طوائف مائیں، فاحشہ بہنیں، رنڈی بیٹیاں


\"\"

(اس مضمون میں سوشل میڈیا پر استعمال ہونے والی انتہائی ناشائستہ زبان کی مثالیں دی گئی ہیں جو کہ تقوے کے لبادے میں لپٹے ہوئے اپنے تئیں نیک بنے افراد سوشل میڈیا پر بے دردی سے استعمال کرتے ہیں، اس لئے اس اس مضمون کو وہ خواتین و حضرات مت پڑھیں جو کہ ایسی ناشائستہ زبان برداشت نہیں کر پاتے ہیں: مدیر)

انیس جنوری کی بھیانک رات وہ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔صرف چھ سال کی ننھی سی کلی تھی۔ ہوس کے پجاریوں نے پہلے ہوس کا نشانہ بنایا اور پھر گلے پر چھری پھیر کر کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔میں یوٹیوب پر نصرت فتح علی خان کی قوالی سن رہا ہوں۔ حشر میں کون گواہی دے گا میری ساغر۔ سب تمہارے ہی طرف دار نظر آتے ہیں۔آنکھ اٹھی ۔۔آنکھ اٹھی۔۔آنکھ اٹھی محبت نے انگڑائی لی۔۔
عجیب سی بے کلی ہے ۔ جانے دل کیوں اداس ہے۔

\"\"چھوڑو !فیس بک ہی دیکھ لیتے ہیں۔
’اس کو دیکھو حرامی رنڈی عاصمہ جہانگیر، شرمین عبید، فرزانہ باری اور پیدائشی غدار ملالہ‘۔
کیا نام ہو گا اس ننھی کلی کا؟ شاید اس کا نام سویرا ہو ؟ شاید طوبی ہو؟
توجہ بٹاؤ۔ فیس بک دیکھو۔ ایسا تو روز ہوتا ہے۔
’شائستہ رنڈی کے لئے آپ لوگوں ایک لفظ‘۔
جانے اسے کہاں سے اٹھایا ہو گا؟ کیسے اس پر جبر کیا ہوگا؟ وہ کتنا چیخی ہو گی؟ اسے کتنا درد ہوا ہو گا؟

\"\"فیس بک پر اگلا پیج دیکھتے ہیں۔
’اس طوائف کو جانتے ہو؟ نام۔۔شرمین عبید۔ شہریت۔۔کینیڈین‘۔
پتہ نہیں اس کے تن کے گھاؤ گہرے ہوں گے یا اس کے من کے گھاؤ زیادہ گہرے؟
فیس بک، بھائی فیس بک۔
’ملالہ جیسی رنڈی سے ملنے کے بعد پشاور زلمی کے اونر جاوید آفریدی پر لعنت۔ ملالہ نہیں رنڈی‘۔
اس کی ماں کے دل پر کیا بیتی ہو گی؟ اس کا باپ اپنے پر پاؤں کھڑا کیسے رہا ہو گا؟
فیس بک پر ہم اپنا اظہار کرتے ہیں۔ ہم سماج میں جبر کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ فیس بک دیکھو۔
’کھلے عام ناچنے والی فاحشہ طوائف ایسی ہی ہو گی جیسے شیریں مزاری‘۔
اسے شاید مرد سے ہمیشہ کے لئے نفرت ہوئی ہو۔اس کی آنکھیں جب آپریشن تھیٹر میں کھلی ہوں گی تو ماسک پہنے سرجن سے بھی خوفزدہ ہوئی ہو گی۔

\"\"
یہ دیکھو یہ غیرت مند کیا کہہ رہا ہے؟
’قندیل بلوچ کا رنڈی خانہ بند ہوا۔ شکریہ جس جس نے رپورٹ کیا‘۔
اس نے کیا بتایا ہو گا ڈاکٹر یا پولیس کو؟ اسے تو سمجھ بھی نہیں آتا ہو گا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔ اس نے شاید کہا ہو کہ دو آدمی تھے۔ انہوں نے پوچھا ہو گا کہ کتنی عمر تھی؟ اسے کیا پتہ عمروں کا۔ اس نے تو یا بابا کو دیکھا تھا یا بھائی کو۔اس نے شاید کہا ہو گا کہ وہ ایک بابا جتنا تھا۔ وہ دوسرا بھی بابا جتنا تھا۔
کیا کہا؟ مریم نواز کسی بیٹی ہے؟ کسی کی ماں ہے؟ کسی کی بہن ہے؟
یہ دیکھو فیس بک پر کیا لکھا ہے؟
’ مریم بھگوڑی۔ نواز بھگوڑا۔ بھگوڑی کا وکیل تسلیم کر رہا ہے کہ وہ فلیٹس پانامہ کی رانی مریم کے ہیں‘۔
اس نے پولیس کو کیا بتایا ہو گا کہ کیسے اس کے کپڑے اتارے گئے؟ اسے کیا پتہ کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔ اس نے شاید کہا ہو گا۔ ادھر پیٹ سے نیچے چھری ماری۔ ادھر گلے میں چھری ماری۔

\"\"
کیا کہا؟ عاصمہ جہانگیر بھی ایک ماں ہے؟ اچھا! تو یہ کیا لکھا ہے؟
’ عاصمہ جہانگیر کتی پر لعنت بھیج کر شیئر کریں۔ کدھر مر گئیں موم بتی والی سرکاریں اور انسانی حقوق کی علمبردار ، غدار، رنڈی عاصمہ جہانگیر‘۔

ڈاکٹر سمیہ سید طارق نے لکھا، ’ دوسرے دن میں اسے دیکھنے گئی۔ میری آہٹ پر اس نے آنکھیں کھولیں اور ایک ادھوری سی مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا’۔ میں سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا ہوں کہ وہ کیسے مسکرائی ہو گی۔ اس کے گالوں میں تو پہلے ہی تھر کی ریت کا گلال شامل تھا۔ اس کے گال مزید کتنے زرد پڑے ہوں گے؟ اسے کیا پتہ کہ وہ غیرت مندوں کے ایسے سماج میں رہتی ہے جہاں جبر بھی زندگی بھر کا طعنہ بن جاتا ہے۔

\"\"

میں نے کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ایک ایسی ہی بچی دیکھی تھی۔ میں مدتوں سو نہیں پایا تھا۔ میرے باپ نے بنگال کی گلیوں میں ایسی سینکڑوں برہنہ لاشیں دیکھی تھیں۔میرا باپ بول نہیں سکا۔آپ مگر زندہ قوم کے صالح سپوت ہیں۔ آپ بدستور ماؤں، بیٹیوں، بہنوں کو طوائف، فاحشہ اور رنڈی لکھتے رہیں۔ اس سے قوم کی اخلاقی تربیت ہوتی رہے گی۔ پھر کوئی سینیٹر کسی کی شلوار اتارنے کے درپے ہو گا۔ کوئی وزیر کسی خاتون رکن کو چیمبر میں بلانے کر سمجھانے کی دعوت دے گا۔ اور کوئی مجرم کسی اور سویرا یا طوبی کو کسی گلی سے اٹھا کر بھنبوڑتا رہے گا۔ سویرا تو معصوم ہے۔ اسے عمروں کا فرق معلوم نہیں اس لئے اس نے درندے کی پہچان بتاتے ہوئے کہا ہو گا کہ وہ بابا جتنا تھا۔ آپ خیال رکھیے گا۔ کسی کو رنڈی، طوائف یا فاحشہ لکھتے ہوئے اپنی ماں، بیٹی ، بہن کا خیال دل میں نہ لایئے گا اس سے آپ کی غیرت کو بہت تکلیف پہنچے گی۔اگر آپ کی غیرت کو تکلیف نہ بھی پہنچے تو میری بے غیرتی کو تکلیف ضرور پہنچے گی۔

حفیظ چاچڑ بھی پاگل ہے۔ لکھتا ہے، ’ میں وہاں سے بول رہا ہوں جہاں موہن جو داڑو کے تالاب کی آخری سیڑھی ہے جس پر ایک عورت کی جلی ہوئی لاش پڑی ہے اور تالاب میں انسانوں کی ہڈیاں بکھری پڑی ہیں۔ اسی طرح سے ایک عورت کی جلی ہوئی لاش آپ کو (بابل) بے بی لونیا میں بھی ملے گی اور اسی طرح سے انسانوں کی بکھری ہوئی ہڈیاں میسوپوٹیمیا میں۔ یہ سلسلہ بلوچستان کی چٹانوں سے لے کر بنگال کے میدانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ میں اس جلی ہوئی لاش پر جان دے دیتا اگر میری بیٹی نہ ہوتی تو۔ اور بیٹی ہے جو کہتی ہے بابا آپ بلاوجہ جذباتی ہوتے ہو۔ ہم لڑکیاں تو لکڑیاں ہوتی ہیں جو بڑے ہو کر چولہے میں لگا دی جاتی ہیں‘۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments