خوابوں کا امریکہ


جنوری 2009 ء کی ایک یخ بستہ رات کے پچھلے پہر، اپنی ریشمی رضائی میں مزے کی نیند سوتے ہوئے، اس نے خواب دیکھا کہ وہ امریکہ کے نومنتخب صدر باراک اوباما سے ایک گرم جوش مصافحہ کر رہا ہے۔ یہ خواب دیکھنے سے کچھ روز قبل 20 جنوری 2009ء کو اس نے اپنے سوشل میڈیا پیج پر ایک پوسٹ میں لکھا تھا، ”آج جمہوریت پسندوں کے لیے فتح کا جشن منانے کا حقیقی دن ہے۔ آج دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کی باگ ڈور ایک چائے بنانے والے، سیاہ فام امریکی مہاجر اور مسلمان کے بیٹے نے سنبھال لی ہے“ اس کی پوسٹ پر کچھ گمنام دوستوں نے اس کا خوب مذاق اڑایا۔ وہ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ تاریخ میں پہلے بھی خاندان غلاماں کی حکمرانی رہی ہے۔

وہ اپنے خواب کو محض دماغ کا خلل سمجھتا رہا لیکن کچھ دن بعد اس نے صوفی طبعیت کے مالک، ایک سلفی دوست سے اپنے خواب کا ذکر کیا۔ اس کا دوست انگلش اور مذہبی لٹریچر کا ماہر استاد تھا۔ اس نے خواب کی تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ نیند میں بادشاہوں کی ہمراہی دیکھنا، اپنوں سے دوری کا اشارہ ہے۔ پھر وہی ہوا، لگ بھگ چھ سال بعد ، اس کے حالات نے ایسا رخ دھار لیا اور زندگی اسے ایسے دو راہے پر لے آئی جہاں وہ اپنی جان بچانے کے لیے امریکہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔ وہ اپنا وطن، اپنی کل متاع، اپنا سب کچھ چھوڑ کر ، اوباما کے دور حکومت میں ہی امریکہ پہنچ گیا۔

اس کا امریکی صدر اوباما سے کیے گئے مصافحے والا خواب ادھورا رہا مگر اپنوں سے دور رہنے کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔ وہ امریکہ میں تھا تو اس کا باپ اس دنیائے فانی سے چل بسا جسے وہ اپنا ہیرو مانتا تھا۔ وہ اپنے باپ کے آخری دیدار سے محروم رہا۔ اس کا چھ ماہ کا بیٹا، اسے سکائی ایپ پر دیکھتے دیکھتے بڑا ہو نے لگا۔ وہ یہی سمجھتا تھا کہ اس کا باپ شاید کمپیوٹر میں رہتا ہے۔ اس کی بیٹی، اس سے خفا رہنے لگی کہ شاید باپ اسے امریکہ جا کر بھول گیا ہے۔ اس کی جوان سالہ بیوی بھی ماہر نفسیات کے پاس جا کر اپنی ذہنی کیفیت کا علاج کروانے لگی کہ اس کی راتوں کی نیند اڑ چکی تھی اور وہ کسی انجان خوف میں مبتلا رہنے لگی۔ اس کی بوڑھی ماں اپنے بیٹے کے لوٹ آنے کی منتیں مانگتی تھی۔

اپنے خوابوں کی سرزمین امریکہ جاکر اس نے جو دیکھا، جو محسوس کیا، وہ، وہ نہیں تھا، جو بند آنکھوں سے دیکھا گیا۔ کھلی آنکھوں سے نظر آنے والا امریکہ اس سے بہت مختلف تھا۔ اسے وہاں دولت کی ریل پیل نظر آئی، چمچماتی گاڑیوں میں محبوس لوگ روبوٹ جیسے دکھائی دیتے تھے جو فقط متعین اوقات میں اپنوں بند پنجروں سے باہر نکلتے ہیں۔ گھڑی کی ٹک ٹک کے مطابق چلتے ہیں۔ کسی پروگرامنگ کے تحت پہلے سے تجویز کردہ کام مکمل کیے، دیہاڑی لگائی، چوگ چنی اور پرندوں کی طرح واپس اپنے گھونسلے میں جا کر اگلی صبح کا انتظار کرنے لگیں۔

وہ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا تھا کہ زندگی نے اسے ایک آزاد اور جمہوری معاشرے میں رہنے کا موقع دیا ہے لیکن شاید ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں عمومی جمہوری رویوں میں پختگی آنے میں ابھی مزید چند صدیوں کا سفر درکار ہے۔ تیسری دنیا کی طرح وہاں بھی سیاست دانوں کے جتھے، مخصوص گروہوں کے مفادات کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ بڑی بڑی کارپوریشنز معاشرے پر اپنا شکنجہ مضبوط کرنے کے لیے لابنگ کرتی ہیں اور سیاست میں پیسے کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔

آپ کو امریکہ میں جمہوریت کی ایک جھلک اور الاپ ٹی وی پر سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں رنگ برنگی ٹائیاں پہنے مرد اور خوبصورت لباس میں ملبوس عورتیں اپنا اپنا نقطہ نظر کھل کر بیان کرتے ہیں۔ وہاں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے مگر کسی ایک ٹی وی شو میں مخالف نقطہ نظر رکھنے والے کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ہر ایک نے اپنے بیانیے کی ترویج کے لیے اپنی الگ سے دکان کھول رکھی ہے۔ کسی مسئلے پر مختلف رائے سننے کے لیے آپ کو ریموٹ کا سہارا چاہیے ہوتا ہے جس کا بٹن دبا کر آپ چینل بدل سکیں۔

امریکہ میں لفٹ اور رائٹ کی تقسیم اتنی گہری ہو چکی ہے کہ اب اس پر جسموں کی رنگت غالب آتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر آپ امریکہ میں رہنے والے ہیں اور آپ کے جسم کی رنگت کالی، پیلی یا بھورے رنگ کی ہے تو مخصوص عینک سے دیکھنے والے یہی فرض کریں گے کہ آپ کا تعلق بائیں بازو کی پارٹی سے ہے۔ اسی طرح اگر آپ کی رنگت گوری ہے تو آپ پر دائیں بازو اور قدامت پسند ہونے کا ٹھپا لگا دیا جاتا ہے۔

حالانکہ تاریخی حقائق اس برخلاف ہیں۔ بہت سے گوروں نے سیاہ فام تحریکوں کا بھر پور ساتھ دیا اور وہ حقوق کی جنگ میں ان کے ساتھ کھڑے نظر آئے اور امریکہ کے سیاہ فام باشندوں کے اجداد کی امریکہ کی ترقی کے لیے قربانیاں بھی کسی کم نہیں لیکن اب صورتحال کچھ بدلی ہوئی نظر آتی ہے۔ اگر کوئی گورا کسی دوسری رنگت والے کے غلط فیصلے پر تنقید کرے تو فوراً اس پر نسل پرست ہونے کی تہمت دھر دی جاتی ہے اور اگر کوئی سیاہ فام نظام میں جاری استحصال پر انگلی اٹھائے تو اسے ڈرامہ رچانے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور اسے یاد دلایا جاتا ہے کہ تمہاری اصل کیا ہے۔

آپ امریکہ جا کر محسوس کریں گے کہ وہاں رنگ اور نسل کی بنیاد پر سیاست کرنا ایک کھیل بن چکا ہے بالکل اسی طرح جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں مذہب کی بنیاد پر لوگوں میں فرق روا رکھا جاتا ہے۔ اب تو مذہب کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کرنے کی لعنت امریکہ میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ وہاں بھی آپ سے متعلق یہ دیکھ کر رائے قائم کی جاتی ہے، آپ کا نام کیا ہے، آپ کی وضع قطع کیسی ہے، آپ کے باپ دادا کون تھے۔ یہاں تک کہ صدر اوباما کو بھی اپنے نام کے درمیانی حصے کی وجہ سے کئی طعنے برداشت کر نا پڑے۔ وہاں کوئی کھل کر کسی کی رنگت پر بات نہیں کر سکتا، یہ قانونی طور پر جرم ہے مگر اکثر مخالفین صدر اوباما کو اس کے باپ کے مذہب کی گالی دیتے ہیں۔ وہ تثلیث کے سامنے جھک کر تصویر بھی بنوائے تو مخالف اسے یہی کہتے ہیں کہ وہ اندر سے مسلمان ہے اور اس نے تکیہ اختیار کیا ہوا ہے۔

اپنے خوابوں اور خیالوں میں حقیقی جمہوریت کا خواب دیکھنے والے کا سپنا اس وقت چکنا چور ہو گیا، جب امریکہ میں سنہرے بالوں اور منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والے ایک کاروباری شخص نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ کہنے کو تو وہ ستر سالہ بوڑھا تھا مگر اس کے کچھ ناقدین کے بقول اسے ابھی سیاسی بلوغت کو پہنچنے میں دیر تھی۔ اس نے برسر اقتدار آتے ہی اپنے صدارتی احکامات سے واضح کر دیا کہ وہ تمام امریکیوں کا حقیقی نمائندہ نہیں، اسی کے بقول ”I am the Chosen One“ ۔ شاید اس سیاسی نابالغ کا اشارہ کسی ایسے خدا کی طرف تھا، جس نے اسے خاص رنگ و نسل والی قوم کی اصلاح اور فلاح کے لیے بھیجا تھا۔

سنہری بالوں والے امریکی بادشاہ کے فرمودات اور حرکات دیکھ دنیا بھر کے جمہوریت پسند سہم گئے۔ اس نے مخالفین کو ننگی گالیاں دینا اور ان پر طعن و تشبیہ کے تیر برسانا شروع کر دیے۔ یہاں تک کہ اپنے ہی ملک کے ایک کھلاڑی کو سرعام ک۔ کا بچہ ہونے کی گالی دی۔ وہ بات جو مہذب معاشرے میں کہنا تو کجا، لکھنے پر بھی پابندی ہے۔ اس نے خاص مذہبی طبقے کو نشانہ بنایا اور ان کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کردی۔ وہی بڑبولا، جس پر الزام لگا کہ اس نے امریکہ میں عوام اور جمہوریت کی علامت، پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والوں کو ہلہ شیری دی اور ٹویٹر پر اس کی آخری پوسٹ کے الفاظ ”REMEMBER THIS DAY“ آج تک عوام کی حکمرانی کا خواب دیکھنے والوں کے دل دھلا دیتے ہیں۔

اپنے خواب میں صد ر اوباما سے مصافحہ کرنے والے کا دل اس دن ٹوٹ گیا، جب اس نے ٹی وی پر لگا ایک تماشا دیکھا جس میں سپریم کورٹ کے لیے نامزد ایک معزز جج کو سینٹرز کے نرغے میں گھرا ہوا دکھایا گیا۔ وہ رو رو کر اپنی بے گناہی کی دہائی دے رہا تھا، وہ سینٹ سلیکشن کمیٹی کو بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ میری دس سالہ بیٹی مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہے کہ کیا واقعی اس کے باپ نے کسی عورت کا ریپ کیا ہے۔ وہ سینٹرز سے اپنے مستقبل کی بھیک نہیں مانگ رہا تھا بلکہ التجا کر رہا تھا اسے اس الزام میں نہ رگیدا جائے کہ وہ جج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ٹیچر بھی ہے۔ اس ٹرائل کے بعد بھلا وہ کس منہ سے بچوں کو پڑھائے گا۔ مگر وہاں سینٹ میں سماعت کے نام پر سیاست ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر کے لیے تو وہ کوئی سقراط لگ رہا تھا جس کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے احمق اور عقل کے اندھے سمجھے جاتے ہیں۔

خوابوں کے جزیرے امریکہ جانے والے نامراد نے ایک دن اپنی کیپ پر امریکی جھنڈا سجا لیا۔ وہ امریکہ کا مشکور تھا کہ اسے وہاں مشکل وقت میں پناہ ملی۔ وہ امریکی جھنڈے سے بھی اتنا ہی پیار کرتا تھا جتنا اپنے وطن کے پرچم سے۔ بچپن سے اس کی عادت تھی کہ چودہ اگست کے بعد وہ گلیوں میں پھرتا اور نیچے گری جھنڈیوں کو اٹھا کر انہیں اس جگہ دفنا دیتا جہاں مقدس اوراق دفنائے جاتے ہیں۔ اس نے پرچم کا احترام کرنا اپنے فوجی باپ سے سیکھا تھا او ر وہ کسی ملک کے جھنڈے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھا لیکن جس دن اس نے امریکی جھنڈے کو اپنے ٹوپی پر سجایا تو ایک نسل پرست نے سب کے سامنے اس کے سر سے وہ ہیٹ اتار دی اور کہا تمہارا امریکی پرچم سے کیا لینا دینا۔ تم ایک دہشت گرد ہو۔ جاؤ، ہمارے ملک سے نکل جاؤ۔

وہ حیران تھا کہ جائیں تو جائیں کہاں، امریکی جھنڈے کا احترام نہ کرنے والوں کو ، وہاں کا صدر سر عام ماں کی گالیاں دیتا ہے اور جو امریکی پرچم اپنے سر اور سینے پر سجاتے ہیں انہیں بھی برا بھلا کہا جاتا ہے۔ ان کی وفا داری پر شک کیا جاتا ہے۔ شاید وہ پاگل خوابوں کے امریکہ میں نہیں، حقیقت کی دنیا میں رہ رہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی صدر اوباما، ان حالات میں کیسے اونچے منصب تک پہنچ گیا۔ کیا وہ کنگ میکرز کا کمال تھا یا کوئی سوچی سمجھی تدبیر، جس سے باقی دنیا کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ امریکہ میں بھی غلاموں کی لڑی کا کوئی چشم و چراغ، بادشاہ بن سکتا ہے۔

وہ امریکہ میں خوشحال تھا، پھل پھول رہا تھا، اس کی زندگی خوب بسر ہو رہی تھی مگر وہ وہاں ایک ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ رہ رہا تھا۔ شاید وہ زیادہ حساس طبعیت کا مالک تھا یا پھر اس پر منفی خیالات یا کوئی خوف حاوی رہتا۔ اسے وہاں دنیا کی ہر سہولت میسر تھی مگر وہ اپنے آپ کو سونے کے پنجرے میں بند ایک پرندہ سمجھنے لگا۔ شاید محنت کرنے کے بعد اس کا بیٹا بھی امریکی صدر بن جاتا مگر کیا اسے اپنی اصل شناخت مٹانا پڑتی۔ وہ یہ سوچ کر اداس رہنے لگا۔

اس نے وطن واپس آنے کا سوچا اور واپسی کی تیاری کرنے لگا تو کیا دیکھتا ہے اس کا سبز پاسپورٹ ایکسپائر ہو چکا تھا۔ وہ شناخت جسے وہ بے وقعت سمجھ کر بھول چکا تھا، اب وہ بھی اس کے کسی کام کی نہیں رہی تھی۔ وہ ہر حال میں سنہری بالوں والے بادشاہ کی سلطنت سے بھاگنا چاہتا تھا۔ دوست احباب اسے بے وقوف کہتے، تنہائی کا شکار، نفسیاتی مریضہ بن جانے والی اس کی بیوی بھی اسے کوسنے لگی کہ ایک پہیے پر گھر کی گاڑی کیسے چلے گی۔ بس ایک ماں تھی جو اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے بے قرار تھی، اس کا ایک چھوٹا بیٹا تھا جو اپنے باپ کو اصلی روپ میں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے امریکہ کو ہمیشہ آباد رہنے کی دعا دی اور صدر اوباما سے مصافحہ کیے بغیر اپنے ماضی کو لوٹ آیا۔ شاید یہ امریکہ سے برین ڈرین کا پہلا کیس تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments