میجر جنرل بابر افتخار صاحب کی تسلی


چند روز قبل پاک فوج کے ترجما ن میجر جنرل بابر افتخار صاحب کا یہ بیان سامنے آیا کہ افغان طالبان نے پاکستان کو بار بار یقین دہانی کرائی ہے کہ کسی گروہ کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ افغانستان کی زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔ اس قسم کی یقین دہانیاں تو ہر حکومت کراتی ہے خواہ اس حکومت کے ارادے کچھ بھی ہوں۔  لیکن اس بیان کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ میجر جنرل بابر افتخار صاحب نے اس یقین دہانی پر یہ تبصرہ فرمایا کہ اس بات کی کوئی وجہ نہیں کہ ہم طالبان کی نیت پر شک کریں اور ہم مسلسل ان کے ساتھ رابطہ میں ہیں اور اپنے قومی مفادات کی حفاظت کریں گے۔

اس بیان میں واضح طور پر تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کے بارے میں پائی جانی والی تشویش کی طرف اشارہ تھا۔ تحریک طالبان پاکستان ہمیشہ سے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے اور جب سے کابل پر طالبان کا قبضہ ہوا ہے پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہو گیا ہے۔ اور کئی حلقے اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد تحریک طالبان پاکستان پاکستان میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دے گی۔  کابل میں موجود طالبان انتظامیہ اس بات سے انکار کر رہی ہے کہ ان کا تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں سے کسی قسم کا تعلق ہے یا یہ کہ وہ کسی طرح ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

ماضی کے تلخ ترین تجربات کی روشنی میں اس بات کی ضرورت ہے کہ اس معاملہ میں جذبات سے علیحدہ ہو کر حالات کا صحیح تجزیہ کیا جائے تاکہ مستقبل میں پاکستان کو مزید خون ریزی اور بد امنی سے بچایا جا سکے۔  یہ بات قابل توجہ ہے کہ مکرم میجر جنرل بابر افتخار صاحب نے اپنی اس تسلی کی وجہ صرف افغان طالبان کی بار بار یقین دہانیوں کو قرار دیا ہے۔  کیا ماضی کی تجربات کی روشنی میں افغان طالبان ، تحریک طالبان پاکستان ، سپاہ صحابہ یا سوات کی تحریک نفاذ شریعت جیسی تنظیموں کے بیانوں یا وعدوں پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ یا ان جیسے گروہ بار بار غلط بیانیوں اور عہد شکنیوں کے مرتکب ہوتے رہے ہیں؟ ماضی میں بھی پاکستان کی حکومت نے ان جیسی تنظیموں سے کئی مرتبہ معاہدے کئے ہیں لیکن کیا ایک مرتبہ بھی ان تنظیموں نے اپنے عہدو پیمان کو پورا کیا؟

میری حقیر رائے میں بہتر ہوتا اگر اس بارے میں پاک فوج کے ترجمان کی بجائے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود صاحب کوئی تبصرہ فرماتے کیونکہ یہ بات ان کے دائرہ کار سے تعلق رکھتی ہے۔  سب سے پہلے تو اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اب تک حکومت پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضہ سے قبل افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود تھیں۔  اور ان پناہ گاہوں سے یہ دہشت گرد پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جولائی میں وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف صاحب نے ایک انٹرویو میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ بیس سال میں افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنا دیا گیا ہے۔  [ڈان 24 جولائی 2021]۔ سوال یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے یہ تسلی کس طرح کی کہ طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد وہ پناہ گاہیں پلک جھپکتے غائب ہو گئی ہیں۔  کیا دہشت گرد اپنی پناہ گاہیں اس آسانی سے ختم کر دیتے ہیں؟ اور ابھی تک تو طالبان کابل میں اپنی حکومت قائم کرنے میں اور بین الاقوامی تعلقات قائم کرنے میں ہی اتنےالجھے ہوئے ہیں کہ اگر وہ ان پناہ گاہوں کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے تو بھی اس طرف توجہ نہیں دے سکتے تھے۔

کیا وہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کوئی قدم اُٹھانے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں ؟ اس بارے میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کئی سنجیدہ بین الاقوامی جریدوں میں افغان طالبان کے راہنمائوں کے نام لئے بغیرکچھ بیانات شائع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔  مثال کے طور پر جریدے فارن پالیسی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک طالبان راہنما نے بتایا کہ ہم پاکستان کا دم چھلا نہیں ہیں اور ہمارے تحریک طالبان پاکستان سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔

میجر جنرل بابر افتخار صاحب کا موقف سر آنکھوں پر لیکن یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ خود تحریک طالبان پاکستان کیا دعوے کر رہی ہے۔ سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کے قائد نور ولی محسود نے یہ بیان دیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان پاکستانی افواج کے خلاف جنگ جاری رکھے گی۔ ان کے افغان طالبان سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور ان کی تنظیم پاک افغان سرحد پر علاقے کو پاکستان سے علیحدہ کر کے ایک آزاد ریاست قائم کرے گی۔  نور ولی محسود صاحب نے کابل پر طالبان کے قبضہ کے متعلق کہا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک مسلمان کی فتح دوسرے مسلمان کو تقویت دیتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا افغان طالبان نے اس بیان کی کوئی واضح مذمت کی ہے یا اس بات کا کوئی اظہار کیا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے ان مقاصد کے خلاف ہیں۔

وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب نے یہ بیان دیا تھا کہ کابل پر طالبان کے قبضہ سے بھارت کا ماسٹر پلان ناکام ہو گیا اور اسے بدترین ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حقائق کو پرکھنے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ جب سے کابل پر طالبان کا قبضہ ہوا ہے کیا پاکستان میں دہشت گردی میں کمی آئی ہے یا اس میں اضافہ ہوا ہے؟

اگر ہم رواں مہینے کا تجزیہ کریں تو اسی مہینے تحریک طالبان پاکستان نے 5 ستمبر کو بلوچستان میں خود کش دھماکہ کیا اور اسی طرح اسی تنظیم نے 13 ستمبر کو خیبر پختونخواہ میں ایک خود کش دھماکہ کیا۔  اسی ماہ میں اس تنظیم نے بیس حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔  ان میں سے اکثر حملے پاکستانی فوج کے خلاف تھے۔ حقائق یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ کابل میں ہونے والی تبدیلی کے بعد پاکستان میں پاکستان کی دشمن تحریک طالبان پاکستان نے اپنی کارروائیاں پہلے سے بہت زیادہ تیز کر دی ہیں۔

اگر ایسا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان کے دشمنوں نے افغانستان میں پال کر جوان کیا تھا اور سابقہ حکومت کے عہد میں ان کے بل بوتے پر وہ پاکستان میں کارروائیاں کر رہے تھے اور افغان طالبان ان کے عزائم کے بالکل خلاف تھے تو اب پاکستان میں یہ دہشت گردی بالکل ختم ہو جانی چاہیے تھی۔  لیکن حقائق بالکل برعکس منظر پیش کر رہے ہیں۔ کیا کوئی ہوش مند اس نظریہ کو قبول کر سکتا ہے کہ افغانستان میں بھارتی منصوبہ ناکام ہوا اور ان دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کر دی گئیں جو پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے تھے اور اس کے بعد یکلخت پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہو گیا۔

حیرت کہ جولائی میں ہم نے یہ خبر پڑھی کہ آرمی چیف مکرم قمر جاوید باجوہ صاحب نے پاکستان کے اہم سیاستدانوں کو اپنے تجزیہ سے آگاہ کیا ہے کہ افغان طالبان اور پاکستان دشمن تحریک طالبان پاکستان کے ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ گو باقاعدہ طور پر پاک فوج کے ترجمان نے اس خبر کی نہ تصدیق کی تھی اور نہ اس کی تردید کی تھی۔  اور اب میجرجنرل بابر افتخار صاحب نے جو بیان دیا ہے وہ اس تجزیہ کے بالکل برعکس ہے۔  بہتر ہوگا اگر قوم کو صحیح حقائق بتائے جائیں اور صورت حال واضح کی جائے تاکہ کسی گروہ کو پہلے کی طرح پاکستان میں خون کی ہولی کھیلنے کا موقع نہ ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments