چائے پئیں گے؟ جی ضرور!


مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اجتماعی کلچر اور تہذیب سے ہمارے اندر ایک منافقت اور دوغلا پن پیدا ہو چکا ہے۔ اس احساس میں شدت یورپ میں کچھ سال گزارنے کے بعد اب بڑھ چکی ہے۔ ہوف سٹیڈے  جو کہ مختلف تہذیبوں اور کلچرز کا تقابل کرنے والا نفسیات دان/ماہر تھا، نے کسی بھی کلچر کو سمجھنے کے لیے پانچ مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا ہے۔ یعنی ہم ان پانچ مختلف اکائیوں کی بنیاد پہ ایک کلچر کو دوسرے سے الگ کر سکتے ہیں اور اس کا مناسب مطالعہ کر سکتے ہیں۔

ان اکائیوں میں طاقت کا فاصلہ  ، مبہم صورت حال سے بچاؤ  انفرادیت مردانگی۔ زنانگی اور مستقبل دور کا سوچنا شامل ہیں۔ ان عام اکائیوں کو بیان کرنے کے لیے خاصہ وقت درکار ہے لہٰذا ہم صرف اجتماعیت۔ انفرادیت کو بیان کریں گے کیونکہ میرے خیال میں یہ پہلو اہم ترین ہے۔

اجتماعیت سے مراد یہ ہے کہ معاشرے میں کس قدر لوگ گروہوں، جماعتوں اور تنظیموں سے منسلک ہیں۔ ایک اجتماعیت کے حامل معاشرے میں لوگوں کی پہچان ان کے مذہب، زبان اور نسل سے ہوتی ہے۔ اس حوالے سے میرا ایک نہایت دلچسپ مشاہدہ ہے کہ ہر سمیسٹر کے آغاز میں جب ہم کلاس میں اپنا تعارف کروا رہے ہوتے ہیں تو ایشیا اور افریقہ (جہاں اجتماعیت کے حامل معاشرے قائم ہیں ) سے آئے ہوئے طالب علم اپنے تعارف کے دوران یہ ضرور بتاتے ہیں کہ ان کا تعلق کس ملک سے ہے (یعنی ان کی پہچان ایک گروہ سے ہوتی ہے یا کم از کم وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ نہایت اہم ہے کہ وہ کس ملک سے ہے کیونکہ یہ اس کے تعارف کا حصہ ہے ) جبکہ اس کے بالکل برعکس آج تک کلاس میں کسی جرمن یا فرانسیسی طالب علم نے یہ نہیں بتایا کہ وہ جرمنی یا فرانس سے ہے (کم از کم تعارف کے دوران) ۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ یورپ اور امریکہ میں انفرادیت کے حامل معاشرے قائم ہیں جہاں لوگوں کی پہچان ان کے ملک یا پھر ان کے مذہب سے نہیں بلکہ ان کی اپنی ذات، ان کے اپنے وجود سے ہوتی ہے۔

کسی جماعت سے تعلق رکھنا یا پھر کسی جماعت کے توسط سے اپنا تعارف کروانا کوئی معیوب فعل بالکل بھی نہیں ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ مختلف تہذیبوں اور کلچرز کی بدولت ہی تو اس دنیا میں گہما گہمی اور رنگ موجود ہیں لیکن جب مختلف کلچرز کے لوگ آپس میں ملتے جلتے ہیں اور مختلف معاملات اور کام مل کر سر انجام دیتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ دال میں کہاں کہاں کالا ہے اور کہاں کہاں سے دال ہی کالی ہے۔

ایک اجتماعی کلچر میں رہنے کے لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ آپ معاشرے کے ہر فرد سے مثبت تعلق استوار رکھیں اور پھر خاص طور پہ اس گروہ/جماعت سے جو آپ کا گروہ ہے یا جس کی وساطت سے آپ جانے جاتے ہیں۔ اور بس یہی بنیاد ہے منافقت کی۔ چونکہ آپ معاشرے یا پھر اپنے گروہ کے ہر فرد سے مثبت تعلق رکھ نہیں سکتے (اب آپ ہر شخص کے ساتھ کیفے میں بیٹھ کر چائے پینے اور گپ شپ لگانے کے متحمل کہاں! ) تو آپ کو منافقت کا لبادہ اوڑھنا پڑتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی اجتماعی سوچ کا اندازہ اس میں موجود لطیفوں سے کیا جا سکتا ہے (وائیڈ کے نزدیک لطیفے اور دوسرے مذاق یہی ہماری راہنمائی لاشعور تک کرتے ہیں ) اور آپ دیکھیں گے کہ ہماری کتنی ہی میمز رشتہ داروں کے اردگرد گھومتی ہیں۔ پھوپھو کے متعلق کتنے لطیفے منظر عام پہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اگر کوئی رشتہ دار بیمار پڑ جائے۔ آپ کا اس سے انتہا درجے کا بیر ہی کیوں نہ ہو، آپ صرف اس لیے اس کی بیمار پرسی کے لیے جائیں گے کہ اگر نہ گئے تو لوگ کیا کہیں گے! جن لوگوں سے راہ چلتے آپ سلام تک نہیں لیتے ان کی غمی خوشی میں بھی بددلی سے شریک ضرور ہوں گے کیونکہ معاشرہ یہی تقاضا کرتا ہے۔ میں آپ کو ایک دو واقعات جو میرے ساتھ اس کلچرل فرق کی وجہ سے یورپ میں پیش آئے سانجھے کرتا ہوں۔

یاد رہے کہ یورپ ایک انفرادیت کا حامل براعظم ہے جہاں عمومی طور پہ لوگ وہی کہتے ہیں، کرتے ہیں جو ان کا دل کرتا ہے۔ معاشرے کا خوف یا یہ خوف کہ لوگ کیا کہیں گے، ان کے قریب سے نہیں گزرتا۔ وہ کبھی کسی کے دباؤ میں آ کر کسی ایسے شخص کے ہاں شادی یا مرگ کی تقریب میں نہیں جائیں گے جس سے وہ مراسم نہیں رکھنا چاہتے۔ لہٰذا اگر کوئی یورپ میں آپ سے کہتا ہے کہ آپ اس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ یہ صرف ازراہ تکلف کہہ رہا ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ واقعی آپ سے کہہ رہا ہے کہ آپ اس کے ساتھ کھانا کھائیں اور اگر آپ اسے (ہماری ریت یہی ہے ) ازراہ تکلف یہ کہہ دیں کہ ”نہیں نہیں مجھے بھوک نہیں ہے“ تو وہ آپ سے دوبارہ نہیں کہے گا کیونکہ اسے کیا پتا کہ آپ کے ہاں پہلی دفعہ منع کرنا ضروری ہے۔

مجھے یاد ہے کہ شروعات کے دنوں میں جب بھی کوئی چیز کھانی تو ساتھ بیٹھے ہوئے بندے کو دعوت ضرور دے دینی چاہے وہ جاننے والا ہو یا انجان ہو اور چاہے میرا دل اس کو کھانا کھلانے کا کر رہا ہو یا نہ کر رہا ہو اور پھر اس بندے نے ایک دفعہ بھی منع کیے بغیر دعوت قبول کر لینی۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ عادت اور روایت سے مجبور ہو کر یوں ہی کسی کو تکلفاً دعوت دی اور پھر خود سارا دن یونیورسٹی میں بھوکے گزارا کیونکہ یہ لوگ بالکل بھی نہیں سوچتے کہ اگلا بندہ صرف تکلفاً پوچھ رہا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ سے کوئی بندہ گھر کے سامنے سے گزرتا ہوا دو منٹ رک کر بات چیت کرے آپ اس سے ملاقات ختم کرنے کے لیے کہیں کہ ”ہور فیر چائے پانی ہو جائے؟“ اور وہ کہے جی ضرور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments