کے رکن ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں بھائی مسلمانوں کے مسائل کو جارحانہ انداز میں اٹھاتے ہیں اور آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف کھل کر بات کرتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق اسد الدین اویسی اب اپنی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کو ملک گیر سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی مقصد سے انھوں نے بہار کے اسمبلی انتخابات میں 20 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے جس میں سے پانچ پر ان کے امیدوار کامیاب بھی ہوئے۔ البتہ مغربی بنگال میں انھیں کامیابی نہیں ملی۔ اب وہ اترپردیش میں 100 نشستوں پر الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔

امتیاز جلیل مجلس کے دوسرے رکن پارلیمان ہیں۔ وہ اورنگ آباد مہاراشٹرا سے ایم پی ہیں۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی دہلی شاخ کے صدر کلیم الحفیظ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ حملے کے وقت وہاں کے چوکیدار نے پولیس کو فون کیا اور جب تک پولیس نہیں آئی حملہ آور وہیں موجود رہے۔ پھر پولیس نے ان میں سے پانچ افراد کو حراست میں لیا۔

انھوں نے بتایا کہ پولیس حملہ آوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن مجلس کے سیکڑوں کارکنوں نے تھانے کے سامنے پہنچ کر کئی گھنٹے تک نعرہ بازی کی اور حملہ آوروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کیا۔ تب کہیں جا کر پولیس نے گرفتار شدگان کے خلاف متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا اور آج انھیں پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں پیش کیا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق اس حملے کو اتر پردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ ریاستی حکومت انتہائی غیر مقبول ہو گئی ہے اور بی جے پی کی جیت کے امکانات کم ہیں۔

ایک سینئر تجزیہ کار انجم نعیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اسد الدین اویسی کی سیاست بہت متنازع ہے۔ البتہ وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف بیان بازی بھی کرتے رہتے ہیں۔

ان کے مطابق اویسی پر بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اتر پردیش سے 100 نشستوں پر الیکشن لڑنے کے اعلان کا مقصد بی جے پی کو فائدہ پہنچانا ہی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسد الدین اویسی مسلم اکثریتی حلقوں سے امیدوار کھڑے کریں گے۔ان کے بقول غیر بی جے پی مخالف جماعتیں بھی مسلمانوں کو امیدوار بنائیں گی جس کی وجہ سے مسلم ووٹ تقسیم ہو گا اور بی جے پی کے ہندو امیدواروں کو ہندوؤں کا ووٹ مل جائے گا اور وہ کامیاب ہو جائیں گے۔

انھوں نے بھی اس سے اتفاق کیا کہ ممکن ہے کہ اویسی کے گھر پر حملہ اترپردیش میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر کیا گیا ہو۔ کیوں کہ بی جے پی فرقہ وارانہ بنیاد پر الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔

انھوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ انتخابات تک اس قسم کے مزید واقعات پیش آسکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments