ایک بٹا آٹھ (8 / 1) حصہ


 

ادھر مؤذن نے اذان دینا شروع کی، ادھر وہ اپنی چارپائی سے پاؤں نیچے اتارتی ہے۔ یہ اس کا روز کا معمول ہے۔ نہ اس نے کبھی الارم لگایا نہ اس کو کبھی اس کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کے لئے قدرت کی یہ گھنٹی ہی کافی ہوتی ہے۔ جب وہ بستر سے اٹھ کر بالوں کو باندھ رہی ہوتی ہے اور ساتھ کے ساتھ پاؤں میں چپل اڑس رہی ہوتی ہے۔ انھی لمحوں میں گاؤں کے بہت سے گھروں سے مرغے کی بانگ بھی سنائی دیتی رہتی ہے۔ ابھی جب کہ باقی گھر والے گہری نیند میں ہیں۔

اس کے لئے یہ آوازیں بہت ڈھارس دیتی ہیں۔ اسے دوسراہٹ کا احساس دلاتی ہیں اور اس کے سارے خوف کو نچوڑ کے ایک طرف رکھ دیتی ہیں جو وہ پہلے پہل محسوس کرتی تھی جب وہ شہر سے بیاہ کے اس کھلے صحن والے گھر میں آئی تھی۔ لیکن اب تو اسے یہ ملگجا اندھیرا، دل میں اترتی خاموشی خود سے بھی عزیز ہے۔ کیونکہ وہ سارے احساس جو انسانوں سے نہ کہہ سکیں وہ ان لمحوں کو دے دیں جو ہمیشہ رازدار بھی رہیں اور پردہ دار بھی۔

تیرہ سال پہلے وہ اس لکڑی کے کواڑوں، درمیانی کھڑکیوں اور چھوٹے چھوٹے روشن دانوں والے گھر میں داخل ہوئی تھی تو پہلی نظر میں اسے کسی بھی تاثر کا احساس نہیں ہوا۔ نہ اچھا، نہ ہی برا۔ ویسے بھی وہ جس رشتے میں جڑی یہاں تک آئی تھی وہ بھی انجان اور اجنبی تھا۔ اس کا رشتہ ماں باپ کی مرضی، جان پھٹک اور اس کے عندیے سے ہوا تھا۔ بظاہر میل ملاپ اور تحقیق سے اس کے سسرالی خاندان کے بارے میں اچھا تاثر ہی ملا تھا۔ سو پہلے مرحلے سے شادی ہونے تک ایک سال لگا اور اس کے بعد وہ یہاں تھی۔

جہاں صحن کچا اور کشادہ تھا۔ لیکن یہ کشادگی بہت پر تپش رہا کرتی تھی۔ کیونکہ سامنے اور الٹے ہاتھ پر بنے کمروں اور سیدھے ہاتھ بنے باورچی خانے کے فوراً بعد بڑا صحن شروع ہو جاتا۔ درمیان میں کوئی برآمدہ نہیں تھا جس کی وجہ سے براہ راست گرمی اور سردی دونوں ہی شتر بے مہار کی طرح ہر جگہ دندناتی پھرتیں۔ اور اس کچے صحن کے اس پار، سامنے کے کمروں کے مقابل ایک ہی غسل خانہ اور لیٹرین تھی جو سارے گھر کے زیر استعمال رہتا۔

یہ سب کچھ بہرحال اس سے مختلف تھا جسے میکے کے نام پر وہ پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ اگرچہ وہ ایک تعلیم یافتہ، متوازن اور سلجھی سوچ کی مالک تھی جو خوابوں سے زیادہ حقیقت کی تلخیوں سے واقف تھی۔ اس کے لئے رشتوں کی اہمیت، ہمیشہ مادی چیزوں سے اوپر رہی تھی۔ شادی اس کے لئے کبھی بھی فینٹسی ورلڈ نہیں رہا تھا جہاں شہزادہ، شہزادی ہنسی خوشی رہنے لگے۔ اسے معلوم تھا کہ یہ انسانوں کی کہانی ہے جو وقت کی اونچ نیچ سے عبارت ہے۔ کبھی محبت اور عزت کی چاشنی سے سجی ہے اور کبھی خفگیوں کی آوازوں سے ڈولتی ہے۔ کہیں صبر چاہیے اور کہیں اپنا حق۔ پھر بھی عملی طور اسے ان گنت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ماحول کا فرق، نئے رشتے، نسبتاً زیادہ افراد، چھوٹے سے بڑے رول میں تبدیلی (بڑی بھابھی کا کردار) وغیرہ وغیرہ۔

تو اس نے چھ افراد کے گھر میں اپنی شادی شدہ زندگی شروع کی، جہاں وہ خود ساتواں تھی۔ بن کہے اس نے اپنے شوہر کی دیدہ و نادیدہ ذمہ داریوں کو بانٹ لیا تھا۔ اس کے لئے احترام اور لگاؤ کا جواب پیار اور مان کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اور اتنے سالوں کے اتار چڑھاؤ کے بعد ، کھٹے میٹھے ساتھ میں مشترکہ کوشش، نیت، اور لگن سے انھوں نے بہت ساری مثبت تبدیلیاں کمائی تھیں اور اپنے فرائض سے باحسن سبکدوش بھی ہوئے تھے۔

خیر بات لمبی ہو گئی۔ چلئے اس سحری کے وقت میں دوبارہ جھانکتے ہیں جہاں وہ پاؤں جوتے میں ڈال رہی ہے اور بالوں کو سمیٹ رہی ہے۔ تسلی سے وضو کر کے، نماز کی ادائیگی کرنا، قرآن کی تلاوت کرنا اس کے پسندیدہ کام ہیں۔ یہ اس کا می ٹائم ہوتا ہے۔ اپنے دل کی کہنا اور اپنے رب کی سننا دونوں ہی اس وقت ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی اس کے لئے یہ ملگجا اندھیرا اور پر سکون لمحے بڑی غنیمت ہوتے ہیں۔ دن کی نکلتی روشنی، چڑھتا، چمکیلا سورج اور بھاگتی دوڑتی، روزمرہ کی زندگی ان کو نگل لیتے ہیں۔ اور آج تو ویسے بھی اس کے پاس ایک لمبی لسٹ کرنے اور کروانے کو ہے۔

آج اس کے پیارے شوہر کے قریبی دوست اپنی بیگمات کے ساتھ، ان کے ہاں، مدعو ہیں۔ اس لئے وہ دن کے آغاز سے ہی مصروف ہے۔ روز کے شیڈول کے ساتھ دعوت طعام کی بھی خصوصی تیاری درکار ہے۔ حالانکہ وہ ایسے کسی کام کو حصوں میں تقسیم کر کے دو چار روز کے اندر ترتیب سے چیزیں مینیج کرنے کی عادی ہے۔ جس سے اسے نا صرف سہولت ہوتی ہے بلکہ وہ تھکن سے بھی بچ جاتی ہے۔ علاوہ اس کے، آرام سے مہمانوں کی صحبت سے بھی لطف اندوز ہو جاتی ہے۔

خیر یونہی بھاگتے، دوڑتے، انتظامات کرتے، کرواتے شام اتر آئی۔ مہمانوں کی آمد و استقبال کا مرحلہ طے ہوا اور پھر کھانے کی میز سج گئی۔ آرام دہ، طویل اور خوشگوار ماحول میں عمدہ اور لذیذ کھانے سے مہمان و میزبان لطف اندوز ہوئے۔ اور اس کا خون سیروں کے حساب سے بڑھتا رہا۔ دل میں مولا کا شکر ادا کرتی رہی جو ہر ایسے موقع پر اس کی انگلیوں میں ذائقے اور ہاتھوں میں تیزی کا بھرم رکھتا ہے اور منہ سے دوست احباب کی ممنون ہوتی رہی جو کھلے لفظوں میں اس کے انتظام و انصرام کی تعریف کرتے رہے۔

کھانے کے بعد خوش گپیاں ہو رہی تھیں تو وہ گھریلو مددگار کو چائے، کافی اور قہوے کے بارے میں بتانے اٹھ آئی۔ اسے سمجھاتے اور تیاری کرواتے کوئی آدھا گھنٹا لگ گیا۔ واپسی میں مہمان خانے سے چند قدم دور اسے اپنا نام اور شوہر کی آواز سنائی دی۔ اور اشتیاق نے اس کے قدم روک لئے کہ چلو آج پس پردہ صاحب کے بیوی کے بارے میں اچھے خیالات سے دل کو خوش کیا جائے۔ اس کے جی میں آنے والا گمان بڑا پر یقین تھا۔ کہ اس نے سنا:

بھابھی! یہ تو سب عورتیں ہی کرتی ہیں۔ میری بیوی نے بھی کر دیا۔ جواباً حاضرین محفل سے دو چار مشترکہ آوازیں آئیں کہ نہیں نہیں، سب لڑکیوں میں ایسا صبر، سلیقہ اور ہمت نہیں ہوتی۔ خود ہمیں ہی دیکھ لیں۔ آپ کی بیوی ہیرا ہے، جس نے آپ کی ذمہ داریوں اور حالات میں، آپ کا آخیر ساتھ دیا ہے۔ آپ کے خاندان کی تربیت اور ترقی میں اس کی محنت ہے۔ جس پر اس کا شوہر کہتا ہے۔ آپ نے تو زمین آسمان کے قلابے ہی ملا دیے۔ اگر ایک لڑکی شادی کے بعد شوہر کے گھر کچھ کرتی ہے تو اس کو شوہر کی وراثت سے ایک بٹا آٹھ حصہ بھی تو ملتا ہے۔ ہر کسی کو دوسرے سے کوئی فائدہ ہی درکار ہے۔ ہماری زرعی زمین بھی سب احسان پورے کر دے گی۔

اور وہ جو، دیوار کے اس پار، دروازے سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔ ساری خوش فہمیاں اس کے چہرے کو جلانے لگیں۔ اتنے سالوں کی رفاقت اور ریاضت کے ٹوٹتے بھرم اس کا دل چیرنے لگے۔ محبتوں اور بھروسے کے اندھے اعتقاد پر طے کیے فاصلے ایک پل میں صفر سے ضرب ہو ہو کر خالی پن کا ڈھیر لگانے لگے۔ اس کی کوششوں کی قیمت صرف ایک بٹا آٹھ وراثتی حصہ تھی تو پھر باپ کا گھر کیا برا تھا جہاں دام بھی زیادہ ملتے، یہ سوال اس کے دماغ میں کرلانے لگا اور وہ بے جان ہوتے وجود اور اکھڑتی سانسوں کے ساتھ وہیں زمین پر ڈھیر ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments