”نلکا اور ہلکا“


حیدر آباد تھل کے ایک شریف انسان کا واحد ذریعہ معاش ورثے میں ملنے والی تھوڑی سی زرعی زمین تھی۔ وہ دن رات محنت کر کے کاشتکاری کرتے تھے۔ نہری پانی میسر نہیں تھا۔ زمین بارانی تھی۔ صرف چنے کی فصل ہوتی تھی۔ زندگی مشکل تھی مگر آنے والے اچھے دنوں کی امید میں ہنسی خوشی گزر رہی تھی۔ جب بچے بڑے ہو گئے تو وہ صاحب بچوں کی تعلیم کے لئے جھنگ منتقل ہو گئے۔ ان کا بڑا بیٹا کالج جا کر غلط صحبت کا شکار ہو گیا۔ وہ امتحان میں بھی فیل ہو گیا اور اس کے برے رویے کی وجہ سے گھر میں آئے دن کوئی نہ کوئی شکایت لے کر آ جاتا۔

ایک دن محنتی کاشتکار  نے بیٹے کو سامنے بٹھایا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا ”بیٹا اگر مجھے ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ تم بڑے ہو کر ایسے ہلکے نکلو گے تو میں تمہاری تعلیم پر بے جا خرچ کرنے کی بجائے اسی رقم سے اپنے“ تھل ”میں دو چار نلکے لگواتا اور عمر بھر دعائیں کماتا“ ۔ بندے کو اتنا بھی ہلکا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک نلکا مخلوق خدا کے لئے سودمند ہو اور ایک جیتا جاگتا انسان ان کے لئے باعث ازار ہو۔ دکھی باپ کی نصیحت بیٹے کے دل پر اثر کر گئی۔ اس نے دوستوں کا حلقہ بدل لیا۔ اب وہ ایک پڑھا لکھا، کامیاب انسان ہے۔ رزق حلال کما کر اپنے علاقے میں نلکے لگوار رہا ہے اور بزرگوں کے لئے دعائیں کما رہا ہے۔

گھی کے ایک اشتہار میں کہا جاتا ہے کہ ”جہاں ممتا وہاں، ہماری کمپنی کا گھی“ ۔ اس اشتہار کی صداقت کے بارے میں کوئی ماں بہتر بتا سکتی ہے یا گھی۔ ہم تھلوچی اور چولستانی تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ ہمارے دیہاتوں کے بارے میں یہ بات ازل سے سچ ہے۔ :

”جہاں نلکا وہاں زندگی“

حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس تو لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں ہوتے ہیں۔ تھل اور چولستان میں حلقہ ارباب شوق کے تقریباً تمام اجلاس نلکے کی موجودگی سے مشروط ہوتے ہیں۔ پانی کی کمی کے باعث لوگ بعض اوقات نلکا لگوا لیتے ہیں اور اپنے دل کی ملکہ کے ساتھ نکاح کی تقریب موخر کر دیتے ہیں۔

نلکے کا ذکر مچھیرے کی کہانی کے بغیر ادھورا ہے۔ جب بادشاہوں کا زمانہ تھا تو اکثر بادشاہ رات کے وقت بھیس بدل کر عوام کی خیر خبر لیتے تھے۔ ایسے ہی ایک خفیہ دورے کے دوران بادشاہ کا سامنا ایک مچھیرے سے ہوا جو ایک نلکے کے نیچے کھڑا انتہائی خوبصورت، رنگ برنگی مچھلی دھو رہا تھا۔ بادشاہ کے استفسار پر مچھیرے نے بتایا کہ وہ یہ نایاب مچھلی بادشاہ کی خدمت میں پیش کرے گا اور انعام و اکرام پائے گا۔ بھیس بدلے بادشاہ نے کہا کہ اگر بادشاہ کو مچھلی پسند نہ آئی تو ؟

مچھیرے نے جواب دیا کہ وہ پھر بادشاہ سے کہے گا ”وہ بادشاہ نہیں ہے بلکہ فہم و فراست میں کسی مچھیرے سے بھی گیا گزرا ہے“ ۔ صبح دربار میں ظل الہی پورے شاہی جاہ و جلال کے ساتھ موجود تھے۔ مچھیرے کی چھٹی حس نے بتا دیا کہ یہ صاحب وہی نلکے والے ہیں۔ جلال بھرے لہجے میں مچھیرے کی آمد کا مقصد پوچھا گیا۔ مچھیرے نے بتایا کہ وہ ایک نایاب مچھلی بادشاہ کی نذر کرنے آیا ہے۔ کہا گیا کہ اگر مچھلی پسند نہ آئی تو ۔ مچھیرے نے نہایت ادب سے گزارش کی ”پھر نلکے والی بات تو جناب والا کو یاد ہوگی“ ۔ گئے وقتوں کے بادشاہ بھی آخر بادشاہ ہوتے تھے۔ بادشاہ نے نہایت متانت سے جواب دیا یاد آ گیا، رات ہم نے تمہیں انعام و اکرام دینے کا وعدہ کیا تھا۔ یوں بادشاہ کی عزت اور مچھیرے کا اعتبار دونوں سلامت ر ہے۔

ایک نلکے کا صدقہ شاید ہمارے صاحب ثروت لوگوں کو بہت ہلکا لگے مگر تھل اور چولستان کے دیہاتوں میں نلکا زندگی کی علامت ہے۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے ہونے والے مسائل کا اندازہ وہ لوگ کبھی بھی نہیں کر سکتے جو پانی کے ضیاع کو نہ تو گناہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی کوئی اخلاقی برائی۔ زندگی پانی سے پیدا کی گئی ہے اور دیکھا جائے تو پانی ہی زندگی ہے۔ بعض اوقات پانی کی ایک بوند دنیا کے ہر خزانے سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔

ہمارے دین کی تعلیمات کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی نیکی کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ قرآن پاک میں ہے کہ روز جزا ہر شخص کو اس کی چھوٹی سی چھوٹی نیکی اور معمولی سے معمولی برائی بھی دکھا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے حضرت سعدؓ بن عبادہ سے فرمایا کہ اے سعدؓ کیا میں تمہیں ایسا ہلکا صدقہ جس میں بوجھ بالکل کم ہو نہ بتاؤں۔ حضرت سعدؓ نے فرمایا کیوں نہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ”پانی پلانا“ ۔ چنانچہ حضرت سعدؓ لوگوں کو پانی پلاتے تھے۔ ایک اور حدیث پاک میں مروی ہے کہ جہاں پانی کی قلت ہو وہاں کسی کو پانی پلانے کا ثواب بہت ہی زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بہترین صدقہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments