سنجی راجہ: آؤ مفت کتابیں پڑھیں


ہم سب نے اپنے اردگرد کتابوں کے شوقین تو بہت دیکھے ہیں، جو کتابوں کے کیڑے کہلاتے ہیں۔ پر ہر کسی کو کتاب پڑھنے کے لیے خریدنا ضرور پڑتا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں، بس وہی لوگ کتابوں کو خریدنے کے لیے گنجائش نکال پاتے ہیں، جن کو کتاب پڑھنے کی لت لگی ہو، باقی لوگ تو ادھار سدھار پہ کام چلاتے ہیں۔ پر جو بات میں آپ سب کو بتانے جا رہی ہوں، یہ بات سن کر ، میری طرح آپ سب کو بھی تعجب ہو گا۔ اس افراتفری اور خودغرضی کے دور میں بھی کہیں کہیں ایسے افراد پائے جاتے ہیں، جو نہ صرف کتاب آپ کے گھر کی دہلیز تک پہنچاتے ہیں، بلکہ مفت میں پہنچاتے ہیں، یہاں تک کہ پوسٹ کا خرچہ بھی خود ادا کرتے ہیں۔

جس دور میں کوئی کسی کو اپنا بخار تک نہ دے، اس میں اپنی پسند کی کتاب اور وہ بھی مفت میں ملنا کہاں ممکن ہے؟ ، کوئی کہے گا تو بولیں گے مذاق کر رہا ہے۔ پچھلے سال کورونا وائرس جب آیا تو دوسری ممالک کی طرح، ہمارا ملک بھی لاک ڈاؤن کی طرف گیا، اور تمام کاروبار ٹھپ ہو گیا، چیزوں کی شہر شہر، گاؤں گاؤں رسائی مشکل میں پڑ گئی۔ کچھ ماہ قبل میں نے بلوچستان کے علاقے کی خبر پڑھی تھی، کہ لاک ڈاؤن کے دنوں میں، دور دراز کے علاقوں میں درسی اور ادبی کتابوں کی دستیابی کے لیے، اونٹ لائبریری شروع کی گئی ہے۔

اونٹ کے دونوں طرف، کتابوں کے ٹھیلے بھر کر ، دور دراز کے علاقوں میں کتاب بیچے جاتے تھے۔ پر ہمارے سندھ صوبے میں تو ایسا انوکھا کردار رونما ہوا ہے، جس نے مفت کتابوں کی دستیابی سے تھوڑی سے وقت میں بہت نام کمایا ہے۔ لاڑکانے کے شہر باڈھ سے تعلق رکھنے والا، سندھ کی دل کراچی میں رہائش پذیر، سول انجنئیر کے شعبہ سے وابستہ، سنجی راجہ بھی ایک ایسا کردار ہے، جس پر سب سندھیوں اور پاکستانیوں کو فخر محسوس ہو گا۔ سنجی راجہ ایک سال سے زائد عرصے سے ”سندھ ریڈز“ کے ٹائیٹل سے مفت کتابوں کی مہم میں مصروف ہے، جو سن کر مجھے شروع شروع میں تو یقین نہ آیا، پھر جب ثبوتوں کے ساتھ سوشل میڈیا پہ دیکھا، اور میری پسندیدہ کتاب جب مفت میں میرے پاس پہنچی، تو یقین آیا کہ، واقعی یہ کوئی گمان نہیں، بلکہ سچی حقیقت ہے۔

سنجی راجہ کو میں نے تب جاننا شروع کیا، جب وہ سماجی رابطوں والی ویب سائیٹ ٹویٹر پہ، مختلف کتاب خرید کر ان کے فوٹو ٹویٹ کرتا، اور بولتا، جس کو بھی کتاب چاہیے، اپنا ایڈریس میرے انباکس میں بھیج دے، اس کو گھر بیٹھے اپنی منتخب کی ہوئی کتاب مل جائے گی۔ پھر جو لوگ کمینٹ میں اس سے کتاب مانگتے، ان کو سنجی کی طرف سے مفت میں دو یا تین دن کے دوران وہی کتاب مل جاتی۔ اس کی کہانی پاکستانی اخبار جب ایکسپریس ٹریبیون میں شایع ہوئی، تب جا کے دور دراز کے لوگوں کو پتا چلا کہ، سنجی راجہ کون ہے، اور وہ کون سی انوکھی مہم میں مصروف ہے۔

پہلے تو مجھے یہ سب سن کر بہت عجیب لگا، ایک من گھڑت کہانی لگی۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس دور میں، کوئی کیوں بھلا بنا غرض کے اپنے خرچ سے کتاب خرید کر ، پڑھنے والوں کو دیتا رہے گا؟ پر وقت گزرنے کے ساتھ اس بات کا بھی یقین ہو گیا، کہ اب بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جو دوسروں کا بھلا سوچتے ہیں، انسانیت کی فلاح و بہبودی کا جذبہ رکھتے ہیں، جو نیکی کر کے دریا میں ڈالنے کی قوت رکھتے ہیں۔ سنجی راجہ نے اپنی جیب سے دو لاکھ سے زائد پیسوں کی کتابیں خرید کر مفت عطیہ کی ہیں، اور اس کے علاوہ تقریباً ساٹھ ہزار سے زائد پیسوں کا لوگوں نے اسے چندہ بھی دیا، جس سے اس نے کتاب خرید کیے۔

سنجی راجہ سے جب بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ، سماجی ورکر کی حیثیت سے وہ پچھلے پندرہ سالوں سے ایسے کام کر رہا ہے، جس سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ اس نے 2006 میں طالبات کے لیے اسٹوڈنٹ کونسل لاڑکانہ کے نام سے ایک تنظیم جوڑی، اور اس نے کانفرنس بھی منعقد کروائی، جس کا موضوع تھا ”اساتذہ کی عظمت“ ، جو کہ اس کی کامیابی کی پہلی سیڑھی تھی۔ پھر وہ سیڑھیاں چڑھتا گیا، اور یوں راستہ آگے کو نکلتا گیا اور منزلیں طے ہوتی گئیں۔ وہ سندھی ادبی سنگت میں ممبر کی حیثیت سے شامل رہ چکا ہے۔

سنجی راجہ نے ان کاموں کے ساتھ اپنی پڑھائی بھی جاری رکھی، اور اس نے قائد عوام یونیورسٹی نوابشاہ سے سول انجینئرنگ کے شعبے میں گریجوایشن کی ڈگری حاصل کرلی اور دو سال تک اسٹوڈنٹ تنظیم کا صدر بھی رہا۔ اس دوران بھی اس نے ”علم طاقت ہے“ کے نام سے ایس ایم ایس کی سروس شروع کی، جس کے ذریعے وہ تیس سے زائد یونیورسٹیوں کے طلباء سے جنرل نالج شیئر کرتا تھا۔

سندھ پبلک سروس کمیشن سال 2015 کے امتحانوں میں سنجے وہ واحد اقلیتی امیدوار تھا، جو چوتھی پوزیشن حاصل کر کے سترہ گریڈ کا اسسٹنٹ انجینئر بنا، اپنے گھر والوں اور برادری کا نام روشن کیا۔ سنجی راجہ نے اپنی ابائی شہر باڈھ میں اپنی ہندو برادری کی مدد کے لیے ایک تنظیم بنائی، جس کا نام داس (دیپ ایسوسی ایشن آف سوشل سروسز) رکھا اور اس نے دو سال تک دیوالی کے تہوار میں اپنے لوگوں کے بڑے بڑے فنکشن ترتیب دیے۔

سنجی راجہ کے مطابق پہلے اس نے ارادہ کیا کہ وہ لوگوں سے پڑھی ہوئی کتابیں لے، اور مختلف لائبریریوں کو دے۔ پر اسے خاصی توجہ نہ ملی اور اسے نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ اب سنجی راجہ نے کچھ ایسی ٹھان لی، جیسے پہلے کبھی کسی نے نہیں ٹھانی، اگر ٹھانی ہوگی تو کم سے کم میرے علم میں تو نہیں۔ سنجی راجہ نے مختلف لائبریریوں، اسکولوں، اور کتاب کے شوقینوں کو مفت کتابیں دینا شروع کر دیں۔ وہ کتابوں کی دکانوں میں جاتا، مختلف مضامین کی کتابیں خود اپنے خرچ سے خریدتا، پوسٹ کے اخراج بھی خود ادا کرتا، اور پڑھنے والے کو اس کی پسندیدہ کتاب گھر بیٹھے مل جاتی۔

سنجی کی کتابیں مفت میں پڑھنے والے صرف سندھ میں ہی نہیں، بلکہ پوری پاکستان اور سرحد پار میں بھی ہیں۔ اس کی کتابیں وصول کرنے والے دادو میں بھی ہیں تو دبئی میں بھی۔ اس نے اپنی مہم کا نام ہیش ٹیگ کے ساتھ ”سندھ ریڈز“ رکھا، جس کی معنیٰ ہے، سندھ پڑھے گا۔ سنجی نے سولہ سؤ سے زائد کتابیں پانچ اسکولوں اور دس لائبریریوں کو مفت میں عطیہ کی ہیں۔ اور وہ انفرادی طور پر اپنے دوست، رشتے دار، جاننے والوں، اور سوشل میڈیا کے ساتھیوں کو مفت کتاب دینے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ سنجی راجہ کے گھر والوں نے اعتراض کیا ہو، پر سنجی نے یقیناً سب کو قائل کر دیا ہو گا۔ سنجی راجہ تو خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ ہونے کے الزام سے بھی بچ نہ پایا، پر سچ بھلا کہاں چھپائے چھپا ہے، اور جھوٹا الزام کہاں زیادہ دیر تک ٹک پاتا ہے۔

کیونکہ کسی ذاتی غرض اور لالچ سے پاک سنجی راجہ بس یہی چاہتا ہے کہ سندھ کے لوگ زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھیں، اور کتابوں سے لگاؤ رکھیں، جو کہ علم و آگاہی کا ذریعہ ہیں۔ میں نے جب سنجی کا ایک ٹویٹ دیکھا تو ان میں سے دو کتابیں پسند کی، اور اپنا پتہ اس کو ارسال کر دیا۔ ابھی ایک دن ہی گزرا، کہ کتابیں میری ہاتھ میں پہنچ چکی تھیں۔ کتابیں وصول کر کے خوشی بھی ہوئی، سنجی راجہ پر فخر بھی ہوا، اور عجیب محسوس بھی ہوا، کہ اس دور میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جو مفت کتابیں دینے کا ذمہ اپنے سر اٹھائے ہوئے ہیں۔

اب تو ”سندھ ریڈز“ کی مہم بہت مشہور ہو چکی ہے، اور کچھ دوسرے افراد بھی اس میں شامل ہونا چاہ رہے ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے۔ ہمیں لاڑکانہ کی مٹی سے جنم لینے والے سنجی راجہ پر فخر ہے، جو لوگوں میں علم و آگاہی پھیلانے کے لیے کتابیں مفت میں عطیہ کر رہا ہے، اور اپنی طور پہ سندھ میں ایک نرالا رکارڈ بنا رہا ہے، جو کہ پہلے شاید کسی نہ بنایا نہ ہو۔ سنجی راجہ کی دی گئی کتابیں، مختلف موضوعات پر مشتمل ہوتی ہیں، پر یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کون سی کتاب پسند کرتے ہیں۔

فکشن، ناول، آپ بیتی، سائنس، تاریخ، سیاست سمیت دیگر مضامین کی کتابیں سنجی راجہ خرید کر لوگوں کو دیتا ہے۔ بقول سنجی راجہ کے، آپ کو اپنی پسندیدہ کتاب پڑھنے کے بعد اپنے پاس چھپا کے رکھنی نہیں چاہیے، بلکہ دوسرے لوگوں سے شیئر کرنی چاہیے، جیسے وہ بھی اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔ سنجی راجہ ان امیدواروں کو بھی مدد کرتے ہیں، جو مقابلے کے امتحانوں میں تیاری کر رہے ہوتے ہیں، اور بچوں کو بھی دلچسپ کہانیوں کے کتاب بھیجتے ہیں۔ اب اس کی سندھ ریڈز کی مہم سے متاثر ہو کر دوسرے لوگ بھی اس میں حصہ ڈال رہے ہیں، اور وہ بھی سنجی راجہ کی اس کوشش سے کافی خوش ہیں۔ ہم دعاگو ہیں کہ سنجی راجہ جیسے اور بھی چھپے کردار ہمارے سامنے آئیں، اور سنجی راجہ کو اپنی اس سماجی خدمت میں اور بھی وسعت ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments