ابا جی!


سانولا، لمبا چیرا، تیکھا ناک، متناسب اونچے مرد، سمارٹ اور سنجیدہ خدوخال، ان سب کو ملائیں تو ابا جی کا کچھ خاکہ بنتا ہے۔ میں نے انھیں زیادہ تر بردبار، دو ٹوک، اپنی نا پسندیدہ بات پے اگلے کو اپنی حد کا تعین کرنے کا اشارہ دینے والا پایا۔ خاندان میں ثالث رہے، بارعب اور آن بان والے رہے۔ زندگی کا زیادہ وقت سختیوں میں گزارا۔ محنت کرتے رہے، بچوں پر لگاتے رہے۔

میرے لئے تو وہ میری زندگی میں آنے والے پہلے روشن خیال مرد رہے۔ چھ بیٹیوں کے باپ ہونے کی وجہ سے معاشرے اور خاندان کے بے پناہ نظر آنے اور نہ دکھنے والے دباؤ کو فیس کرنے والے پہلے با ہمت مرد۔

میں چھوٹی تھی تو اپنی فیملی کو گاؤں سے شہر لے آئے۔ اپنے ساتھ رکھا، اپنے ساتھ کھلایا، اپنے ساتھ سلایا۔ لوڈشیڈنگ کی راتوں میں اولاد سے شعر و شاعری کا مقابلہ کرنے والے، بیٹیوں کے ساتھ کاموں میں ہاتھ بٹانے والے باپ اور بیوی کی مدد کرنے والے شوہر۔

مزاجاً سخت تھے لیکن وہ سختی پانچ بچوں سے ہوتے ہوئے جب مجھ تک پہنچی تو نرمی میں بدل چکی تھی۔ ایف۔ ایس۔ سی کے بعد کچھ گھریلو حالات اور کچھ معاشرتی رویوں کی وجہ سے یہ ممکن نہ لگتا تھا کہ وہ مجھے پڑھنے کے لئے لاہور بھیجیں گے لیکن نا چاہتے ہوئے اور مخالفتوں کے باوجود بھی میرا یو۔ ای۔ ٹی میں داخلہ کروایا۔ خاندان اور شہر سے باہر لڑکوں کے ساتھ جامعہ میں پڑھنے والی پہلی لڑکی۔ گریجویشن اور ایم۔ ایس کے سات آٹھ سالوں میں وہ فجر کے بعد مجھے ملنے آتے۔

کبھی ایک ماہ بعد کبھی جلدی۔ یونیورسٹی کے دنوں کی مایوسیاں اور پریشانیاں لمحہ بہ لمحہ حل کرتے۔ جس دن ملنے آتے، میرے ساتھ واک کرتے ہوئے کیفے ٹیریا تک جاتے، بیٹھتے، ساتھ ناشتہ کرتے۔ میرے ہم جماعتوں سے ملتے، کلاس تک چھوڑ کر اپنے دفتر کے کاموں پہ چلے جاتے۔ اندھا اعتماد کر کے کبھی کسی ٹرپ اور فیلڈ سروے سے منع نہیں کیا۔ لمبی چوڑی نصیحتیں نہ کیں اور ان دیکھے میں ایک بیٹی کو مضبوط کرتے رہے۔

میری شادی کا فیصلہ ان کے لئے جان لیوا تھا۔ برادری سے ہٹ کے، دور، الگ، انجانے خاندان میں صرف ایک بندے کے اعتبار پہ اپنی بیٹی کو اس کے سپرد کرنا ماں باپ کے لئے بڑا کٹھن ہوتا ہے۔ لیکن ابا نے وہ بھی کیا۔ اور آج جب جب بھی میں اس بندے کو دیکھتی ہوں جس کو ابا نے بہت سوچ بچار سے چنا تو اور دعائیں دل سے نکلتی ہیں۔

میں ابا کی بے حد مقروض ہوں۔ انھوں نے مجھے محبت بھی دی اور عزت بھی۔ چھ بیٹیوں کی لائن میں پانچویں کو کبھی ان چاہا نہ سمجھا۔ اس کے لئے وہ کیا جس نے ذرے کو آسمان بنا دیا۔ روایتی سے آؤٹ آف دی وے سوچنے والا بنایا۔ رسموں و رواجوں کو بدلنے والی اپروچ دی۔ جسے دنیا سے دین تک کا سفر کروایا۔

ابا میرے لئے کوئی دنیا کی مشہور پرسنالٹی نہیں، کوئی اونچا لمبا بیک گراؤنڈ نہیں۔ کوئی دولت کے ڈھیر کمانے والا کروڑ پتی نہیں۔ بلکہ ابا میرے لئے ایک وژن ہیں۔ ایک جنگجو ہیں۔ ایک امید ہیں اور سب سے بڑھ کے ایک ساتھی ہیں جس نے زمانے کی مروجہ طریقوں اور مشکلات کے خلاف مجھے پالا۔ یہ کہنا مشکل ہے لیکن یہی حق ہے کہ مجھے ابا سے پیار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments