تزک عمرانی (شفیق الرحمٰن سے معذرت کے ساتھ)۔


اہلیہ ء سوم اور ٹی وی کے توسط سے خبر پائی کہ ناقدین نے ہم پر طرح طرح کی افتراء پردازی شروع کر رکھی ہے۔ اگرچہ ہم مقامی مبصرین کی لگام بندی بطریق احسن فرما چکے ہیں تاہم غیر ملکی بک بک کا جواب از حد ضروری ہے۔ سنا ہے لوگوں نے ہمارے متعلق ایک نہایت بے ہودہ کہاوت، شامت اعمال ما با صورت عمراں گرفت، گھڑ رکھی ہے۔ خبر ہوتی کہ ہمارے اقتدار میں آنے پر یہ اودھم اور غل غپاڑے مچیں گے تو کبھی گیٹ نمبر تین کا رخ نہ کرتے۔

ہم تو چوروں اور ڈاکوؤں کی گوشمالی کے واسطے آئے تھے اور غریب کو اوپر لے جانا بھی مقصود تھا لہٰذا اوپر سے نصرت ناگزیر ٹھہری۔ سو بوٹ کی شان میں سر زد گستاخیوں پہ سخت نادم ہوئے اور عروج آدم خاکی کی حقیقت پا کر فوراً رجوع کر لیا۔ پھر ہم اقتدار میں آنے کی وجوہات پر غور فرمایا اور نہایت عرق ریزی کے بعد درج ذیل وجوہات گھڑ لیں۔ ،

1۔ ہمیں باور کرایا جاتا رہا کہ ہم تاریخ کے مقبول ترین انسان ہیں مگر دو عشروں کی سر توڑ کوشش کے با وجود ہم تخت پر جلوہ افروز نہ ہو پائے تھے سو بہ طفیل پاپوشاں شیر وانی پہننا غنیمت سمجھا۔ مزید یہ کہ اپنی دو سو ماہرین کی ٹیم کو اس ملک کے لئے آزمانا بھی ضروری تھا۔

2۔ ہمارے پائے کا کوئی شخص سلطنت میں دستیاب نہ تھا تو بلا شرکت غیرے ہم شہنشاہ بنے۔ نیز ریاست مدینہ کے نعرے کے لئے ہم سے موزوں کوئی دوسرا نہ تھا۔

3۔ پچھلے حکمران گھاس کھا کر ملک سنوارنے کا دعویٰ کرتے تھے۔ ہمارے دل میں درد اٹھا کہ اگر ساری گھاس ہم کھا گئے خطے کی بکریاں، گائیں اور بھینسیں کیا کھائیں گی۔ سو ہمارے آئے بنا اس بدعت کو روکنا ممکن نہ تھا۔

4۔ ہمیں ثابت کرنا تھا کہ ہمارے دور میں کتا بھی کسی دریا کنارے نہ مرے گا۔ لہٰذا سگ پروری کرتے ہوئے ہم نے انہیں اپنے محل میں مقام عطا کیا ہے۔

5۔ کرپٹ چوروں کا خاتمہ ہمارے بغیر ممکن نہ تھا۔ سو اقتدار میں آ کر سخت قدم اٹھائے اور ادویات شدید مہنگی کیں تاکہ بیمار بد عنوان عناصر کو علاج میں مشکلات پیش آئیں اور کڑھ کڑھ کر مریں۔

6۔ ہمارا آنا اس واسطے بھی لازم تھا کہ معصوم عوام کو سابقہ حکمرانوں کے کرتوت ہائے سیاہ سے آگاہ کیا جائے۔

7۔ چونکہ ہم انصاف کے علم بردار تھے لہٰذا عملی انصاف کی خاطر اقتدار میں آ کر زنجیر عدل کی تنصیب چاہتے تھے۔ جب علم ہوا کہ وہ زنجیر ہمارے سیاسی حریف کی اتفاق فاؤنڈری میں بنی ہے تو ارادہ ترک کرنا پڑا۔ تاہم معیشت میں بہتری آتے ہی زنجیر باہر سے منگوا لی جائے گی۔

تخت پر براجمان ہوتے ہی ہم نے شاہی محل کو درس گاہ بنانے کا حکم دیا۔ ادھر شاہی محل میں بنے بھینسوں کے واڑے نے ہمارے جذبات شدید بر انگیختہ کر دیے۔ چونکہ ہم بین بجانے کے فن سے نا آشنا تھے سو بعوض چوبیس لاکھ سکہ رائج الوقت ان منحوسوں کا قلع قمع فرمایا۔ ، چہ ارزاں فروختند، کا شور اٹھا تو مشاعرہ کروا کر رقم مصرف میں لائے۔ یوں کرپشن کے الزام سے بھی محفوظ ہوئے۔ مخالفین کی، ہنوز تبدیلی دور است، اور، عمران بڑا اپدیشک ہے، کی لغویات بغض و کینہ پر مبنی ہیں۔

ہم پر سیاسی حریفوں کو دبانے کا الزام ہے۔ ہم ببانگ دہل اعلان فرماتے ہیں کہ ان کو زجر و توبیخ کے ذریعے زچ کر کے زک پہنائی جائے گی۔ مصمم ارادہ ہے کہ ہم کرپٹ ٹولے کو نہیں چھوڑیں گے اور لوٹے ہوئے لاکھوں روپے وصول کرنے کے لئے اربوں روپے لگانے سے بھی دریغ نہ کریں گے۔ آخر ذمیہ کام اور وژن بھی کوئی چیز ہے۔ تاریخ گواہ کہ اتنی قلیل مدت میں جو اعزازات ما بدولت کو ملے کسی اور حکمراں کو نصیب کہاں؟ سبز باغوں کے وعدوں، دعوؤں، بڑھکوں اور بیرونی قرضوں کی بابت اک عالم ہمارا معترف و معتقد ہے۔

ہماری روحانیت کا لوہا سب مانتے ہیں کیونکہ ہم کسی کے ”مرید“ ہو کر بھی اسی کے مجازی خدا لگے ہوئے ہیں۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ ہمارے بے ہودہ مخالفین ہماری کثیر الازواجی میں کیڑے مکوڑے نکالتے رہتے ہیں۔ ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں کبھی بھی ایسی حاجت نہیں رہی۔ وہ تو چند ایک خود ہمارے ساتھ ہو لیتی رہی ہیں۔ کچھ نے تو اس عجلت و اشتیاق میں عبوری مدت کو بھی گھاس نہ ڈالی۔ ستر سالوں میں حکمرانوں نے اس قوم کو دھوکے سے صرف چار موسموں پر ٹرخا رکھا تھا، ہم نے آتے ہی بارہ موسموں کی نوید دی۔

کرکٹ جیسے موذی کھیل پر پیسے کا ضیاع جاری تھا۔ یہ ہمی ہیں کہ فرنگی ٹیموں کے پھٹیچر اور ریلو کٹوں کو بغیر کھلائے منہ کی کھا کر لوٹنے پر مجبور کر دیا۔ معترضین ہم پر ڈالر اور پٹرول مہنگا کرنے کی تہمت بھی دھرتے ہیں۔ انہیں بتلاؤ کہ سابقہ الو حکمرانوں نے تو ڈالر مصنوعی طور پر سستا کر رکھا تھا جس کی وجہ سے ہمارا روپیہ مہنگا ہوتا جا رہا تھا۔ ہم نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر عوام کی خاطر روپیہ سستا کیا۔ یہ ہمی ہیں کہ پٹرول ایک سو پچیس تک محدود ہے ورنہ اس کی قیمت پانچ صد بھی تو ہو سکتی ہے۔

ہماری تشریف آوری سے پہلے نحیف، مظلوم اور پارسا عوام پر ظلم کی پہاڑیاں توڑی جاتی تھیں اور وہ احتجاج کے لئے گلی گلی پھرتی تھیں۔ ہم نے انہیں گھبرانے سے منع فرمایا اور صبر سے ہر ظلم سہنے کے قابل بنانے کی کوشش کی مگر خدا کی پناہ کہ ہم جیسی صادق، امین اور دیانت گزیدہ ہستی کے ہوتے ہوئے وہی عوام بد تمیزی، نا شکری اور بد دیانتی پر اترتی چلی گئی۔ مہنگائی، لنگر خانوں اور نوکریوں کی بابت حشر سامانیاں کرتے ہیں۔

قرض لینے پر خود کشی کے وعدے یاد دلاتے ہیں۔ ان ناہنجاروں کو بتلاؤ کہ فی الوقت ملکی مفاد کے لئے خود کشی ہرگز ہرگز ممکن نہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد دلا کر چڑھایا جاتا ہے کہ حکمران چور ہو تو مہنگائی ہوتی ہے۔ یوں ہمارے غضب کو دعوت دیتے ہیں، کیا ان کو اللہ کے رازق ہونے کا یقین نہیں۔ پاکستانیوں یاد رکھو، جب تک اللہ نہ چاہے حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ قادری بھائی نے تو بہت پہلے یہ بات بتا دی تھی۔ زندگی امتحان ہے اور سکون صرف قبر میں ہے۔ غور سے سن لو کہ ما بدولت کے خلاف ریشہ دوانیاں اور پروپیگنڈے بند کیے جائیں ورنہ جان لو کہ

“تبدیلی بہترین انتقام ہے”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments