کورونا لاک ڈاؤن میں دنیا کی ورچوئل سیر


دو سال سے دنیا بھر کے لوگ کورونا کی وبا سے بری طرح متاثر ہیں۔ چین کے شہر ووہان میں پیدا ہونے والا یہ وائرس دیکھتے ہی دیکھتے زمین کے چپے چپے پر پھیل گیا۔ حکومتوں نے اپنے لوگوں کے سماجی میل جول اور نقل و حرکت پر کڑی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ اس نا دیدہ بلا نے سب کو گھروں میں محصور کر کے رکھا ہوا ہے۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے زندگی تعطل کا شکار ہے۔ لوگ کام کے لیے دفتر نہیں جا سکتے، تفریح کے لیے پارک نہیں جا سکتے اور عزیزوں سے ملنے دوسرے شہر نہیں جا سکتے۔ لوگوں کا مسئلہ وقت ہے۔ وہ وقت کیسے گزاریں؟ یہ ٹھیک ہے لوگوں کا میل جول کم ہوا ہے، نقل و حرکت کم ہوئی ہے۔ مگر وقت پورا موجود ہے۔

دن اب بھی چوبیس گھنٹے کا ہی ہوتا ہے۔ سال میں اب بھی تین سو پینسٹھ دن ہی ہوتے ہیں۔ بلکہ ایک طرح سے وقت بڑھ گیا ہے۔ اب لوگ اپنے آپ کو زیادہ میسر ہیں۔ سو ایسے میں ان کا اپنے آپ سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

اس وقت کو کوئی نیا ہنر یا مشغلہ اپنانے میں صرف کیا جا سکتا ہے۔ کوئی ذہنی یا جسمانی مشق یا صرف ورزش پر توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے۔

جہاں زمانے کی برق رفتاری نے وائرس کو دن دگنی رات چگنی ترقی دی ہے وہیں انٹرنیٹ نے لوگوں کو remotely connect کر دیا ہے۔ اب دفتر کا کام گھر سے ہو رہا ہے، گروسری آن لائن آرڈر ہو رہی ہے اور لوگ اپنے عزیزوں سے ویڈیو کالز کے ذریعے میل ملاپ کر رہے ہیں۔

میں نے اپنا کچھ وقت مطالعہ کی پرانی عادت کو مزید پختہ کرنے پر صرف کیا ہے۔ شام کی واک کا بھی شوق ہے۔ میں نے مطالعے اور واک کی عادات کو اکٹھا کر دیا ہے۔ میں واک کرتے ہوئے پڑھتا ہوں اور پڑھتے ہوئے واک کرتا ہوں۔

مجھے دونوں عادات میں کچھ تبدیلیاں بھی کرنا پڑیں۔ میرا مطالعہ کتاب سے موبائل پر شفٹ ہو گیا۔ ہم ہر جگہ کتاب لے کر نہیں جا سکتے۔ جب کہ موبائل ہر وقت ہماری جیب میں موجود ہوتا ہے۔ اس میں سینکڑوں ای بکس محفوظ کی جا سکتی ہیں۔

اسی طرح میں زیادہ رش والی یا بہت سنسان جگہ پر واک نہیں کرتا۔ یوں میری توجہ مرکوز رہتی ہے اور سیکورٹی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ شام کے وقت میں گھر کے پاس والے پارک میں چلا جاتا ہوں۔ اور رات کو گلی میں موبائل قدمی کرتا ہوں۔ یوں ذہنی اور جسمانی مشق ایک ساتھ ہو جاتی ہے۔

لاک ڈاؤن میں ایک روز میں نے کتابوں کے ذریعے دنیا کی ورچوئل سیر کا منصوبہ بنایا۔ کتاب میرا پاسپورٹ بن گئی۔ ہر chapter ایک بورڈنگ پاس تھا۔ مجھے لفظوں کے پر لگ گئے۔ میرا تخیل ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک شہر سے دوسرے شہر اڑان بھرنے لگا۔ ایک پرندے کی مانند میرے لیے جغرافیائی سرحدیں ختم ہو چکی تھیں۔ وقت بھی میرے آگے سر نگوں ہو گیا۔ میرا ذہن ماضی، حال اور مستقبل میں یک جنبش سفر کرنے لگا۔

یہ کتابی سفر چھ براعظموں پر محیط ہے۔ جاپان میں یاسوناری کا واباتا نے مجھے Snow Mountain کی سیر کرائی۔ وہاں کے نظارے محبت کی پھوار میں بھیگے ہوئے تھے۔ پھر کا زوا اشی گرو Pale Hills میں لے گیا۔ جہاں خاموشی کی اداس بازگشت سنائی دیتی رہی۔ ہروکی موراکامی کے سنگ ایک Strange Library میں گئے۔ جہاں ہر کتاب ماورائیت اور جادو سے لبریز تھی۔

ترکی کے اورحان پاموک کے سنگ سرحدی گاؤں ”کار“ میں Snow کا نظارہ کیا۔ وہاں جدت اور قدامت پسندی آپس میں گتھم گتھا تھیں۔ البانیا کے اسماعیل کا دار کے ہمراہ ماسکو کی سفید راتوں میں انجان سٹیشنوں پر جا پہنچے۔ پھر ان سے عثمانی دور کی ایک بغاوت کا احوال سنا۔ انقلابیوں کے سروں کو عبرت کے لیے سر بازار لٹکا دیا جاتا تھا۔

مصر میں نجیب محفوظ سے الف لیلی کی داستان سنی۔ مراکش میں محمد مرابط نے محبوب کو رام کرنے کے گر بتائے۔ نائجیریا میں چینوا اشیب کے سنگ قدیم روایات میں جکڑے قبیلوں کی پنجہ آزمائی دیکھی۔ وہ سب نو آبادی قوتوں کے آگے زیر ہو گئے۔ ساؤتھ افریقہ میں جے ایم کوئٹزی سے ایک پست ہمت اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے انسان Michael K کی داستان حیات سنی۔

یورپ میں میرا قیام زیادہ تر فرانس کے صدر مقام پیرس میں رہا۔ وہاں میں پیٹرک موڈیانو کا مہمان بنا۔ ایک روز ہم ایک کمسن لڑکی Dora Bruder اور دوسرے Missing Persons کی تلاش میں نکلے۔ پھر خود یاداشت کی بھول بھلیوں سے گزرتے ہوئے شہر کی گلیوں میں کھو گئے۔

امریکہ میں فلپ راتھ کے سنگ معاشرے کے کئی رنگ دیکھے۔ وہاں کا Everyman موت سے خوفزدہ تھا۔ اور زندگی سے ہزار امیدیں لگائے بیٹھا تھا۔ مگر وہ بھول رہا تھا کہ ہر شخص ایک Dying Animal ہے۔

پال آسٹر کے سنگ اندھیرے میں ایک شخص سے ملے۔ وہ حقیقت اور افسانے میں فرق کھو بیٹھا تھا۔ اس کا خارج اور باطن خانہ جنگی کا شکار تھا۔ ان کے ساتھ پھر ایسی جگہ پہنچے جہاں چیزیں دنیا کے ساتھ ساتھ حافظے سے بھی محو ہو رہی تھیں۔

پال آسٹر کے ساتھ جے ایم کوئٹزی آسٹریلیا سے خطوط کا تبادلہ کر رہے تھے۔ وہ ان میں دوستی، کھیلوں اور ادب پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ وہ بین الاقوامی اقتصادی امور کو سمجھنے سے قاصر تھے اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے گریزاں بھی۔

ماریو ورگس یوسا نے ڈومینک ریپبلک کے مرد آہن کی داستان حیات سنائی۔ کولمبیا کے گبریل گارسیا مارکیز سے صحافت کے اسباق لیے۔ ارجنٹینا کے بورخے نے زمان و مکان کی بھول بھلیوں میں گما دیا۔

کچھ کتابیں آپ کو ایک ہی وقت میں کئی ملکوں کی سیر کرا دیتی ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک ویزے میں کئی ملکوں کا سفر کیا جائے۔ میں نے ایسی تین کتابوں کا مطالعہ کیا۔

پہلی کتاب بی بی سی کے صحافی ڈیوڈ ٹرینر کی ”مشن منگولیا“ تھی۔ وہ اپنے ایک کولیگ کے ساتھ جیپ پر منگولیا جانے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ ان کا سفر معکوس ترقی کا سفر ہے۔ برطانیہ، جرمنی اور پولینڈ سے ہوتے ہوئے وہ روس کی نا مہربان زمین پر داخل ہوتے ہیں۔ پھر وسطی ایشیا کے خطرناک راستوں سے ہوتے ہوئے منگولیا کے بے آب و گیاہ صحرا میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کے سفر کا مقصد ایک چیریٹی گروپ کی مدد کرنا ہوتا ہے۔

ٹم مارشل کی کتاب ”جغرافیے کے قیدی“ دنیا کے دس نقشوں کی سیاسی اہمیت بیان کرتی ہے۔ آپ اپنے دوست اور دشمن تو بدل سکتے ہیں مگر ہمسائے نہیں۔ امریکہ، یورپ اور برطانیہ اپنے اچھے جغرافیہ سے مستفید ہوتے ہیں۔ روس کا جغرافیہ اس کی سیاست کو محدود کر دیتا ہے۔ اور لاطینی امریکہ اور افریقہ اپنے برے جغرافیے کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔

وی ایس نائپال کی کتاب ”مسلم ممالک کے اسفار“ ہمیں ایران، پاکستان، ملائیشیا اور انڈونیشیا کی مسلم معاشرت کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ مصنف کی متعصب اور ایکس رے کی طرح تیز نظر ایک ایسے آئینے کی طرح ہے جو آپ کو اپنا بگڑا ہوا عکس پیش کرتی ہے۔ مگر ساتھ خود میں جھانکنے پر مجبور کرتا ہے۔ آپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اس آئینے کو کیسے شفاف بنایا جائے اور اپنی حقیقی خامی کو کیسے ٹھیک کیا جائے۔

وبا کا زور ٹوٹتا ہے تو اگلی لہر زیادہ تیزی سے آن پہنچتی ہے۔ اس کے توڑ کی ویکسین بھی دریافت ہو چکی ہے۔ مگر وائرس ہے کہ شکلیں بدل بدل کر نمودار ہو جاتا ہے۔ ادھر دل نے اپنی دنیا بسائی ہوئی ہے۔ تخیل حدود و قیود سے ماورا ہے۔ ابھی کچھ نئے سفر متوقع ہیں۔ ابھی کئی اور داستانیں وجود میں آنے والی ہیں۔

فرحان خالد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان خالد

فرحان خالد تعلیمی اعتبار سے انجنیئر ہیں. ایک دہائی سے سافٹ ویئر انڈسٹری سے منسلک ہیں. بچپن سے انہیں مصوری، رائٹنگ اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہے. ادب اور آرٹ کے شیدائی ہیں.

farhan-khalid has 40 posts and counting.See all posts by farhan-khalid

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments