بارش اور گل نرگس آبی


A بارش مجھے ہمیشہ بے چین کر دیتی ہے۔ بارش کی ایک قطار میں برستی بوندیں ایک طویل سہرے کی لڑیوں جیسی لگتی ہیں۔ سرمئی اور سلیٹی بادلوں کی گھٹائیں جب آسمان پر تیرتی ہیں تو دل جھوم اٹھتا ہے۔ کئی دنوں سے بارشیں خوب کھل کر برس رہی ہیں۔ پچھلے دو دن سے بارش پھر سے اپنا رنگ برسا رہی ہے۔ اپنے لاؤنج کی بڑی سی فرنچ ونڈو سے میں پائیں باغ میں ایستادہ انجیر، السٹونیا، زیتون اور پام کے درختوں اور پودوں کو دھلتے نکھرتے دیکھ کر مسکرانے لگی ہوں۔

آسمان سے جب سرمئی پردہ ہٹتا ہے اور چاندی کا رنگ جھلکنے سے باغ کے سبزے پر بھی چاندی سی چمکنے لگتی ہے۔ برستی بارش کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ برطانیہ کے وہ قصبے اور گاؤں یاد آتے ہیں جن کی میں نے خاک چھانی ہے۔ مجال ہے کہیں سڑکوں اور گلیوں میں پانی کھڑا ہو جائے۔ صدیوں پہلے سے انہوں نے اپنے رہائشی علاقوں کی بہترین منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ آج کی برستی بھیگتی بارش مجھے ولیم ورڈز ورتھ اور اس کی مشہور زمانہ نظم Daffodils بے طرح یاد آ رہی ہے۔

جی کرتا ہے اپنے بائیں باغ میں ڈھیروں ڈھیر گل نرگس آبی اگا ڈالوں۔ لیکن ایک مضائقہ ہے کہ گل نرگس آبی معتدل آب و ہوا میں بہار کے ابتدائی دنوں میں اگتے ہیں۔ مزید یہ کہ انہیں تاباں دھوپ کی روشنی خشک مگر نم مٹی اور ہلکی سی تیزابی زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ بات ہو رہی تھی بارش اور بادلوں کی سرمئی گھٹاؤں کی۔ اور ولیم ورڈز ورتھ کی۔ وہ 1770 میں نارتھ ویسٹ انگلینڈ کی کاؤنٹی کمبر لینڈ کے نزدیک کو کرماؤتھ کے قصبے میں پیدا ہوا۔

یہ قصبہ Lake District کے کنارے واقع ہے اور مناظر قدرت سے مالا مال ہے۔ ورڈز ورتھ نیچر کا سچا پجاری اور شدید عاشق ہے۔ نیچر اس کے لیے ایک دھرم کی حیثیت رکھتی تھی۔ گل نرگس آبی نظم جسے انگریز میں Daffodils کے نام سے بے انتہا شہرت حاصل ہے میری بہت پسندیدہ نظم ہے۔ میں نے بہت سی انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے کیے اور وہ نظمیں بارشوں کی طرح میرے دل کے قریب ہو گئیں۔ گل نرگس آبی میں ورڈز ورتھ بیان کرتا ہے کہ غالباً ہمارے پاس اپنی زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اہم اپنی یادداشت میں دہراتے رہتے ہیں۔

لیکن ان بیتے ہوئے لمحوں کو بیان کرنے میں تصویریں یا ویڈیوز انصاف نہیں کر سکتیں کیونکہ وہ ہمارے دلی جذبات کی عکاسی نہیں ہوتی۔ یہ نظم نیچر اور اس کے تمام مظاہر کی عظمتوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ ورڈز ورتھ اپنی اس نظم میں کہتا ہے کہ ایک روز وہ دیہی علاقے میں یونہی سیر سپاٹا کر رہا تھا کہ اچانک ہی اس نے گل نرگس آبی کا جم غفیر دیکھا۔ باد صبا میں ناچتے ہوئے گل نرگس کا یہ دل نشین نظارہ اس کے دل کو لبھا گیا۔

اس کو لگتا ہے کہ گل نرگس ایک نہ ختم ہونے والی لمبی لکیر میں متواتر بغیر کسی وقفے کے پھیلے ہوئے تھے۔ ان کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے کہکشاں میں جھلملاتے ہوئے ڈھیروں ستارے۔ وہ جھیل کے کنارے اگے ہوئے تھے اور ان کے سر لگاتار ہوا میں خوشی سے ہچکولے کھا رہے تھے۔ جھیل کی شفاف چاندی جیسی لہریں بھی خوشی سے ناچ رہی تھیں۔ مستی میں جھیل کی لہروں کے گچھے اچھل اچھل کر خوبصورت جھاگ بنا رہے تھے۔ ورڈز ورتھ کہتا ہے کہ ایسے دل کش پھولوں کی مسرور رفاقت نے اسے وہ دائمی دولت عطا کی ہے جس سے اسے تسکین محسوس ہوتی ہے۔ وہ جب کبھی تنہا یا غمگین بیٹھا ہو تو گل نرگس کی حسین یادیں جھٹ سے امید کی کرن بن جاتی ہیں۔ اسے لگتا ہے کہ وہ بھی وادی میں نٹ کھٹ بادل کی طرح آوارہ گھوم رہا ہے اور اس کا دل نرگس کے پھولوں کے ساتھ رقص کیے جاتا ہے۔ اپنا لکھا ہوا منظوم ترجمہ اپنے قارئین کی نذر کرتی ہوں :

گھٹاؤں کی طرح سے میں تنہا آوارہ بھٹک رہا تھا
جو تیرتی ہیں اونچا پہاڑیوں اور وادیوں کے اوپر
جب اچانک ہی میں نے اک جمگھٹا سا دیکھا
تھا وہ نرگس کے سنہری پھولوں کا جھرمٹ جو دیکھا
ندی کے کنارے گھنے درختوں کے تلے
باد صبا میں پھڑ پھڑاتے، ناچتے وہ اوپر چلے
یوں جیسے ستارے مسلسل رات میں ہیں چمکتے
اور وہ آسماں پہ سراپا کہکشاں میں ہیں دمکتے
وہ اک نہ ختم ہونے والی لکیر میں پھیلے ہوئے تھے
جھیل کے کنارے کے ساتھ ساتھ پھیلے ہوئے تھے
میں نے دس ہزار اک ہی نگاہ میں دیکھے تھے جگمگاتے
پھولوں کے ننھے سرخوشی سے محو رقصاں تھے ڈگمگاتے
لہریں بھی تھرکتی تھیں پہلو میں ان کے
مگر نرگس خوشی سے بڑھ گئے تھے جلو میں ان کے
ایسے میں اک شاعر ہو سکتا تھا صرف مسرور
اس کو تھا ایسی خوش گوار رفاقت پہ غرور
میں ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ دیکھتا رہا مگر خیال میں نہ آیا
وہ اتنا دل فریب نظارہ میرے لیے کیا دولت لایا
اب کبھی جو میں اپنے پلنگ پہ محو استراحت ہوتا ہوں
کبھی رنجیدہ یا تنہائی کے احساس میں مبتلا ہوتا ہوں
تب ہی نرگس آبی میری چشم بینا میں اتر آتے ہیں
پھر یہی نرگس آبی زرد میری تنہائی کو بھا جاتے ہیں
اور پھر میرا دل فرط مسرت سے لبریز ہوا جاتا ہے
اور پھر ہمراہ گل نرگس آبی کے رقص کیے جاتا ہے

اس نظم میں ورڈز ورتھ نے رقص کا لفظ کئی بار استعمال کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ شاعر ہمیں بتانا چاہتا ہے کہ رقص کائنات کا توازن ہے۔ زمین کا گھومنا رات کا دن میں تبدیل ہونا ایک متوازن رقص ہے۔ اس خوب صورت نظم میں خدا اور شاعر دونوں اپنے ہاتھ ملاتے ہیں۔ ایک خوب صورتی کو تخلیق کرتا ہے دوسرا اس خوب صورتی کی حمد و ثنا کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments