آدم جی انعام کی یادیں



آدم جی انعام کے اعلان سننے کا تجربہ سنئے جسے میں شاید کبھی نہیں بھولوں گی۔

ہمارے خاندان میں خبریں سننے کا رواج نانا دادا کے زمانے سے ہے۔ نانا کے ہاں پہلے پہل ریڈیو آیا تو جنگ عظیم کی خبریں محلے والے سننے آتے تھے۔ عورتوں کو پردے میں جانا ہوتا تھا، اور سچ بات ہے عورتوں کو خبروں سے دلچسپی کم ہی تھی۔ چنانچہ خبریں کسی زبان میں ہوں ریڈیو آن ہوتا تھا۔

یہ عادت ہمارے گھر تک آئی۔ چنانچہ ایک دن میں نے اپنا نام بنگلہ خبروں میں سنا اور کچھ مبہوت سی ہو گئی۔ کانوں پر یقین نہیں تھا مگر شبہ بھی خاصا مضبوط تھا۔ اسی حیص بیص میں بعد کی خبروں سے پتہ چلا کہ میرے ناول آبلہ پا کو 1964سال کا بہترین ناول قرار دے کر آدم جی انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔

پہلے پہل کی انہونی سی بات۔ آج تک یاد ہے کہ خون کس طرح سنسناتا ہوا میرے چہرے کی طرف دوڑنے لگا۔ فے بھی سن کر خوش ہوئے اور بچے بھی گو کہ چھوٹے تھے مگر جانتے تھے کہ امی ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھتی پڑھتی رہتی ہیں۔

مبارک باد کے خطوط وغیرہ آئے۔ آہستہ آہستہ مندی کا رجحان ہو گیا۔ پچھلے کئی سال سے انعامات نہیں ملے تھے۔ رائٹرز گلڈ کے منتظمین صدر پاکستان کے ہاتھ سے انعام دلوانا چاہتے تھے۔ وہ وقت نہیں دے رہے تھے۔ کئی سال سے انعام نہ ملنے کا جو خط احمد فراز کے کہنے میں نے آدم جی کو لکھ دیا تھا اس سے جمیل الدین عالی خوش نہ تھے۔ بہر حال طے ہوا کہ 1967 میں چیف جسٹس کارنیلیس کے ہاتھوں ڈھاکہ میں انعامات تقسیم ہوں گے۔

دعوت نامہ موصول ہوا۔ ہم ورسک سے ڈھاکہ گئے فصیح کو اسی زمانے میں وہاں انجنیئرنگ کانفرنس میں شرکت کرنی تھی۔

اسی جہاز سے احمد فراز بھی سفر کر رہے تھے۔ سفر بخیر و خوبی گزرا۔ ائر پورٹ پر بہت لوگ لینے آئے، مگر نام یاد نہیں اور ہم اس وقت چند لوگوں کے سوا کسی کو پہچانتے کہاں تھے۔ ہوٹل ادیبوں سے بھرا ہوا تھا۔ کئی سال کے انعامات دیے جا رہے تھے۔ مشرقی پاکستان کے ادیب تو ہمیں کیا پہچانتے، مغربی پاکستانی بھی شکایت کرتے رہے کہ آپ کے افسانے ہر پرچے میں چھپتے تھے آپ کہیں نظر نہیں آتی تھیں۔ خیر سب بہت خلوص سے ملے۔

اس رات بہت دیر ہنگامہ رہا۔ لوگ ٹولیوں میں بٹے خوش گپیاں کرتے ر ہے۔ ہم جلدی اٹھ گئے۔ فصیح کو کانفرنس میں شرکت کے لئے صبح جلدی جانا تھا۔ ناشتے اور دوپہر کے کھانے پر زبردست ناشتہ چہل پہل رہی۔ باتیں قہقہے، نئے پرانے لوگوں سے ملاقاتیں۔ آپ نے سنا ہی ہو گا، اک ہمدم دیرینہ کا ملنا، بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے۔

پھر شام کی تیاری شروع ہوئی۔ ظاہر ہے کہ سب خوب خوب تیار ہوئے۔ باہر نکلے تو بے شمار ٹیکسیاں جلسہ گاہ جانے کے لئے تیار کھڑی تھیں۔ ادیبوں کی تعداد بھی خاصی تھی، جلسہ گاہ اچھا سجا ہوا تھا۔ حاضرین بھی بہت تھے۔

ضروری کار روائی کے بعد انعام کے لئے جو پہلا نام پکارا گیا وہ میرا تھا۔ ممکن ہے اس وجہ سے کہ انعام لینے والوں میں واحد عورت میں تھی۔ تجربہ خاک نہ تھا۔ اٹھی۔ اسٹیج پر چھوٹے راستے سے گئی، اسی طرف سارے فوٹو گرافر کھڑے تھے مگر بد حواسی میں ہوش کہاں۔ ان کی طرف پیٹھ کیے ترنت انعام لے کر لوٹ آئی۔ تصویر کوئی نہیں کھینچی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوکل اخبار میں جس تصویر کے نیچے ہمارا نام لکھا تھا وہ ان بنگالی خاتون کی تھی جو اپنے مرحوم شوہر کا انعام لینے آئی تھیں۔ چونکہ انعام لینے والوں میں واحد عورت میں تھی۔ اس لئے اس عورت کو رضیہ فرض کر لیا گیا۔ ہمارے بعد احمد فراز کا نام آیا جو نہایت بردباری سے فوٹو گرافروں کے سامنے سے گئے۔ بہت تصویریں لی گئیں۔ باقی لوگوں نے بھی ان کی تقلید کی۔

تقریب بہت کامیاب رہی۔ بہت خوبصورت بٹوا، اس میں پانچ ہزار کا چیک۔ بڑی سی پھولدار سند سبز اور سنہری ڈوری میں لپٹی ہوئی، اردو اور انگریزی میں تحریر۔ پہلے ناول پر انعام کی خوشی الگ۔ ادیبوں سے ملنے کی مسرت بے پناہ۔ بے شمار ادیبوں، خصوصاً مشرقی پاکستان کے ان ادیبوں سے ملنا جنہیں کتابوں میں پڑھتے تھے۔ ایک ایسا تجربہ جس کی کئی باتیں بھول بھی جاؤں تو پہلی مرتبہ اتنے بہت سے ادیبوں سے ملنے کے مواقع، مجھ جیسی نووارد کی پذیرائی بھولنے کی چیز نہیں۔ راج شاہی یونیورسٹی میں آبلہ پا کورس میں شامل کرلی گئی تھی، یہ سن کر خوشگوار حیرت ہوئی۔

شام کو لوگ ٹولیوں میں سیر کرنے نکلے۔ ہمارا پروگرام جمیل جالبی، اسلم فرخی اور خالد صاحب کے ساتھ بنا۔ بوڑھی گنگا میں کشتی رانی کی گئی۔ چھوٹے موٹے ہوٹلوں سے لتا منگیشکر کے گانوں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ جمیل جالبی صاحب نے کہا، ”ان گانوں نے یہاں اردو کو زندہ رکھا ہے۔“

جمیل جالبی صاحب میزبانی سنبھال لی جو ان پر ہمیشہ سجتی تھی۔ پہلے کٹھل کھلایا بعد ازیں میٹھا پان۔ حاضرین سے پوچھا کیسا لگا۔ خالد صاحب نے جواب دیا کٹھل کے بعد تو بہت اچھا لگا۔ اس پر سب ہنسنے لگے اور اس کے بعد جو ہم لوگوں پر ہنسی کا دورہ پڑا ہے تو بات بے بات بچوں کی طرح ہنستے رہے اور برسوں اس بات کو یاد کرتے رہے کہ اس دن کس قدر، اور نہ جانے کیوں ہنسے تھے۔

آہستہ آہستہ لوگ ڈھاکہ سے جانے شروع ہو گئے۔ ہم بھی زیادہ دن نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ دونوں بچوں کے پاس چند دن ایک فیملی نے رہنے کا وعدہ کر لیا تھا۔ ہم 1965 میں سیر کے لئے آئے تھے اور بہت سی جگہیں دیکھ چکے تھے۔ اس مرتبہ مقامی لوگوں میں یہ بات محسوس کی کہ اردو میں بات کرنے سے گریز کر رہے تھے، انگریزی میں بات کر رہے تھے۔ میں نے جب ایک خاتون سے سوال پوچھا تو انھوں نے کہا کہ آپ بنگلہ میں بات کیوں نہیں کرتیں؟

بہر حال اس وقت حالات کچھ بدلتے دکھائی دیے۔ ہوا میں کچھ تھا ضرور جو محسوس ہوتا بھی تھا اور نا محسوس سا بھی تھا۔ چند سال بعد جو ہوا اس سے اندازہ ہوا کہ وہ کیا بات تھے جو محسوس بھی ہو رہی تھی اور غیر محسوس بھی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments