افغان بحران کے حل کی کلید


افغانستان کی صورتحال روز بروز سلجھنے کی بجائے الجھتی جا رہی ہے جو قطعاً غیر متوقع نہیں، سماج کی سائنسی حرکیات کی بنیاد سیاسی پرکھ کا سماجی معاشی سیاسی تضادات کے جدلیاتی تجزیہ و تحلیل میں بصیرت افروز رہنمائی ملتی ہے مسئلہ یہ ہے کہ جدلیات اور مادی تاریخی ارتقا کے الفاظ ہمارے صاحبان اختیار، جبہ و دستار اور اقتداری حلقے کے افراد کے اذہان میں بدہضمی پیدا کر دیتے ہیں اور وہ ناک منہ بسورے اپنی دیو بالائی تصوراتی حکمت عملی کی پناہ گاہ میں چھپ جاتے ہیں پالیسی میں بہتر تبدیلی نہیں آتی اور حالات اپنی معینہ سمت میں آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ معاملات بگڑتے اور ہاتھ سے نکلتے ہیں تو خرابی بسیار کے بعد اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے دامن پاک کر لیا جاتا ہے چونکہ اعتراف میں اصلاح کا کوئی پہلو موجود نہیں ہوتا، نتیجتاً ماضی کی لکیر پر فقیرانہ سفر جاری رکھنا، عدم صلاحیت اور ماضی کے جبر کا ناگزیر تقاضا بن جاتا ہے فراز صاحب نہ خوب کہا تھا کہ ”نہ ہمارے حالات بدلے ہیں نہ ہمارے اشعار پرانے ہو کر ماضی کا حصہ بنے ہیں“ ، محاصرہ کل کی حکایت تو آج کی حقیقت بھی ہے۔

15 اگست 2021 ء کو کابل میں جو کچھ رو نما ہوا اسے بے سبب یا اچانک وقوع ہو والے واقعات سمجھنا درست نہیں ہاں مختصر مدت میں ایسا سب کچھ رونما ہونا، سب کے لیے حیرت انگیز ضرورت تھا، مجھے اب بھی یقین ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے انداز میں افغانستان کو طالبان کی جھولی میں ڈالنا امریکی قومی مفادات کی مختصر المدت اور طویل مدت پالیسی کا حصہ تھا۔ امریکیوں نے اپنا جنگی ساز و سامان بخوشی طالبان کو سونپ دیا مگر امریکی بینکوں میں موجود افغانستان کے مالی اثاثے منجمند کر دیے۔ کیا دوہری حکمت عملی کے آئینہ دار یہ واقعات حالیہ بحرانی اور ہیجانی صورتحال کی وضاحت نہیں کرتے؟

پاکستان میں افغان طالبان افغانستان اور ان کی افغانستان پر گرفت سے متعلق خواہشات اور عملی اقدامات نیز وہاں کے معروضی حالات میں گہرا تضاد نمایاں ہے۔ اندازہ ہو رہا ہے کہ میرے ملک کے معاملات مستقل مزاجی کی بجائے روزمرہ کی بنیاد پر طے کیے جا رہے ہیں۔ عمیق نگاہی اور عوامی سیاسی بصیرت کو بروئے کار لانے سے مسلسل گریز اس بحران کی گیرائی بیان کرتا ہے جو اقتدار و اختیار کی واضح منقسم شدہ شکل میں ریاستی امور میں سرایت کرچکا ہے۔

وزیراعظم پاکستان اور دیگر وزراء، محکمہ دفاع اور وزیر خارجہ، افغان طالبان کی حکومت تسلیم کرانے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں لیکن خود آگے بڑھ کر اسے تسلیم کرنے سے عاجز ہیں شاید اسلام آباد چاہتا ہے کہ دنیا۔ اور وہ بھی ان کے کہ کہنے پر۔ طالبان حکومت کو جلد از جلد تسلیم کر کے انہیں قانونی بنیاد مہیا کردے گی حکومت پاکستان بظاہر طالبان حکومت تسلیم کرنے سے گریزپا ہے اگر یہ مصلحت کوش حکمت عملی کا حصہ ہے تو دنیا کو اس کے بر عکس اقدام کا مشورہ کیوں دیا جائے؟ اور اگر دنیا کے دباؤ کی وجہ سے اسلام عملی پیش عملی سے اجتناب کر رہا ہے تو پھر شعلہ بار لہجے میں وکالت کے کیا معنی؟ کیا ہم اس کے منفی عملی اثرات کو جانتے بوجھتے ہوئے آنکھیں بند کر چکے ہیں۔ ؟

افغانستان میں خوراک کی قلت، بڑھتی بے روزگاری، عزت نفس کا عدم تحفظ اور اشیائے ضروریہ کی کمیابی ایک سنگین انسانی المیے میں بدل رہی ہے اس نازک مرحلے پر حکومت استدلال پیش کرتی ہے کہ اگر دنیا نے افغان طالبان کا ہاتھ نہ تھاما تو پھر دہشت گردی پھیلنے کا امکان ہے۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے بعد افغانستان میں انتشاری کیفیت یقیناً ختم ہوگی۔ دنیا اور بالخصوص افغانستان یا خطے میں سلامتی کی مجموعی صورتحال بہتر ہو جائے گی! دنیا بھر میں قابل توجہ سوال یہ ہے کی کیا طالبان افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل نیز سماجی سیاسی قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ اس بابت تاحال عملاً مثبت پیشرفت کے آثار نظر نہیں آتے چنانچہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان عوام کے عالمی مالی مادی امداد سیاسی طور پر طالبان حکومت کی موجودہ شکل و صورت کے لئے بہت بڑا سہارا ثابت ہوگی جو بذات خود افغانستان میں سیاسی عدم استحکام لانے کا سبب بن سکتی ہے، جبکہ اس کے برعکس اقدامات کا نتیجہ بھی انتہائی بھیانک اور غیر انسانی ہوگا، تو سوال یہ ہے کہ درپیش معروضی منظر نامے کو بہتر کیسے کیا جاسکتا ہے؟ میرے خیال میں اس کی کلید افغان طالبان کے پاس ہے وہ اگر اپنی منفی سوچ ہٹ دھرمی انانیت اور ضدی مزاج میں اصلاح کریں از خود وسیع مفاہمت پیدا کر لیں تو افغان بحران کے حل کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔
افغان بحران کیونکر ابھرا ہے؟ اس کے کئی اسباب ہیں، ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ سابقہ ادوار میں افغانستان کو ریاست کے طور پر چلانے کے لیے غیر شخصی جمہوری آئین میسر آیا تھا طالبان نے اپنی عسکری قوت کے زعم اسے پامال کر کے وہ متفقہ اساسی سیاسی بنیاد ختم کردی جو وسیع البنیاد معاشرتی سیاسی معاونت کا اہتمام کر سکتی تھی طالبان نے اس موقع پر پاکستان کے نقش قدم کی پیروی کی پاکستان میں بصد مشکل 1956 کا آئین معرض ٍ وجود آیا تھا جسے طالع آزماؤں نے منسوخ کر دیا پھر آئین کی تلاش میں ملک کا آدھا جغرافیہ بطور تاوان گنوایا۔
مماثلت دونوں طرف یکساں ہے عسکریت نے ملکوں کو سیاسی تمدن کے مکالمے کی دستاویز سے محروم کیا ہے اللہ نہ کرے افغانستان کو نئے آئین کی تشکیل میں ویسا ہی نقصان ہو جیسا پاکستان کو ہوا تھا
حالیہ ہفتے میں سامنے آنے والا نام نہاد ”عوام درست سامراجیت“ کا اتحاد قائم ہوا ہے جو چار ممالک پر مشتمل ہے مگر بحر اوقیانوس سے وسط ایشیائی منطقے کو میحط کرتا ہوا مشرقی وسطی تک عالمی سامراجیت کی گرفت مضبوط بنانے کی ایک عملی پیشرفت ہے بحران خلفشار زدہ افغانستان اس گھناونے مقصد کے بہت مفید المعنی ہے، ان حالات میں عمران حکومت کا یہ سمجھنا کہ دنیا اس کے غیرمنطقی اور سطی بیانات کو توجہ سے سن کر افغانستان کی مدد کو آئے گی۔ اور یوں طالبان حکومت کو جواز مل سکے گا یہ محض احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

امریکہ نے گزشتہ روز افغانستان پر عائد کچھ تجارتی پابندیوں میں بظاہر انسان دوستی کے نام نرمی کا اعلان کیا ہے، اب اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں سمیت امریکی کمپنیوں کو افغانستان سے لین دین کے لئے امریکی اجازت نامے جاری ہوں گے جس سے افغانستان کے عوام کی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے۔ اس کے بعد کیا طالبان اپنی حکومت میں موجود شدت پسند عناصر پر قابو پانے اور دیگر غیر طالبان سیاسی حلقوں کو شریک اقتدار کرنے پر آمادہ ہوں گے ؟ مجھے اس کا امکان نظر نہیں آتا کیونکہ طالبان کے اندرونی حلقوں میں اختلافات اور کشیدگی کی نشاندہی کرنے والے واقعات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ جنگجوئی میں منہمک تمام طالبان متحد تھے مگر اقتدار و حکومت کے معاملات میں بر گروہ حصہ بقدر جثہ کا طالب ہے ان میں مفاہمانہ رجحانات کی قلت ہے۔ دوحہ میں فعال و متحرک ملا عبدالغنی برادر منظر سے اب تک غائب ہیں ان کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ایک تصویر جس میں ان کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہے جاری کی گئی لیکن اس تصویر میں ملا بردار کے جسم کا نچلا حصہ چھپایا گیا ہے۔ ہاتھ پر زخم کا آنا اگر معمول کی بات ہے تو ملا برادر تاحال اپنے سیاسی معمولات کی بجا آوری سے عاجز کیوں ہیں؟
امریکہ نے تاحال طالبان کے کئی مقتدر رہنماؤں کے نام دہشت گردی کی فہرست سے خارج نہیں کیے اقوام متحدہ کی فہرست کا مسئلہ بھی یہی ہے۔ دریں حالات ہفتے کے روز امریکہ عسکری ذرائع کا بیان کہ ”وہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف فضائی کارروائی کا اب بھی اختیار رکھتے ہیں اور اس کے لئے اقوام متحدہ سے کسی نئے مینڈیٹ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے“ ۔ یہ بیان تعاون و امداد کے لئے دی گئی متذکرہ صدر اجازت کی حقیقت عیاں کرتا ہے۔ امریکہ اپنے عوام اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے اس کے مفاداتی عزائم افغانستان پر پلٹ کر حملہ آور ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں، بدلے ہوئے امریکی مزاج کے پس منظر میں متوقع امریکی فضائی حملوں کی دھمکی میں پاکستان کے لئے بھی خدشات کی لہر موجود ہے جو اب زیادہ سنگین اور تشویشناک ہو گئی ہے۔
دریں حالات امریکیوں کو لاعلم اور نا اہل قرار دینے والے بیانات کی بجائے جناب عمران خان کو چاہیے کہ جلد از جلد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے الگ الگ اجلاس بلائیں۔ مجموعی خارجہ پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور بالخصوص افغان بحران کے متعلق تفصیلی سیاسی مباحثہ کرائیں تاکہ قومی دفاع و خارجہ امور میں وسیع السطح سیاسی بصیرت کے ذریعے شامل پالیسیوں کے خدو خال کو اطمینان بخش بنایا جاسکے، وسیع البنیاد سیاسی اتفاق رائے کی جتنی ضرورت افغانستان کو ہے پاکستان کو اس کی ضرورت پہلے سے دو چند ہے۔ اور تاخیر بہت زیادہ نقصان دہ ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments