یہ سکرپٹ کون لکھتا ہے اور کیوں لکھتا ہے؟


فاطمہ جناح پر غداری کا الزام، شیخ مجیب کو حق مانگنے پر پابند سلاسل رکھا گیا۔ شیخ مجیب سے جو بھی وعدہ کیا گیا اس کی پاسداری نہیں کی گئی لیکن غدار پھر بھی شیخ مجیب الرحمن تھا۔ بھٹو پر الزام کہ اس نے ملک توڑا۔ بے نظیر بھٹو سکیورٹی رسک تھیں اور نواز شریف تو مودی کا یار تھا۔ جبکہ عمران خان یہودی ایجنڈے پر عمل پیرا اور اور سازش کے تحت ملک پر مسلط کیا گیا ہے۔ اگر یہ سب الزامات درست ہیں بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ الزام درست ہی ہیں کیونکہ محب وطن قیادت کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا جیسا ان مندرجہ بالا قائدین کے ساتھ ہوا ہے تو پھر سوال تو اٹھتا ہے کہ ملک و قوم کے ساتھ مخلص کون ہے۔

یہ بھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر سیاسی قیادت غدار، کرپٹ اور نا اہل ہے؟ یہ بھی تو سوال ہے کہ سیاسی قیادت جب اقتدار میں آتی ہے تو غلطیاں کرتی ہے اور پھر ان غلطیوں کی اصلاح کرتے کرتے جب میچور ہوتی ہے تو یا تو اس کو قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر جلاوطن کر دیا جاتا ہے۔ کیوں ہوتا ہے ایسا کوئی جواب ہے کسی کے پاس۔ یا پھر کون ایسا ہے کہ جس کی سنی جائے جس کو مسیحا مان کر اس کے پیچھے چلا جائے جس کی کہی ہوئی باتوں پر اعتبار کیا جائے۔

آپ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی سوچ یا نظریے کے حامی ہیں جو بھی ہیں مگر ایک پاکستانی تو ہیں تو برائے کرم ایک لمحے کو رک کر سوچیں کہ اگر ماضی کے تمام سیاسی قائدین پر لگے الزامات درست ہیں تو پھر ٹھیک کون ہے۔ اگر یہ الزامات غلط ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تمام سیاسی قائدین ٹھیک ہیں پھر خرابی کسی اور جگہ پر ہے۔ ہم اس مرحلے پر رک کر اس کا فیصلہ کیوں نہیں کرلیتے کہ کیا ٹھیک ہے کیا غلط ہے۔ قابل احترام قبلہ وجاہت مسعود کا فرمانا درست ہے کہ ”جب ہم تاریخ سے انکار کرتے ہیں یا تاریخ کو مسخ کرتے ہیں تو دراصل ہم اپنی گزشتہ غلطیوں، ثابت شدہ غلط ترجیحات اور از کار رفتہ اقدار پر اصرار کر رہے ہوتے ہیں۔ تاریخ سے انکار، ارتقا سے انکار ہے“ اور ہماری تاریخ تو ہر محب وطن کو غدار قرار دینے جیسے عظیم کارناموں سے بھری پڑی ہے۔

اسلاف کا ماضی تو چھوڑیں دور کی بات ہے گزشتہ 74 سالوں کی تاریخ کو سرکاری نصاب میں جس طرح پیش کیا گیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم تاریخ کو مسخ کرنے میں کس قدر ماہر ہیں۔ آج ایک ایک کر کے پرتیں ہٹتی جا رہی ہیں حقائق کا ایک جہان جاننے والوں کا منتظر ہے۔ اب تو قیامت کا سماں ہے کہ جو کچھ ماضی میں کیا یا کہا ہے وہ انگلیوں کے ناخنوں پر نظر آنے کی مثل موبائل پر نظر آ رہا ہے۔ کسی بات سے انکار ممکن نہیں رہا سوائے اقرار کے مگر اس سب کے باوجود ہم بقول وجاہت مسعود اپنی گزشتہ غلطیوں، ثابت شدہ غلط ترجیحات اور ازکار رفتہ اقدار پر اصرار کر رہے ہیں۔ کیسے کر رہے ہیں تو اس کی ایک دلیل پیش خدمت ہے۔ سابق چیف جسٹ گورنر و وزیراعلیٰ بلوچستان جسٹس (ر) میر خدا بخش بجارانی مری بلوچ کی کتاب سے اقتباس پیش خدمت ہے اس کو پڑھیں تاریخ جانیں اور ان حالات کا موجودہ حالات سے موازنہ کریں اندازہ ہو جائے گا کہ ازکار رفتہ اقدار پر اصرار کیا ہوتا ہے۔

سابق چیف جسٹس گورنر و وزیراعلیٰ بلوچستان جسٹس (ر) میر خدا بخش بجارانی مری بلوچ اپنی کتاب مارشل لا، آئین اور عدالتیں کے باب اول ملٹری ازم اور عدالتی انجینئرنگ میں لکھتے ہیں کہ ”جنرل ایوب خان جو بعد میں فیلڈ مارشل ایوب خان بنے کا دس سالہ دور حکومت سرکاری طور پر ترقی کی دہائی قرار دیا گیا مگر عوام نے بجا طور پر اسے زوال کی دہائی قرار دیا۔ اس دور حکومت میں جیسا کہ ہر فوجی آمریت کے دور میں ہوا کرتا ہے عوام کو سیاسی رائے اور اداروں سے محروم کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنے مخالفوں کو ترغیب اور تحریص میں مبتلا کیا۔ انہیں پوری طرح بدعنوان بنایا۔ یا پھر وحشیانہ قوت کے ذریعے ان کی آواز اس حد تک دبا دی کہ اب ملک میں صرف جنرل صاحب کی آواز ہی سنائی دیتی تھی۔

انہوں نے دنیا کے ہر موضوع پر اس طرح بلند آہنگ میں بات کی گویا وہ ہر علم پر حاوی ہیں۔ جب تک وہ نفع پہنچاتے رہے ان کے پالتو ان کی پالیسی کے ہر موڑ کو ہر خامی کو صحیح قرار دیتے اور اس کا جواز پیش کرتے رہے۔ انہوں نے ایوب حکومت کے جواز کے سوال کو سرے سے ہی نظر انداز کیے رکھا۔ انہوں نے رائے عامہ کے بتدریج بڑھتے ہوئے دباؤ کو بھی نظر انداز کر دیا۔ اچانک صدر ایوب خان نے خود کو چاروں طرف سے گھرا ہوا پایا۔ ان پر ہرطرف سے لعن طعن ہو رہی تھی۔ وہ پیش قدمی کی قوت سے محروم ہو گئے۔ ان کے پاؤں جکڑے گئے جیسا کہ ہر فوجی حکمران کا مقدر ہوتا ہے ”

ایوب خان کا زریں اور سنہرا دور جس کی مثالیں چند مخصوص تجزیہ نگار دیتے نہیں تھکتے کی حقیقت میر خدا بخش کی کتاب میں پڑھی جا سکتی ہے۔ آج کے حالات کے مطابق غور کریں تو لگتا یہی ہے کہ ایک ہی سکرپٹ رائٹر ہے اور ایک ہی کہانی ہے اور کم وبیش حالات بھی یکساں اور ایک سے ہیں بس کرداروں کے ناموں کا فرق ہے۔ مگر عادات، اطوار اور طرز حکمرانی بھی ایک سی ہے۔ عوام کی حالت بھی ایک جیسی ہے اور شاید انجام بھی ایک سا ہونے والا ہے۔

تو آخری سوال یہ ہے کہ کون لکھتا ہے یہ کہانیاں۔ یہ سکرپٹ رائٹر کون ہے جو اس سکرپٹ پر کام کرنے والے اداکاروں کا انتخاب کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے۔ کروڑوں عوام کو ایک سکرپٹ کے تحت چلانے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔ ان کو فیصلے کرنے کا اختیار کیوں نہیں دیا جاتا۔ عوام کو اپنے غلط فیصلوں کو ٹھیک کرنے کا موقع دیں۔ یہ غلطیاں کر کے ہی سیکھیں گے۔ مشکلات میں گھر جائیں گے تو ان سے نکلنے کی تدبیر بھی کریں گے جدوجہد کریں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی غلطیاں کم ہوتی جائیں گی اور ایک دن یہ بہترین قیادت کو منتخب کرنے کے قابل ہوجائیں گے مگر فیصلے ان کو خود کرنے دیں، ان کو کہانیاں لکھ کر مت دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments