ٹین ایج بچوں کا جذباتی آتش فشاں اور خودکشی


\"\"اسد خان بھی ساتویں جماعت ہی کا بچہ تھا جس نے 22 ستمبر کو گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ پچھلے چار ماہ میں اب تک اس کی المناک موت پر پچاسوں اخباری مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ رکن اسمبلی سمیت ہزاروں افراد اس کے غم سے نڈھال خاندان کو سہارا دینے کے لئے اس کے گھر جا چکے ہیں۔ مختلف چینلوں پر والدین کے انٹرویو بھی نشر ہوچکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہمدردی کرنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں سے کم نہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اس نے اپنی جان خود لی ہے لیکن حکام سانحہ کی فائل بند کرنے کو تیار نہیں۔ ہر زاویہ سے تفتیش جاری ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ بچہ اسکول میں رنگ، نسل یا مذہبی امتیاز کا شکار تھا؟ کہیں لفنگے بچوں کے گروہ نے اس کو اتنا تنگ تو نہیں کردیا تھا کہ وہ اپنی زندگی ہی سے مایوس ہوگیا تھا؟ اساتذہ کا کیا کردار تھا؟

اسامہ بھی ساتویں کلاس کا طالب علم تھا۔ اس نے ایک خط میں اپنی ٹیچر سے عشق کا اظہار کیا اور خود کو گولی مار لی۔ اس سانحہ کی پہلی اطلاع مجھ تک ایک لطیفے کی شکل میں پہنچی۔ سوشل میڈیا میں افسانہ اور وعظ نما مضمون میں کلاس ٹیچر پر کیچڑ بھی اچھالنے سے آگہی ہوئی اور دو دن بعد اخبارات سے یہ خبر غائب بھی ہوگئی۔ ایک آدھ ٹاک شو میں البتہ اس واقعہ کا سہارا لے کر معاشرہ کی گرتی ہوئی اخلاقیات پر خوب گرجا برسا گیا۔ مغربی ثقافت، سمارٹ فونز، بھارتی فلموں، بے حیائی، بے پردگی سارے امراض کی تشخیص کرلی گئی۔ ایسے ایک پروگرام میں ہم سب کے جانے پہچانے مشہور و معروف محترم جناب مفتی عبدالقوی صاحب کو مدعو کرکے تادیر ان کے وقیع خیالات سنوائے گئے تاکہ مستقبل کے معمار اور ان کے والدین مفتی صاحب کی حیات مبارکہ اور پند و نصائح سے رہنمائی حاصل کرسکیں۔

 گیارہ سالہ اسد اور پندرہ سالہ اسامہ میں صرف عمر کا تفاوت ہی نہیں متعدد اور بھی فرق ہوں گے لیکن دونوں کی المناک اور قابلِ گریز اموات پر دو مختلف معاشروں کے ردِعمل میں ایک واضح فرق دکھتا ہے اور وہ یہ کہ اسد انگلستان کے شہر بریڈفورڈ کے اسکول کا طالب علم تھا جب کہ معصوم اسامہ ملکِ پاکستان کا رہائشی تھا۔

ایک باپ کی حیثیت سے جس کے بچے ٹین ایج سے گزر رہے ہیں میں خود کو ان کے والدین کے غم میں شریک پاتا ہوں، اور ضروری سمجھتا ہوں کہ جواں عمری کی نفسیات کو خرافات اور یاوہ گوئی کی بجائے سائنسی انداز میں سمجھا جائے۔

بلوغت ایک عبوری دور کا نام ہے جس سے انسان بچپن کو خیرباد کہتا ہے اور جوانی میں قدم رکھتا ہے۔ عنفوانِ شباب (پیوبرٹی) ان تبدیلیوں کا نام ہے۔ عام طور پر ہم اس عرصے کو ٹین ایج کہہ لیتے ہیں لیکن درحقیقت مختلف بچوں میں ان تبدیلیوں کے رونما ہونے میں کئی سالوں کا فرق ممکن ہے لیکن ترتیب کم و بیش یکساں ہوتی ہے۔ بچیاں تیزی سے قد نکالتی ہیں، ان کا سینہ ابھرتا ہے، کولہے چوڑے ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ بالغ عورتوں جیسی لگنے لگتی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ انہیں ماہواری آنی شروع ہوجاتی ہے جب کہ لڑکوں کے چہرے پر داڑھی مونچھیں نمودار ہوتی ہیں۔ ان کے تولیدی اعضا نشوونما پاتے ہیں، گردن کا کنٹھا ابل کر باہر آجاتا ہے، آواز بھاری ہوجاتی ہے اور شانے چوڑے۔ جب کہ وقتاً فوقتاً مادۂ منویہ کا اخراج ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کئی سال خاموشی سے بہتی زندگی کی اس ندی میں یہ طغیانی کون لاتا ہے۔ اس کا جواب ہے \”ہارمونز!\” گو درجن بھر ہارمون اس عمل میں شریک ہوتے ہیں لیکن لڑکوں کو مرد بنانے میں اہم ترین کردار \’ٹیسٹوسٹیرون\’ ادا کرتا ہے جب کہ لڑکیوں میں یہ کارگزاری \’ایسٹروجن\’ کی ہوتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں ہارمون دونوں جنسوں میں موجود ہوتے ہیں لیکن مقدار مختلف ہوتی ہے۔

ٹین ایج بچوں میں یکایک جھگڑالو پن، ہر پل بدلتے موڈ اور جنسی خواہش انہی ہارمونوں کی شرارت ہوتی ہے۔ بالخصوص ٹیسٹوسٹیرون تو جذبات میں آگ ہی لگا دیتا ہے، لڑکوں کو جنسی عمل یا خودلذتی پر اکساتا ہے۔ لڑکیوں میں اس طرح کا رویہ اب تک کی سائنسی تحقیق سے ثابت نہیں ہوسکا لیکن پیریڈز کے دواران ان کے مزاج میں بھی شدید اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ ان ہارمونز کا ساتھ انسان کی ساری عمر ہی رہتا ہے لیکن عنفوانِ شباب میں یہ غیر متوقع اور طاقتور اثرات مرتب کرتے ہیں۔

اس عبوری عمل میں انسان صرف ہارمونز کے ہاتھوں میں کھلونا نہیں بنا ہوتا بلکہ سماجی رجحانات اور ان کا ردِعمل بھی ہوتا ہے مثلاً دوشیزہ بچی کو کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے یا ایک بچہ کی داڑھی ہے اور اس کے ہم عمر کا چہرہ بچہ کی طرح صفا چٹ ہے تو اس کے اثرات بھی موڈ پر پڑتے ہیں۔ ہارمونز سے جگائے ہوئے جنسی جذبات سماجی اور ثقافتی رویوں سے اثر پزیر ہوکر متنوع نتائج دکھاتے ہیں مثلاً لطف اندوز خیالی دنیا کے حسین خواب، ہر وقت ذہن پر سوار \’گندے\’ خیالات اور مسلسل شرم کا احساس، خود کو خوفزدہ کرنے والی ڈھیٹ سوچیں یا فوراً \’ایکشن\’ کے مواقع!!

لڑکے اور لڑکیاں اپنے جنسی جذبات کا اظہار مختلف طریقے سے کرتے ہیں لیکن یہ تنوع اصلاً ثقافتی ہوتا ہے۔ اصل جذبات کی نوعیت ہر کلچر میں یکساں ہوتی ہے۔

 غذائی قلت سے عنفوانِ شباب موخر ہوجاتا ہے جب کہ کھاتے پیتے بچوں میں اس کی ابتدا جلدی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ایک خارجی عامل \’اسٹریس\’ بھی ہے جو گھوڑے پر چابک کی طرح کام کرتا ہے۔ اسٹریس کے اسباب میں والدین میں ناچاقی، بکھرتے خاندان، کثیرالعیال گھرانے وغیرہ شامل ہیں۔

ان ہارمونز کے زیر اثر ٹین ایجرز کا یومیہ ردھم متاثر ہوتا ہے۔ وہ کوشش کے باوجود رات دیر تک جاگتے رہتے ہیں اور صبح دیر تک سوتے رہتے ہیں۔ تعلیم پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ شومئی قسمت زندگی کا یہی حصہ ہوتا ہے جب وہ پہلی مرتبہ بڑے امتحانات میں بیٹھ رہے ہوتے ہیں۔

ہارمونز کی کارگزاری سے جسم سے پسینے، چکنائی اور جسمانی بو کا اخراج شروع ہوتا ہے۔ کیل، مہاسے اور پھنسیاں ان کے چہروں پر نمودار ہوتی ہیں جن سے ٹین ایجر سخت پریشان رہتے ہیں۔ نت نئے شیمپوز، لوشن اور پرفیومز خریدے جاتے ہیں۔ زیادہ وقت غسل خانے میں یا آئینے کے سامنے گزرتا ہے۔ پیسے والے گھروں کے بچے مہنگے مہنگے برانڈ کے کپڑے اور جوتے پہن کر اپنے جسمانی \’عیبوں\’ سے فرار حاصل کرتے ہیں۔

نوجوان اپنی فطری خواہشات کی تسکین کے ذرائع ڈھونڈتے ہیں، جس کے بہت سے خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں مثلاً وہ ناقابل علاج جنسی بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں، بچیاں کم عمر میں ماں بن سکتی ہیں اور قریبی عزیزوں سمیت آس پاس موجود بالغ افراد ان کا جنسی استحصال کرسکتے ہیں۔ شراب، سگریٹ اور تمباکو سمیت دیگر مضرِ صحت منشیات کی عادت بھی اسی عمر میں پڑ سکتی ہے۔ جن سے ساری عمر چھٹکارا نہیں پایا جاسکتا۔

عنفوانِ شباب میں جس طرح جسمانی نشوونما بڑی سرعت سے ہوتی ہے بالکل اسی طرح شعوری بالیدگی کو بھی پر لگ جاتے ہیں۔ وہ مفروضوں پر بات کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں اور بحث میں دلیل کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ مستقبل کے امکانات اور قیاسات پر غور کرنا بھی سیکھ لیتے ہیں۔ لیکن ان کی زیادہ سوچوں کا دائرہ کار ان کی ذات ہی ہوتی ہے۔ وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ دوسروں کو ان کی شکل و صورت اور رویے میں بڑی دلچسپی ہے اسی لئے اس عمر میں سماجی شرم بہت عام ہوتی ہے۔

ذہانت اور حساسیت کی اس اچانک افتاد سے ایسے نفسیاتی امراض بھی اچانک اچھل کر سامنے آجاتے ہیں جو اب تک بچپن کی چلمن میں چھپے ہوئے تھے۔ مثلاً شدید ڈپریشن، شیزوفرینیا وغیرہ

اس عمر میں بچے نتائج سے بالکل بےپروا ہوکر رسک لیتے ہیں۔ سخت سردی میں منجمد تالاب میں پیراکی، تیزرفتار ڈرائیونگ، پہاڑ سے کود جانا وغیرہ۔ خطروں سے کھیلتے ہوئے وہ ذرا نہیں سوچتے کہ نتیجہ عمر بھر کی معزوری یا موت کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ عام طور پر ایسے خطرناک کام اپنے ہم عمروں میں نمایاں ہونے کے لئے کئے جاتے ہیں۔

ایرک ایرکسن کی نفسیاتی سماجی درجہ بندی کے مطابق اس عہد میں انسان اپنی شناخت بنانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اگر اسے حاصل نہ کرپائے تو اپنے کردار کے تعین میں گڑبڑا جاتا ہے۔ ایرکسن کے نزدیک چار اجزاء اہمیت کے حامل ہیں: پیشہ، سیاست، مذہب اور جنس۔ اس عمر میں والدین سے لڑائی اور باغیانہ رویہ دراصل اپنی ایک شناخت بنانے کی معصومانہ کاوش ہی ہوتی ہے۔

تقریباً بیس فیصد ٹین ایجر سخت مایوسی سے دوچار ہوتے ہیں۔ خودکشی کی ناکام کوشش کرنے کا رحجان عمر کے اس حصہ میں دیگر ادوار سے کہیں زیادہ پایا جاتا ہے۔ صرف امریکہ میں خودکشی میں مرنے والے ٹین ایجرز کی تعداد کینسر، دل کے امراض، پیدائشی عوارض، نمونیا، ایڈز ان سب میں مرنے والوں کی کل تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ برطانیہ کے اعداد وشمار کے مطابق چار میں سے ایک ٹین ایجر خود کو نقصان پہنچاتا ہے۔ چائلڈلائن جس کا کام خودکشی کے خواہاں نوجوانوں کو اپنے ارادوں سے باز رکھنا ہے کہ مطابق پچھلے پانچ سال میں اس رحجان میں 116 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کے متعلق حتمی اور قابلِ بھروسہ اعداد وشمار موجود نہیں لیکن خبروں میں تواتر سے نو بالغ اور بالغ افراد کی خودکشی کا ذکر ہوتا رہتا ہے جس سے صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس میں زبردست اضافہ ہوچکا ہے۔

ٹین ایجر معاشرہ کا ایک غیر محفوظ طبقہ ہیں جن سے ملک کا سارا مستقبل وابستہ ہے۔ وہ جبلی تقاضوں کے تحت اپنی جان خطرہ میں ڈال سکتے ہیں اور جان ضائع بھی کرسکتے ہیں۔ ان کی حفاظت صرف ان کے والدین کا ہی نہیں پورے معاشرے پر فرض ہے۔ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ خلافِ عقل اور توہماتی سوچ کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے عہد جدید سے ہم آہنگ ایسے اقدامات کرے کہ ملک کا مستقبل پرامید، روشن اور محفوظ ہوجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments