کیا نواز شریف 20 اکتوبر کو دوسری ڈوز لگوائیں گے؟


کورونا پہلے سے زیادہ خطرناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو سال سے کورونا نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی مگر اب یہ خواص کو بھی متاثر کرنے لگا ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ پہلی بار کورونا سے متاثر ہو رہی ہے لہذا اس کا سدباب از حد ضروری ہے۔ شرم و حیا سے عاری اور مصلحتوں سے بیزار بے وقت اپنی موجودگی کا احساس دلانے والا یہ بد لحاظ وائرس کالے پانی بھیجے جانے کی سزا کا مستحق ہے۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کی واپسی کے بعد انگلینڈ کے انکار کے صدمے کی شدت میں کمی بورس جانسن کے بلین ٹری پروگرام کی تعریف نے کی ہی تھی اور حاشیہ نشین ناچ ناچ کر گھنگرو توڑنے ہی والے تھے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی کورونا ویکسین لگوانے کی خبر نے سر منڈواتے ہی اولے پڑنے والا کام کیا۔

نا کورونا ہوتا نا ہی اس کی روک تھام کے لیے ویکسی نیشن کا سلسلہ چل رہا ہوتا نا ہی میاں نواز شریف کی ویکسی نیشن کی خبر چلتی تو ایسے میں بورس جانسن کی تعریف کے مزے لیے جاتے مہنگائی کا رونا روتی منہ بسورتی عوام کو بتایا جاتا کہ چھوڑو روزی، روٹی کا رونا یہ دیکھو یہ ہوتا ہے لیڈر یہ ہوتا ہے لیڈر کا ویژن کہ جس کے ویژن کی تعریف دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سربراہ کر رہے ہیں۔ اور بھوکی ننگی عوام اپنی بھوک کو بھول کر خوشی سے تالیاں بجانے لگتی۔

مگر خدا غارت کرے اس نامراد وائرس کو جس کی بدولت جشن کا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ ہمارے ارباب اختیار کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ ان کو حالات اور عوام کے بعد وائرس بھی اچھا نہیں ملا۔ البتہ دوستوں سے تحائف اچھے ملے ہیں شاید اسی لیے توشہ خانے کی تفصیلات دینے سے انکاری ہیں کہ دوستوں کے تحائف کی تشہیر قمیض میں دو سوراخ والے منکسر المزاج حاکم کو پسند نہیں ہے

جبکہ اپوزیشن ہے کہ توشہ خانہ پر بھی بات کا بتنگڑ بنا رہی ہے۔ تہذیب سے عاری اپوزیشن کو علم نہیں کہ تحائف کی نیلامی نہیں کی جاتی ان کو کسی دوست کی محبت کی نشانی سمجھ کر دل سے لگا کر رکھا جاتا ہے۔ مگر اس عہد ناگوار میں کون اپوزیشن کی اخلاقی تربیت کا فریضہ سرانجام دے کون سکھائے کہ مہذب ہونا کیا ہوتا ہے۔ روایات کیا ہوتی ہیں دوستی کی قدریں کیا ہوتی ہیں۔ اب ہر بات تو سیاست کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ مگر اپوزیشن ہے کہ صرف سیاست کرنا جانتی ہے اور سیاست کر رہی ہے۔ خدا جانے کب اس اپوزیشن کو عقل آئے گی۔ بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد کپتان کو اپوزیشن بھی اچھی نہیں ملی۔

اب اسی ویکسی نیشن کے معاملہ پر اپوزیشن کے رویہ کو دیکھ لیں۔ نادرا ریکارڈ کے مطابق لندن میں سکونت پذیر نواز شریف نے 22 ستمبر کو لاہور کے کوٹ خواجہ سعید ہسپتال کے ویکسی نیشن سینٹر میں پہلی ڈوز لگوائی ہے۔ میاں نواز شریف کو ویکسین کی پہلی ڈوز لگائے جانے کا اندراج ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے ویکسینیٹر نوید الطاف نے شام چار بج کر پانچ منٹ پر کیا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے عدالتی ریکارڈ میں موجود شناختی کارڈ نمبر سے جب 1166 پر میسج کیا گیا تو وہاں سے جوابی میسج ملا کہ انہیں سائینوویک ویکسین کی پہلی ڈوز لگائی جا چکی ہے اور دوسری ڈوز کے لیے 20 اکتوبر کی تاریخ دی جا رہی ہے۔

میڈیا پر اطلاعات آنے کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف ویکسین سکینڈل میں ملوث ویکسینیٹرز کو صرف معطل ہی نہیں بلکہ جیل میں ڈالا جائے گا۔ مطلب یہ کہ فیک انٹری کرنے والے ملازمین کو معافی نہیں ملے گی۔ گو کہ قانون حرکت میں آ چکا ہے مگر اپوزیشن اس پر بھی سیاست کر رہی ہے۔ اب مریم نواز شریف کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجھے اس خبر پر تشویش ہوئی اگر یہ آپ کا سسٹم ہے کہ جعلی طریقے سے ویکسین کا اندراج کیا جا رہا ہے تو اس کا عالمی ردعمل آ سکتا ہے۔

اور تو اور کچھ لفافہ صحافیوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر نادرا پورٹل پر اس طرح ویکسی نیشن کا اندراج ہو سکتا ہے تو حکومت الیکٹرانک ووٹنگ پر عوام اور اپوزیشن کو مطمئن کیسے کرے گی۔ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ دو سے تین ہزار روپے میں ملک بھر میں جعلی ویکسی نیشن کا اندراج ہو رہا ہے۔ یہ سوالات نہیں بلکہ وطن عزیز کے خلاف عالمی سازش کا بیانیہ ہے جو اپوزیشن اور چند نام نہاد صحافیوں نے اپنایا ہوا ہے۔ یہ حکومت کو بدنام کرنے کی ایک گھناونی سازش ہے۔ اور تو اور اپوزیشن کورونا کی مد میں ملنے والی امداد کے استعمال پر بھی شک کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تفصیلات کا تقاضا کرتی رہی ہے۔ اب ایسی اپوزیشن کے سوالوں کے جواب کون دے اور کیوں دے۔

جواب تو افغانی جنرل مبین کی باتوں کا بھی نہیں دیں گے۔ وہ بھی اپوزیشن کی زبان بول رہا ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ عوام، کورونا، اپوزیشن کے بعد ہمارے کپتان کو ہمسائے بھی اچھے نہیں ملے ایک ہمسایہ فون نہیں سنتا تو دوسرا اپوزیشن کی زبان بول رہا ہے اور مداخلت کا الزام لگا رہا ہے۔ حالانکہ کپتان نے کے پی کے کی گرینائٹ مائنز کے ٹھیکہ سے لے کر آٹا، چینی، ادویات، پٹرول، کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہونے تک مداخلت نہیں کی یہ تو ناہنجار اپوزیشن نے شور مچایا تو تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دینی پڑیں۔ مگر اپوزیشن ہے کہ اس کا شور ہی کم نہیں ہو رہا۔

کیونکہ اپوزیشن کو علم ہے کہ یہی پالیسیاں رہیں تو دنیا بھر سے لوگ روزگار کی تلاش میں یہاں آئیں گے اور اپوزیشن یہ ترقی نہیں چاہتی۔ خیر ایک صفحے پر موجود ہونے کی وجہ سے اپوزیشن کی کسے فکر ہے۔ اپوزیشن کان کھول کر سن لے کہ کپتان مافیاز کے خلاف ڈٹ کے کھڑا ہے اور اسی طرح کھڑا رہے گا اپوزیشن چاہے جتنا مرضی شور مچا لے واویلا کر لے۔ قصہ مختصر کچھ نہیں ہونے والا اور حکومت اسی طرح محنت کرتی رہے گی۔ رہی بات میاں نواز شریف کی ویکسی نیشن کی تو پوچھنا یہ تھا کہ کیا میاں نواز شریف 20 اکتوبر کو دوسری ڈوز لگوائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments