کیا بائیس لاکھ زیر التوا مقدمات کی ذمہ دار بھی سندھ حکومت ہے


انتہائی قابل احترام سپریم کورٹ کے انتہائی قابل احترام چیف جسٹس نے ایک بار پھر کراچی میں گجر نالے، اور نسلہ ٹاور کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے حکومت سندھ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ محترم چیف جسٹس کا گجر نالے اور دیگر نالوں کے متاثرین کی بحالی کیس میں کہنا تھا کہ ”سندھ حکومت دیوالیہ پن کی طرف بڑھ رہی ہے، کراچی میں ایک انچ کام نہیں ہوا صرف کچرا، ابلتے گٹر اور گندگی ہے“ انہوں نے کراچی کے نالوں کے متاثرین کی بحالی کا حکم دیا جس پہ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن سے ریکور کیے گئے سندھ حکومت کے پیسوں میں سے دس ارب جاری کیے جائیں تاکہ متاثرین کی جلد بحالی کو ممکن بنایا جا سکے، اس پہ چیف جسٹس نے فرمایا کہ یہ پیسے سندھ پہ ہی خرچ ہوں گے مگر یہ سپریم کورٹ طے کرے گی۔ چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کو بھی ناقص کارکردگی پہ تنقید کا نشانہ بنایا۔

سپریم کورٹ کی انتظامی معاملات میں اس طرح ایکٹو ازم کا رواج سابقہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے زمانے میں پڑا جب وہ صبح کو اخبار پڑھ کر صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اقدامات اور پارلیمان میں کی گئی قانون سازی پہ سوموٹو  لے کر عملاً انتظامیہ کو مفلوج کر دیتے تھے، انہوں نے آئینی ترامیم تک کالعدم قرار دیں جبکہ پارلیمان سب سے مقدم اور سپریم ادارہ ہے۔

پارلیمانی معاملات اور انتظامی معاملات میں مداخلت کا جو سلسلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے شروع ہوا وہ ثاقب نثار کے دور میں بدترین شکل اختیار کرتا ہوا اب چیف جسٹس گلزار احمد کے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ انتہائی قابل تکریم اور چیف جسٹس سمیت تمام معزز ججز قابل احترام ہیں، چیف جسٹس نے سندھ حکومت کے بارے میں کئی مرتبہ جو ریمارکس دیے ہیں وہ سندھ کے سوا چھ کروڑ عوام اور پیپلز پارٹی کو ملنے والے مینڈیٹ کی توہین ہیں، سندھ حکومت کو حق حاکمیت چیف جسٹس نے نہیں بلکہ سندھ کے سوا چھ کروڑ عوام  نے ووٹ کے ذریعے دیا ہے۔

پاکستان کے آئین نے انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات اور حدود کا تعین کیا ہوا ہے، اور وہ ادارہ جو آئین کے تحت آئین کی پاسداری اور آئین کے تحفظ کے لیے بنا ہے اسی ادارے کے سربراہ کی جانب سے ایک دوسرے آئینی ادارے یعنی حکومت اور اس کے سربراہ کے خلاف اس طرح کے ریمارکس نامناسب اور ناپسندیدہ عمل ہے۔ سندھ کی عوام پہلے ہی زخم زخم ہے، وفاقی زیادتیوں ظلم و جبر پہ سراپا احتجاج ہے، ایک دوسرے آئینی ادارے کی جانب سے احتساب کے نام پہ بدترین انتقام کا شکار ہے، دو دن پہلے ہی سندھ کا ایک اور سرکاری افسر اس ادارے کے ظلم و زیادتی، دباؤ اور ذہنی تشدد کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے، سندھ کے سیاسی رہنما وفاقی سرکار کی ذاتی نفرت انا اور انتقام کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں، سرکاری افسران و سیاسی رہنما سپریم کورٹ سے انصاف ملنے کی امیدیں لگائے اس انتظار میں ہیں کہ ان کے ساتھ بھی دیگر صوبوں کے افسران اور عوام جیسا سلوک ہو گا انہیں برابری کی بنیاد پہ، حق و انصاف ملے گا، مگر افسوس کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔

پنجاب کے شہروں اور خیبرپختونخوا کی حالت سندھ سے بھی بدتر ہے، حالیہ دنوں میں ہونے والی بارشوں نے پنجاب اور کے پی کے میں ہونے والی تین سالہ ترقی کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ ڈالی ہے، خیبرپختونخوا میں دل کا ایک بھی ہسپتال نہیں ہے جہاں غریب کا مفت علاج ہو سکے، جبکہ سندھ میں ڈیڑھ درجن سے زائد شاندار دل کے امراض کے ہسپتال چوبیس گھنٹے عوام کو مفت بہترین علاج معالجے کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں، جگر، پھیپھڑوں، دل کی پیوندکاری کا علاج کرانے پورے ملک سمیت دنیا کے دیگر ممالک سے بھی لوگ سندھ کے شہروں کراچی اور گمبٹ ضلع خیرپور کا رخ کرتے اور مفت علاج کی سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، کینسر کے علاج کے لیے دنیا کی جدید ترین سائبر نائف ٹیکنالوجی کراچی کے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں حکومت سندھ نے عوام کو بالکل مفت فراہم کی ہوئی ہے جو دنیا کے کسی امیر ترین ترقی یافتہ ملک میں بھی نہیں ملتی، جبکہ سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری کو صرف کراچی کا کچرا اور سندھ کی بدانتظامی نظر آتی ہے لیکن پنجاب اور کے پی کے میں روزانہ کی بنیاد پہ بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ نظر نہیں آتی، گٹر کے گندے پانی میں ڈوبے اور کچرا کنڈی میں تبدیل ہوتے لاہور پشاور نظروں سے اوجھل ہیں۔

قابل احترام سپریم کورٹ کے انتہائی قابل احترام چیف جسٹس کو اس طرح ایک آئینی طور پر منتخب عوامی جمہوری حکومت کو اسکینڈلائیز نہیں کرنا چاہیے نہ ہی اس پر غیر ضروری دباؤ ڈال کر اس کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دے کر صوبے کی عوام کی توہین کرنی چاہیے بلکہ حکومت کو گائیڈ لائن دے کر عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے ہدایات ضرور جاری کریں مگر اس طرح کہ جس سے توہین اور بے عزتی کا کوئی تاثر نہ ملتا ہو۔ کچھ ماہ پہلے قابل احترام چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کو بھی سخت آڑے ہاتھوں لیا تھا اس وقت بھی ہم نے اس بات کو ناپسندیدگی سے دیکھتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار اسی طرح کیا تھا، مگر آج جب میں خود سندھ صوبے کی سرکار کا ووٹر اور سپورٹر ہوں تو چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس کو میں اپنی ذاتی توہین سمجھتا ہوں۔

محترم جناب چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ سپریم کورٹ اور ماتحت اعلیٰ عدالتوں اور ان کے ماتحت عدالتوں میں بیس لاکھ سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں جن کی تعداد میں سیکڑوں کے حساب سے روانہ اضافہ ہو رہا ہے ان کو جلد از جلد نمٹانے پہ توجہ مرکوز رکھیں ہزاروں معصوم و بے گناہ لوگ بنا کسی جرم کے اپنی باریوں کے انتظار میں عقوبت خانوں میں سڑ رہے ہیں، آج ہی ایک سترہ سالہ پرانے قتل کے مقدمے میں قید ایک بے گناہ کو رہائی نصیب ہوئی جس کی زندگی کے سترہ سال اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں لگ گئے، میرا سوال ہے کہ اس بے گناہ شخص کے سترہ سالوں کا حساب کون دے گا، آج نہیں تو روز محشر اللہ رب العزت کے سامنے اس کا جواب منصف کو دینا پڑے گا، کاش کہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مرحوم سیٹھ وقار کو بروقت اپنی موت سے قبل انصاف مل گیا ہوتا جس کے لیے انہوں نے اپنی ہی عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، قاضی فائز عیسیٰ کو سرکاری گماشتوں کے ذریعے بے توقیر کرنے کے بجائے انصاف فراہم کیا گیا ہوتا۔

سپریم کورٹ اور قابل احترام چیف جسٹس کا عوامی معاملات پہ نوٹس لینا اور ان کے حل کے لیے کوششیں کرنا انتہائی قابل تحسین عمل ہے مگر اس دوران اپنے ریمارکس سے حکومتوں کی توہین نامناسب ہے، بہتر نہیں ہو گا کہ ملک کے عدالتی نظام میں اصلاحات کے لاکر عوام کو فوری اور سستے انصاف پہ توجہ دی جائے بجائے اس کے کہ انتظامی معاملات میں بے جا مداخلت کر کے منتخب عوامی جمہوری حکومتوں کی تضحیک کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments