یورپ کا قدیم شہر روم


تہواروں کا زندگی کے ساتھ گہرا رشتہ ہے۔ زندگی کے ہر پہلو پر ان کی گہری چھاپ ہوتی ہے اور یہ نہ صرف انسانی چہروں سے منعکس ہوتی ہے بلکہ در و دیوار اور پورے ماحول سے اس کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ تہواروں کی خوشی نہ صرف ماحول اور چہروں سے جھلکتی ہے بلکہ روح تک کو سیراب کرتی ہے چاہے کسی بھی طبقے کا مذہبی، ثقافتی یا کوئی بھی تہوار ہو۔

قاہرہ سے ہم عید الاضحی کے تہوار کی فضا سے نکلے تھے اور تقریباً ساڑھے تین گھنٹے بعد روم کے ائرپورٹ پر موجود تھے۔ یہاں چونکہ تہوار کی فضا نہیں تھی اس لئے ہم یکسر بھول ہی گئے کہ وہ عید کا دن تھا۔ روم ائرپورٹ پر مسافروں کی خاصی بھیڑ تھی۔ ہم ائرپورٹ کی عمارت کے اندر ہی اندر ریلوے سٹیشن تک پہنچ گئے جو تین چار سال قبل بنا تھا۔ خوبصورت، صاف ستھرا اور نہایت متاثر کن۔ یہاں سے روم کا مین ریلوے اسٹیشن تقریباً تیس کلو میٹر کی مسافت پر تھا اور ہم آدھے گھنٹے میں وہاں پہنچ گئے۔ ریلوے سٹیشن کے ارد گرد کے علاقے میں کافی گہما گہمی تھی۔ اسی علاقے میں ہمیں قیام کے لئے ایک مناسب ہوٹل مل گیا جو سٹیشن سے پانچ منٹ کی واک پر تھا۔

فریش ہو کر ہوٹل سے باہر نکلے اور ارد گرد کا جائزہ لیا۔ برگر لینے کے لئے راستہ معلوم کرتے ہوئے میکڈونلڈ تک جا پہنچے۔ اس کے بعد شہر کی گہما گہمی دیکھتے دیکھتے مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے واپس ہوٹل آئے۔ روم میں سیاحوں کی دلچسپی کا باعث جو جگہیں ہیں ان میں کو لوسیم، ٹریوی فونٹین اور ویٹیکن سٹی مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کی عمارتوں کا فن تعمیر بھی فن کی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ روم میں سٹریٹ کرائمز کی بہتات ہے۔ چھینا جھپٹی کی وارداتیں اکثر ہو جاتی ہیں۔

سہ پہر کو ہم بس پر سوار ہو کر ٹیوولی پہنچ گئے جو کہ تیس بتیس کلومیٹر دور ایک خوبصورت قصبہ ہے اور روم کی نسبت قدرے بلندی پر واقع ہے۔ یہاں کا موسم بہتر اور روم کی نسبت صاف ستھری فضا تھی۔ یہاں پر باغات ہیں اور ماحول ایک دلکش منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ واپسی پر روم پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔ ہوٹل سے مناسب فاصلے پر فاسٹ فوڈ کا ایک اچھا آؤٹ لیٹ نظر آیا۔ یہاں ہماری پسند کا کھانا مل جاتا تھا، خاص طور پر پیزا بہت عمدہ بناتے تھے۔

اگلے روز ویٹیکن سٹی دیکھنے گئے۔ ویٹیکن کا تمام کمپلیکس خوبصورت ڈیزائن کیا ہوا ہے۔ ہم نے پہلے سینٹ پیٹر چرچ اندر سے دیکھا۔ یہاں مائیکل اینجلو کا شاہکار مجسمہ پیٹا بھی دیکھا۔ اور پھر میوزیم اور سسٹن چیپل کی طرف نکل گئے۔ یہاں آنے کا ہمارا اصل مقصد عظیم فنکار مائیکل اینجلو کی شاہکار پینٹنگز دیکھنا تھا۔ مائیکل اینجلو ایک عظیم مجسمہ ساز، مصور اور معمار تھا جس کے مظاہر فن سے چرچ کے در و دیوار سجے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر عمارت کی چھت بہت خوب صورت اور قابل دید ہے۔ چھت کی شاہکار پینٹنگز میں مائیکل اینجلو نے ابتدائے آفرینش، حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کی پیدائش، طوفان نوح اور حضرت عیسی علیہ السلام کے واقعات کو اجاگر کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چرچ میں پینٹنگز کا کام مکمل کرنے میں چار برس لگ گئے تھے۔

روم شہر کے درمیان کو لوسیم ایک بہت بڑا لینڈ مارک ہے جسے دیکھنے کے لئے سیاحوں کی اکثریت یہاں آتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ روم کی پہچان ہے تو غلط نہ ہو گا۔ کو لوسیم زمانہ قدیم میں بنائے جانے والے ایمفی تھیٹرز میں سب سے بڑا تھا اور آج بھی یہ دنیا کا سب سے بڑا ایمفی تھیٹر ہے جس میں پینسٹھ ہزار تماشائی سما سکتے ہیں۔

یہ پہلی صدی کی ساتویں اور آٹھویں دہائیوں میں تعمیر ہوا تھا۔ سٹیڈیم کی طرز پر بنے ہوئے تھیٹر کی پانچ منزلوں کی اونچائی سو فٹ کے قریب ہے۔ ہر منزل پر سٹیڈیم کے اندر کی طرف کھلتے ہوئے چیمبرز، جھروکے اور ٹیریسز بنے ہوئے ہیں جو شکست و ریخت کا شکار ہونے کے باوجود موٹی دیواروں کے باعث اب بھی موجود ہیں۔ سٹیج کے نیچے بے شمار زیر زمین سرنگیں بنائی گئی ہیں جن میں مختلف جانوروں اور قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ صدیوں سے استعمال میں نہ رہنے کی وجہ سے بہت ابتر حالت میں تھیں۔ کچھ سرنگوں کے آہنی گیٹ اب بھی موجود ہیں۔ حال ہی میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ان سرنگوں کو صاف کر کے پہلی بار عوام کے لئے کھول دیا گیا ہے۔

کولوسیم میں عوام کے بڑے اجتماعات ہوا کرتے تھے۔ اس کی افتتاحی تقریبات میں نو ہزار جانور ہلاک ہوئے تھے جو کہ درندوں کے شکار کے نام پر انسان اور درندوں کی لڑائی میں مارے گئے۔ درندوں میں شیر، چیتے، ہاتھی اور دوسرے جانور شامل تھے۔ سیزر کے دور حکومت میں ہنٹنگ گیمز کے لئے چار سو شیر افریقہ اور شام سے منگوائے گئے تھے۔ اسی دور حکومت میں پینتیس سو ہاتھی ان کھیلوں میں مارے گئے تھے۔ جانوروں کے علاوہ یہاں شمشیر زنی کے مقابلے بھی ہوا کرتے تھے۔ ہالی ووڈ کی مشہور فلم گلیڈیایٹر کی عکس بندی بھی یہیں پر ہوئی تھی۔ پانچویں صدی کے شروع میں ہی کو لوسیم میں اس طرح کے مقابلوں اور گیمز پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

مجھے ذاتی طور پر کو لوسیم دیکھنے کی پرانی خواہش تھی اس لئے میں بہت پر جوش تھا لیکن اندر داخل ہونے کے بعد یہ جگہ ماضی میں متشددانہ کارروائیوں کی آماجگاہ ہونے کے سبب وحشت زدہ لگنے لگی۔ بیتی صدیوں میں سفاکانہ کھیلوں اور بربریت کے واقعات کے مہیب سائے اب بھی ان در و دیوار پر ہیبت ناک فضا طاری کیے ہوئے ہیں۔ جتنے لوگ بھی وہاں موجود تھے ان میں کسی کے چہرے پر بشاشت نہیں تھی۔ یوں لگتا تھا کہ تیغ زنی اور درندوں کے ساتھ ظالمانہ کھیلوں میں زندگی کی بازی ہار جانے والے چار لاکھ افراد کی روحیں ہمیں کچھ سوال کر رہی ہیں اور ہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ جان کی بازی ہارنے والوں میں مجبور بھی تھے، محکوم بھی، غلام بھی، قیدی بھی۔ ہماری خاموشی بزبان خود جواب تھا کہ ہر دور میں محروم اور مجبور طبقات کا استحصال بھی ہوا اور وہ روسا اور حکمرانوں کی تفنن طبع کے سبب بھی بنتے رہے۔ یہ معاشرتی تفاوت کل بھی تھی اور آج بھی ہے اگر چہ طور طریقے بدل گئے ہیں۔

ہمارے پاس لوکل کرنسی بہت کم رہ گئی تھی۔ ریلوے سٹیشن کے قریب ایک بینک میں ڈالر کیش کروانے کے لئے چلے گئے۔ کرنسی تبدیل کروانے کے بعد بینک سے باہر نکل کر سڑک پر جا رہے تھے۔ کرنل لیاقت میری بائیں طرف فٹ پاتھ کی جانب تھے۔ چند قدم ہی چلے ہوں گے کہ دائیں طرف ایک اونچی لمبی خاتون میرے برابر چلنا شروع ہو گئی۔ خاتون امید سے تھی اور اس نے گلے میں ایک کارڈ بورڈ لٹکایا ہوا تھا جس سے اس کا پیٹ ڈھکا تھا۔ کارڈ بورڈ پر اٹالین زبان میں کچھ لکھا تھا اور بظاہر یہ تاثر ملتا تھا کہ خاتون نے لاج کے مارے کارڈ کی اوٹ میں پیٹ چھپا رکھا تھا۔

مجھے دائیں جانب پتلون کی سائیڈ پاکٹ میں سرسراہٹ محسوس ہوئی اور میں نے فوراً اپنی جیب سے والٹ نکالنے والے ہاتھ کو کلائی سے پکڑ لیا۔ در اصل میرے برابر چلنے والی خاتون کی ساتھی جو قد میں چھوٹی تھی، کارڈ بورڈ کی اوٹ میں میری جیب سے والٹ نکال رہی تھی اور اس کی بد قسمتی کہ میں نے بر وقت اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اب وہ ہاتھ چھڑا رہی تھی جبکہ میں نے ہاتھ کو جیب میں رکھتے ہوئے اس کی کلائی پر گرفت مضبوط کر دی۔ کچھ تگ و دو کے بعد وہ ہاتھ نہیں چھڑا سکی تو شور مچانے لگی اور لوگ جمع ہو گئے۔

میں بھی یہی چاہتا تھا کہ لوگ اس کا ہاتھ میری جیب کے اندر دیکھ لیں۔ میں نے کہا کہ یہ میری جیب سے والٹ نکال رہی تھی اس لئے میں نے پکڑ لیا ہے اب میں پولیس کو بلاؤں گا۔ ایک شخص آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ یہ جیب کتری ہیں اور لوگوں کو تنگ کرتی ہیں۔ پہلے تو اس نے ان کو ڈانٹا اور پھر مجھے کہنے لگا اب آپ اس کو چھوڑ دیں۔ میں بھی صرف تنبیہ کرنا چاہتا تھا اس لئے میں نے چھوڑ دیا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

ہوٹل پہنچ کر ہم نے اگلے سفر کے لئے سامان علیحدہ بیگ میں رکھا اور فالتو چیزیں پیک کر کے ہوٹل سے چیک آؤٹ کی تیاری کی۔ دو روز کے بعد پھر سے ہوٹل کی بکنگ کروا لی اور مینیجر سے کہا کہ وہ ہمارا فالتو سامان امانت کے طور پر رکھ لے۔ انہوں نے ہمارے دو سوٹ کیس رکھ لئے اور ہم ہلکے پھلکے ہو کر اگلی منزل پر روانہ ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments